ابتدائی کتابیںمکتب کے مولوی صاحب سے جب حضور اعلی حضرت نے پڑھ لیں ، تو میزان ،منشعب وغیرہ جناب مرزا غلام قادر بیگ صاحب سے پڑھنا شروع کیا۔
علامہ ملک العلماء اعلی حضرت علیہ الرحمة کا قول نقل کرتے ھوئے فرماتے ھیں کہ "اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے تھے کہ:جمادی الاولی ۱۲۹۴ھ میں شرف بیعت سے مشرف ھوا ۔ تعلیم طریقت حضور پیر و مرشد بر حق سے حاصل کیا ۔ ۱۲۹۶ھ میں حضرت کا وصال ھوا ، تو قبل وصال مجھے حضرت سیدنا الشاہ ابو الحسین احمد نوری اپنے ابن الابن ولی عہد و سجادہ نشین کے سپرد فرمایا ۔ حضرت نوری میاں صاحب سے بعض تعلیم طریقت و علم تکسیر ، علم جفر وغیرہ علوم میں نے حاصل کیے ۔
الغرض:
اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کے اساتذہ کی فہرست بہت مختصر ھے ۔ حضرت والد ماجد صاحب قدس سرہ العزیز کے علاوہ پنجتن پاک کے عشاق صرف یہ پانچ نفوس قدسیہ ھیں ۔
۱۔ اعلی حضرت کے وہ اساتذہ جنہوں نے ابتدائی کتابیں پڑھائیں۔
۲۔ جناب مولانامرزا غلام قادر بیگ صاحب بریلوی رحمة اللہ تعالی علیہ۔
۳۔ جناب مولانا عبد العلی صاحب رامپوری رحمة اللہ تعالی علیہ۔
۴۔ حضر خاتم الاکابر سید شاہ آل رسول صاحب قدس سرہ العزیز۔
۵۔ حضرت سلالئہ خاندان برکاتیہ سیدنا الشاہ ابو الحسین احمد نوری رضی اللہ تعالی عنہ۔
اور والد ماجدرضی اللہ تعالی عنہ کو شامل کرکے چھ نفوس قدسیہ ھوتے ھیں۔
ان چھ حضرات کے علاوہ حضور اعلی حضرت نے کسی کے سامنے زانوئے ادب تہ نھیں کیا ۔ مگر خداوند عالم نے محض اپنے فضل و کرم اور آپ کی محنت و خداداد ذھانت کی وجہ سے اتنے علوم و فنون؛ کا جامع بنایا کہ پچاس فنون میں حضور اعلی حضرت نے تصنیفات فرمائیں ۔ اور علوم و معارف کے وہ دریا بہائے کہ خدام و معتقدین کا تو کہنا کیا ، مخالفین مختلفین تعریف کرتے، اپنی سیاہ قلبی کی وجہ سے برائیاں کرتے ، مگر ساتھ ساتھ ٹیپ کا یہ بند ضرور کہنے پر مجبور ھوتے کہ یہ سب کچھ ھے مگر مولانا احمد رضا خاں صاحب قلم کے بادشاہ ھیں ۔ جس مسئلہ پر قلم اٹھا یا ، نہ موافق کو ضرورت افزائش ، نہ مخالف کو دم زدن کی گنجائش ھوتی ھے ۔