اسلام میں سوانح نگاری کی روایت شروع سے ہی چلی آرہی ہے۔ بزرگان دین کے تذکروں ،ان کی زندگی کے حالات،انکے دینی ،روحانی اور علمی کارناموں سے موجودہ اور آنے والی نسلوں کو اپنے بزرگوں پر فخر محسوس ہونے کے ساتھ ان کے ذہن وفکر کو روشنی ملتی ہے،ایمان کو تازگی حاصل ہوتی ہے اور عمل کی تحریک وترغیب ملتی ہے۔
آج ہمارے مجدد دین وملت ،سیدنا اعلیٰ حضرت امام احمد رضاکی حیات وشخصیت اور کارناموں کی پوری دنیا میں دھوم ہے اور نہ صرف دنیائے سنیت بلکہ جہان انسانیت کو بھی فکر ونطر کے روشن زاوے حاصل ہے۔آعلیٰ حضرت امام احمد رضا کو حضور سے سچی محبت اور ان کے دین وشریعت کی خدمت اور تبلیغ واشاعت کے طفیل اللہ عز وجل نے جہاں عزت وعظمت اور ناموری عطا کی وہیں انہیں دو ایسے لعل عطا کئے کہ جن کو بھی اللہ تعالیٰ نے علم وعمل وفضل اور روحانیت سے خوب خوب نوازا ۔پوری دنیا ان کے فرزندان ذی وقار حجۃ الاسلام حضرت علامہ ومولانا حامد رضا خان اور مفتی اعظم حجرت علامہ ومولانا مصطفی رضا خان رحمۃ اللہ علیہما کی دینی عظمت اور علمی وجاہت سے خوب واقف ہے اور ان کے فیوض وبرکات سے دنیائے سنیت مالا مال ہے۔
آعلیٰ حضرت کے خلف اکبر حجۃ الاسلام حضرت علامہ ومولانا حامدرضا خاں قدس سرہ العزیز کی شخصیت محتاج تعارف نہیں البتہ ضرورت ہے کہ ان کی شخصیت اور کارناموں غور وفکر اور تحقیق کی جائے اور انہیں عام کیا جائے ۔آپ کی ذات تو وہ ہے کہ جن کے علم وفضل کا اعتراف خود آعلیٰ حضرت کو تھا ،عرب وعجم کے علماء ومشائخ کو تھا اور آج بھی جن کے حسن صورت اور حسن سیرت اور علمی جلالت وروحانی کمال کا چرچا ہے۔
شجرئہ نسب:۔
خاندان مغلیہ کے بادشاہ محمد شاہ (جو اپنی عشرت کوشیوں کی وجہ سے 'محمد شاہ رنگیلا' کہلاتا تھا)کے دور میں ملک ہندوستان کے دار السلطنت دہلی پر ١٧٣٩ء میں 'نادر شاہ درانی' نے جو حملہ کیا اور اس کے بعد قتل عام شروع کیا وہ تاریخ ہند کی بہت بڑی خونچکاں داستان ہے۔
اسی نادر شاہی قافلہ میں ملک افغانستان کے شہر قندھار کے مشہور قبیلہء بڑہیچ کے پٹھان ،ایک مرد ذی شان ،ایک عظیم جرنیل حضرت سعید اللہ خاں بھی شامل تھے ۔آپشہر لاہور مین وارد ہوئے اور شاہ دہلی نے ان کی جواں مردی ،خاندانی وجاہت اور شجاعت وجرء ات کو دیکھتے ہوئے ہاتھوں ہاتھ لیا۔دہلی آئے تو بادشاہ نے فوج میں انہیں چھہ ہزار فوجیوں کا کمانڈر مقرر کرکے 'شش ہزاری' منصب پر فائز کیا اور ان کی عسکری صلاحیتوں کے مد نظر انہیں 'شجاعت جنگ' کے خطاب سے نوازا۔
اس مرد میدان ،خان ذی شان ،شجاعت جنگ سعید اللہ خاں علی الرحمۃ والرضوان کی فیروز بختی پر جس قدر بھی فخر کیا جائے کم ہے کہ اس کی نسل سے نسلیں مہک رہی ہیں ،شریعت کی فصلیں لہک رہی ہیں ،طریقت کے گلزار لہلہارہے ہیں علم وفضل کے شہر ستانوں میں رونق برپا ہے،اور جہاں جہاں بھی نعت ومیلاد کی محفلیں آراستہ ہوتی ہیں ،نبوی عظمت وسیرت کے جلسے منعقد ہوتے ہیں ،اعراس بزرگاں کاانعقاد ہوتا ہے ۔اس سعادت نشان حضرت سعید اللہ خاں کی چھٹی پشت کی اولاد مجدد اسلام ،حضرت
