حضور سیدی سرکا ر اعلحضرت کی ذات عالی سے کون واقف نہیںجو ولی ابن ولی ھو جس کے نسب اول تا آخر علوم نبویہ سے مزین رھے ہو ں اور معرکہ کے سالار اعلی رہے ہوں اسکی ذات اہل دنیا کیلئے محتاج تعارف نھیں ۔
آپ کا نسب نامہ
۱۔ سعید اللہ خاںرحمة اللہ علیہ
۲۔ سعادت یار خاںرحمة اللہ علیہ
۳۔ حضرت محمد اعظم خاںرحمة اللہ علیہ
۴۔ حضرت حافظ کاظم علی خاں رحمة اللہ علیہ
۵۔ مولانا رضا علی خاں رحمة اللہ علیہ
۶۔ مولانا نقی علی خاں رحمة اللہ علیہ
۷۔ امام احمد رضا خاں رحمة اللہ علیہ
سعید اللہ خاں رحمہ اللہ علیہ
نابغئہ روز گار، خلاصئہ لیل و نہار، شاہ ملک سخن، مرکزدائرہ علم و فن، امام اہلسنت عظیم البرکت الشاہ امام احمد رضا حضور اعلحضرت کی چھٹی پیڑی میں حضرت سعید اللہ خاں ہوئے۔ جو ہندوستانی جنگ کے بڑے شھسوار تھےآپکو جنگ میں بڑی مہارت تامہ حاصل تھی آپ خاندان مغلیہ کے باد شاہ محمد شاہ {جو اپنی عشرت کوشیوں کی وجہ سے محمد شاہ رنگیلہ کہلاتا تھا}کے دور میں ملک ھندوستان کے دارالسلطنت دہلی پر ۱۷۳۹ءمیں" نادر شاہ درانی"نےحملہ کیا اور اسکے بعد قتل عام شروع کیا وہ تاریخ ہند کی بہت بڑی درد ناک اورخونچکاں داستان ھےاسی نادر شاہی قافلہ میں ملک افغانستان کے شہر قندہار کے مشہور قبیلہ بڑہیچ کے ایک پٹھان ایک مرد ذیشان عظیم جرنل حضرت سعید اللہ خاں بھی شامل تھے آپ شہر لاہور میں وارد ہوئے اور شاہ دہلی نے ان کی جواں مردی خاندانی جاہت وشجاعت وجرات کو دیکھتے ہوئے ہاتھوں ہاتھ لیا دہلی آۓتو بادشاہ نے آپکو چھہ ہزارفوجیوں کا کمانڈر مقررکرکےسیادت کے منصب پر فائز کیا اور انکی عسکری صلاحیتوں کے مد نظر انہیں شجاعت جنگ کے خطاب سے نوازا گیا۔
حضرت سعادت یار خاں رحمة اللہ علیہ
آپ حضرت سعیداللہ خاں صاحب کے صاحبزادے تھے اور ایک بڑے عہدے پر فائز تھے منجانب سلطنت ایک مہم سر کرنے کے لے بریلی روہیل کھنڈ بھیجے گئے فتح یابی پر ان کو بریلی کا صوبہ دار بنانے کے لے فرمان شاہی آیا لیکن وہ اس وقت آیا کہ آپ بستر مرگ پر تھے {حیات اعلیحضرت}۔
حضرت محمد اعظم خاں رحمة اللہ علیہ
آپ کو بھی دربار میں باعزت مقام اور منصب وزارت حاصل تھی لیکن کچھ عرصہ بعد آپ کا دل دنیوی کروفر سے اچاٹ ہوگیا اور آپنے سب کچھ ترک کر کے درویشی اختیار کرلی آپ کا وصال بریلی ہی میں ہوا محلہ بہاری پور معماران کے قبرستان میں آپ آسودہ ہیں اس قبرستان کا نام آپ ہی کی وجہ سے شھزادے کا تکیہ پڑگیا ۔
حضرت حافظ کاظم علی خاں رحمة اللہ علیہ
