امام احمدرضا خاں فاضل بر يلوی کے فقھی مقام کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں۔
آپکی فقہی تحقیقات مختلف انواع پر منقسم ہیں۔بعض مسائل میں انہوں نے فقہاۓ متقدمین کی عبارتوں میں اضطراب کو رفع کرکے تطبیق بین الاقوال فرمائی ہے۔ بعض مواقع پر جو گوشے متقدمین کے نظر سے مخفی رہ گئے ہیں۔انھیں اجاگرکرکے حق کو آشکارا کیا ہے۔معاصر فقہا میں جن جن حضرات نے فقہی مسائل میں لغزشیں کھا
ئیں ہیں ان پرانہیں انگنت وجوہ سے متنبہ کیا ہے۔
ایک فقیہ کیلۓ تمام مسائل میں مکمل اور مفصل دلائل پر واقف ہونافقہ کی اساس و بنیادہے۔اگر دلائل کی قوت اور ندرت استدلال ایک فقیہ کی بصیرت پر روشن ثبوت ہے۔تو دلائل کی کثرت اسکے علم کی وسعت اور ھمہ گیری کا واضح نشان ھے۔ دلائل ہی سے ایک فقیہ کی شان تفقہ ظاہر ہوتی ہے اور دلائل ہی سے اسکی رفعت مراتب نمایا ہوتی ہے ۔اس حیثیت سے جب
ہم فاضل بریلوی کے فتاوی پر نظر دوڑاتے ہیں تو آپ کتاب و سنت سے
استنباط کرنے میں ایک صاحب بصیرت فقیہ نظر آتے ہیں دلائل کی کثرت آپ کے فتاوی میں اس حد تک ہے کہ آپ کئی سو سال کے فقہا کے درمیان یکتا ویگانہ دکھائی دیتے ھیں آپ کے یہاں دلائل کی بہتات دیکھنے کے بعد مذہب حنفی کی قوت بخوبی واضح ہوجاتی ہے اور ساتھ ہی اس اعتراض کی حیثیت بھی ظاھر ہو جاتی ہے کھ علماء حنفیہ زیادہ تر قیاس پر عمل کر تے ہیں چند فتاوی کی نشاندہی کر تاہوں تاکہ آپ کے کثرت استد لال کا اندا زہ ہو سکے
پہلا۔۔۔۔
نماز جنازہ دوبارہ پڑھنے کی اجازت ہے یا نہیں؟آپنے اس سوال کی مکمل تنقیح فر ما کر دس نو عوں میں بحث فر مائی اور فقھ کی مستند اور متداول کتابوں سے ۲۰۷حوالے اور عبارتیں پیش کیں بلکہ ایک دوسرے مقام پر خاص اسی مسئلے میں کتب فقہ کی چالیس عبارتیں اورحدیثیں ذکر کیں
دوسرا۔۔۔۔
نماز کے بعد دعا مانگنے کے سلسلے میں ثبوت طلب کیا گیا تو آپنے اس کے
ثبوت میں ایک آیت، حدیث کی متداول کتب سے دس حدیثیں تخریج فرمائیں جبکہ مولا نا عبد الحکیم فرنگی محلی نے اس مسئلے کےجواب میں صرف ایک حدیث پیش کی اور فرقئہ اہل حدیث کے مسلم الثبوت محدث مولوی نذیر حسین نے بھی اس مو ضوع پر صرف ایک حدیث ہی لکھی تھی
تیسرا۔۔۔۔
اوقات صلوة کی پابندی لازم ہے اور جمع بین الصلوتین ناجائز ہے اس موضوع پر آپ نے ایک مستقل رسالہ ' حا جزالبحرین' تصنیف فرمائی جس میں قرآن عظیم کی سات آیات اور احادیث کی مشھور و مستند کتابوں سے چھتیس حدیثیں پیش فر مائیں
صرف یہ مثالیں ہی نہیں بلکہ اور دیگر تحقیات سے اعلي حضرت کی فقھی بصیرت پر دسترس نما یاں ہو تی ہے نویں صدی ہجری سے اب تک کی تاریخ میں جن فقہاء کے حالات پر اور انکی تحقیات پر نظر ڈالی تو انمیں اعلیحضرت کی شان منفرد پائی ہے کہ مشکل سے مشکل مقام نتقیح میں آپکا قلم چابک دست نظر آتاہے کئی ہزار صفحات پر پھیلے انکے فتاوی میںایک بھی مقام ایسا نظر نہیں آتا کہ جہاں حکم کی تنقیح باقی رہ گئی ہو فقہ کی پر خار وادیوں سے آپ کی سبک خرامی اور علم کے بحر ذخار سے گوہر مراد کی تحصیل کا مشاہدہ کر کے حرمین طیبین کے فقھاء بھی کہہ اٹھے"لوراھا ابو حنیفةالنعمان لاقرت عینہ ویجعل مئولفھا من جملة الاصحاب "یعنی اگر امام اعظم ابو حنیفہ ان کے فتاوی کو دیکھتے تو انکی آنکھوں کو ٹھنڈک ملتی اور انکے مصنف کو اپنے اصحاب میں جگہ دیتے
لہذا یہ بات اظھر من الشمس ہے کہ اعلحضرت کی ذات گرامی ہما رے لئےہی نھیں بلکہ پورے عالم اسلام کے لئے ایک نعمت کبری اورآفتاب عالم تاب کی حیثیت رکھتی ہے جنکی کرنوں کا ساراعالم بھکا ری ہے انشاءاللہ اعلحضرت قدس سرہ کی تصانیف جس قدر دنیا والوں کے سامنے آتی جائیں گی آپکی عظمت کا اسی قدر احساس بڑھتا جائے گا آج عالم میں امام احمد رضا قدس سرہ کی تصانیف عام کرنے کی سخت ضروت ہے۔