احمد رضا امام ،عظیم البرکت ،اعلیٰ حضرت کے ترانے بھی مچلتے سنائی پڑتے ہیں اور حق یہ ہے کہ اسی نے ان محبت بھری تقریبات اور رسوم شرعیہ کے جوز کا فتویٰ دیکر فرقہائے باطلہ کی بدعت ،بدعت کی تکرار کا گلہ گھونٹ دیا اور مسلمانان عالم کے ہاتھوں کو مصطفی جان رحمت اور ان کے نائبین ،صحابہ واولیاء کے دامنوں سے وابستہ کردیا۔آج اسی عظمت نشان سعید اللہ خاں کی اس اولاد کے نام سے مسلک حق ،مسلک اہل سنت متعارف ہے 'مسلک اعلیٰ حضرت '۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا علم وفضلیت کے نظام کے وہ شمس تاباں ہیں جن کے خلفاء اور مردین اس نظام شمسی کے سیارے اور ستارے ہیں اور حضرت حجۃ الاسلام مولانا شاہ حامد رضا خاں اور حضرت مفتی اعظم ہند مولانا شاہ مصطفی رضا خاں رحمۃ اللہ علیہما دو پیارے منور ودرخشاں چاندہیں ۔
رضا کے پہلے چاند ہیں حضرت حجۃ الاسلام !یہ چاند اس ماہ مبارک میں طلوع ہوا کہ جس ماہ میںجس ماہ مبارک میں حضرت آمنہ اور حضرت عبد اللہ کا چاند ،سارے جگ کا نور جگمگایا ۔
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام
ماہ ربیع الاول نہ صرف اسلامی مہینہ کی پہلی بہار ہے بلکہ کونین کی پہلی فصل بہار ہے کہ اسی ماہ مقدس کے صدقے میں دن،مہینے ،سال،صدیاں اور زمانہ ہیں اور اس نورانی مہینے میں عالم رنگ وبو میں لباس بشری میں تشریف لانے والے کونین کے دولہا ہی کے صدقے میں اور انہیں کے نور سے خالق کائنات اللہ نور السمٰوات والارض نے سارے جہاں کو خلق فرمایا۔
اللہ اکبر!رضا کا چاند طلوع ہوا تو اسی ماہ مقدس ماہربیع الاول میں ہوا۔حضرت حجۃ الاسلام ماہ ربیع الاول ١٢٩٢ھ مطابق ١٨٧٥ء میں اپنے جد امجد خاتم المحققین ،رئیس الاتقیائ،حضرت مولانا نقی علی خاں رحمۃ اللہ علیہ کے گھر ،بریلی میں تولد ہوئے۔
عقیقہ کا نام:۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا نے تاریخی نام'محمد ' رکھا،اسم 'محمد کے اعداد بحساب حروف ابجد ٩٢ ہیں ۔کویا ١٢٩٢ھ کی پیدائش کے اعتبار سے کیا ہی درست اور شاندار تاریخی نام نکلا۔
تعلیم وتربیت:۔
خاندانی رواےت کے مطابق حجۃ الاسلام نے بھی تمام کتابیں اپنے عظیم المرتبت،نادر روزگار اور مرکش دائرہ علم وفن،شاہ ملک سخن اعلیٰ حضرت امام احمد رضا سے پڑھیں اور ١٩ سال کی عمر ١٣١١ھ۔۔۔١٨٩٤ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔
(پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد:حیات مولانا احمد رضا خاں بریلوی ص ٢١٢)۔
کبھی کبھی سیر سپاٹے ےا شہ سواری کی وجہ سے تعلیم میں تساہل ہو جاتا تو اعلیٰ حضرت آپ پر تادیبا سختی بھی فرماتے لیکن اعلیٰ حضرت کی والدہ محترمہ اپنے لاڈلے پوتے کو اعلیٰ حضرت کی سختی سے بچا لےتں۔
(مولانا حسنین رضا خاں :سیرت اعلیٰحضرت ص٩١ملخصا)۔