آپ حضرت محمد اعظم خاں کے جانشین اور بڑے صاحبزادے ہیں آپ شہر بدایوں کے حاکم تھے دوسوسواروں کی بٹالین آپ کے محافظ دستے میں شامل تھی آپ کو حضرت مولانا انوارالحق صاحب فرنگی محلی رحمةاللھ علیھ سے بیعت وخلافت حصل تھی مولانا انوارالحق حضور اعلی حضرت امام احمد رضا کے مرشد طریقت حضرت سیدنا آل رسول احمدی رضی اللہ عنہ کے استاذ تھے۔{فتاوی رضویھ۲}
{کرامت کا منظر}
آپ ہر جمعرات کو اپنے والد حضرت حافظ کاظم رحمةاللہ علیہ کی بارگاہ میں سلام کےلئے حاضر ہواکرتے تھے ایک بار جاڑے کے موسم میں آپنے دیکھا کھ حضرت والد بزرگ خلوت خانہ گورستان میں الاو لگاۓ بیٹھے یادالہی میںمشغول ہیں اور جسم پر جاڑے سےبچنے کے لۓ کوئی کپڑا نہیں ھے لھذا آپ نے اپنا قیمتی دوشالہ انہیں اوڑھا دیا آپنے شان بے پرواہی کے ساتہ دوشالہ آگ میں ڈال دیا حافظ کاظم علی نے سوچا کہ دو شالہ راکھ ھوجاۓ گا کاش اسے کسی اور ضرورت مند کو دے دیتے ادھر حافظ کاظم کے دل میں خیال آیا ادھر والد محترم کومعلوم ہوگیا لہذا آپنے یہ کہکر کاظم فقیر کے یہاں دھکڑ پکڑ کا معاملہ نہیں ھےبھڑکتی ہوئ آگ سے دوشالہ نکال کر صاحبزادے کو لوٹا دیا آگ میں ہونے کے باوجود دوشالہ سلامت تھا
حضرت قوة الواصلین امام العلماء مولانا رضا علی خاں رحمہ اللہ علیہ
آپ حضرت حافظ علی رحمةاللہ علیہ کےفرزند ارجمند ہیں آپ کی ولادت{ ۱۸۰۹ء} میںبریلی میں ہوئی آپ اس خاندان کے پہلے شخص ہیں جو علم دین کی دولت لاۓ اور خاندان میں مفتیوں کا چراغ ر وشن ہواتو ھو تاھی رھا آپ سی ھی حاکمیت اور شمشیر وسنان کے بجاۓ قلم وکتاب کا دور شروع ہوا {اور گمراہ شدہ فرقہ پر شیر خدا اور سیف اللہ کی شمشیر بن کر بجلی کی طرح چمکا }۲۲/سال کی عمرمیں{۱۲۲۴آپنے خلیل الرحمن ٹونکی راجستھانی سے جملہ علوم وفنون کی تکمیل کی اور شہرہ آفاق ہوگۓ
آپ باکمال ولی کامل تھے آپکی کئ کرامتوں میں سے ایک اس طرح ھے ایک بازاری ہندو عورت نے ہولی کے دنوں میں آپ پر اپنے بالا خانہ سے رنگ ڈال دیا یہ دیکھ کر ایک مسلمان نے عورت پر تشدد کرنا چاہا آپ نے اسے روک دیا ۔اور کیا ہی فرمایا کھ اسنے مجھ پر رنگ ڈالا ہے خدا اسے رنگ دےگا ۔ابھی آپ کا کہنا ہوا کہ وہ بازاری عورت فورا قدموں پر گری اور ایمان لے آئی سبحان اللہ یہ ہے اللہ والوں کی پہچان
آپ ہندوستان کی جنگ آزادی کے مجاہد بھی تھے آپنے انگریزوں کے خلاف علماۓ اہلسنت کے فتوئہ جہاد کی تصدیق وحمایت فرمائی تھی۔اور آزادی تک رسد اور گھوڑے پہچانے کی ذمہ داری اپنے فرزند حضرت رئیس الاتقیاء مولانا نقی علی رحمةاللہ علیہ کے سپرد کر رکھا تھا
آپ کے بے شمار تلامذہ تھے جو ہر اعتبار سے ہر فن میں مہارت تامہ رکھتے جیسے محمدحسن علمی،مولانا ملک محمد علی خاں ،مولانا فخرالدین،
آپ کی ولادت{۱۲۲۴ھ}میں پیداء ہوۓآپکا وصال پاک ۲/جمادی الاولی ۱۲۸۶ ھ میں ہواآپ کے اوصاف شمار سے بہار ہیں خصوصا نسبت کلام،سبقت سلام،زہدوقناعت،علم وتواضع،تجریدوتفرید آپ کی خصوصیات تھے
حضرت مفتی نقی علی خاں رحمہ اللہ علیہ
وہ جناب،فضائل ماب،تاج العلماء،راس الفضلا،حامی سنت،ماحی بدعت،بقیةالسف،حجةالخلف،رضی اللہ عنہ جمادی الاخری رجب ۱۲۲۴ھ کو رونق افزاۓ داردنیا ہوۓ آپ نے اپنے والد ماجد حضرت عارف باللہ صاحب کمالات باہرہ وکرامات ظاہرہ مولانا رضا علی خاںصاحب سے اکتساب علوم فرمایا – بحمدہ تعالی منصب شریف کا پایہ ذرہ علیا کو پہچا-اور اس کافائدہ ہمارے لۓ یہ ہوا کہ آپ نے اپنے بازوۓ ہمت وطنطنہ صولت سے اس شہر کو فتنہ مخالفین سے یکسر پاک کر دیا
بیعت وخلافت
پنجم جمادی الاخرہ ۱۲۹۵ھ کو مارہرہ مطہرہ میں سید الواصلین سند الکاملین سیدنا آل رسول احمدی کے دست اقدس پر شرف بیعت حاصل کی
حج وزیارت- ۲۶/شوال ۱۲۹۵ھ کوباوجود شدت علالت وقوت ضعف ،خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری دینے گۓ اور وہاں حضرت سید احمد زین دحلان شیخ الحرم وغیرہ علماۓ مکہ معظمہ سے مکرر سند حدیث حاصل فرمائی
وصال- ذیقعدہ بروز جمعرات وقت ظہر ۱۲۹۷ھ کو اکیاون برس پانچ مہینہ کی عمر میں بعارضہ اسہال دموی شہادت پاکر شب جمعہ اپنے والد ماجد صاحب کے کنارے میں جگہ پائی۔
آپکی شادی اسفند یار بیگ کی بڑی صاحبزادی حسینی خانم سے ہوئی
آپکی ۶ اولادیں ہوئی {۱}مولانا احمد رضا خان{۲}مولانا حسن رضا خان{۳}مولانا محمد رضا خان{۴}حجاب بیگم {۵} احمدی بیگم {۶} محمدی بیگم
امام احمد رضا رضا خان قادری برکاتی رضی اللہ تعالی عنہ
آپکی ولادت باسعادت شہر بریلی شریف محلہ جسولی میں اپنے آبائی مکان اورجو حضرت جد امجد مولانا شاہ رضاعلی کا قیام گاہ تھا ۱۰/شوال المکرم ۱۲۷۲ھ بروز سنیچر وقت ظہر مطابق۱۴/جون ۱۸۵۶ءموافق ۱۱ جیٹھ سدی ۱۹۱۳ء سمبت کو ہوئی جو ذات اظہر من الشمس ہو اسکے بارے میں کیا کلام مختصریہ کہ آپ اپنی تصنیفات کے ذریعے آج پوری دنیاۓ سنیت میں اعلیحضرت جانے جا رہے ہیں اور قیامت تک جانے جاتے رہینگے آپکا وصال ۴۲ صفر المظفر ۱۳۴۰مطابق ۲۸ اکتوبر۱۹۱۲ بروز جمعھ ۲ بجکر ۸۳ منٹ کو ہوئی۔ -