ابتدائیہ

از:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمدعسجدرضاقادری بریلوی
العلم نورعلم ''نور''ہے، علم ایک ایسی لافانی''روشنی'' ہے جوبلاتفریق مذہب وملت سب کویکساںفیضیاب کرتی ہے ،علم انسان کودیگر مخلوقات سے ممتازکرتاہے، علم کے بغیرانسان بالکل''جسم بے روح'' کی مانند ہے یہی وجہ ہے کہ خالق کائنات جل شانہ نے معلم کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو سب سے پہلے ''اِقْرأَ''کاحکم فرمایا۔اس سے علم کی اہمیت وافادیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا''طلب العلم فریضۃ علیٰ کل مسلم ومسلمۃ''مرد و عورت سبھی کے لئے حصول علم لازمی ہے، حصول علم کے لئے عمر کی کبھی کوئی قید نہیں رہی''اطلبواالعلم من المھدالی اللحد''اورنہ ہی اس کے لئے زمین کی دوریاں کوئی رکاوٹ ہیں ''اطلبواالعلم ولو بالصین'' علم دنیا کی واحد ایسی شیء ہے جو زمان و مکان سے بالاتر ہوکر ہر دور اور ہر گوشے میں اپنی عظمت وبرتری کا لوہا منواتی رہی ہے ، نہ زمان کی پیچیدگیاں اس کی ضرورت پراثرانداز ہو سکیں نہ مکان کی صعوبتیں اس کی اہمیت کوگھٹا سکیں ، نہ رنگ ونسل کا اختلاف اس کی ترقیات کی راہ میں حائل ہو سکا نہ مذہب و مسلک کی نیرنگیاں ا س کے وسعت پذیر دائرے کو محدود کرسکیں۔ غرض کہ علم روز افزوں شاہراہ ترقی پرگامزن ہے اوردنیا کو حیرت و استعجاب میں ڈال دینے والی نت نئی تحقیقات وانکشافات کوجنم دے رہا ہے۔
علم کواپنے عروج و ارتقاء کے لئے مختلف نشیب وفراز بھرے ادوار وانقلابات کاسامنا رہا چنانچہ ایک دور وہ تھا جب تعلیم وتعلم کے لئے باقاعدہ کوئی نظم و نسق نہ تھا حاملان علم وفضل طالبان علم وفن کوانفرادی طورپر زیورعلم وفن سے آراستہ کرنے کی جدوجہد کرتے طالبان علم اپنی علمی سیرابی کے لئے ہفتوں، مہینوں بلکہ برسوں میں پرخار وادیوں کادشوار گزارسفر طے کر کے کسی صاحب علم وفضل کی بارگاہ میںحاضر ہوتے لیکن کثرت ہجوم کے سبب انھیں کماحقہ علمی تشنہ کامی نہیں حاصل ہوتی ۔ پھر رفتہ رفتہ ایک دور وہ آیاجب انسان کوباقاعدہ طور پر علم وفن سے آراستہ کرنے کی اجتماعی تدبیریں ہونے لگیں اوراس کے لئے محدود وسائل و ذرائع کے ساتھ کچھ تعلیمی ادارے بھی معرض وجود میں آئے اس سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ تشنگان علم وفن کو اپنی علمی پیاس بجھانے کے لئے ایک مستقل مرکز مل گیا۔ اس طرح پر مزید تعلیم گاہوں کا قیام عمل میں آتا گیا اور اب چشم فلک دیکھ رہا ہے کہ آج نوع انسانی کوتعلیمی زیور سے آراستہ کرنے کے لئے دنیا میں بے شمار کلیات و جامعات معرض وجود میں ہیں۔
انھیں اداروں میں سے ایک'' جامعۃ الرضا''ہے جسے والد گرامی سیدی وسندی حضورتاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد اختر رضا خاں قادری ازہری بریلوی مدظلہ لعالی نے ٢٤/صفرالمظفر ١٤٢١ھ بمطابق ٢٩/ مئی ٢٠٠۰ء کی تاریخ ، بروز پیر سر زمین بریلی شریف میں قائم فرمایا جو ۱۰۰/بیگھہ وسیع وعریض آراضی پر پھیلا اپنے عظیم منصوبوں کے ساتھ فرزندان توحید و رسالت کوقال اللہ وقال الرسول (جل وعلا وصلی اللہ علیہ وسلم)کا ملکوتی جام پلا رہا ہے کل تک جو زمین بنجر و ویران تھی آج شب و روز قرآن و احادیث کے لاہوتی نغموں سے گونج رہی ہے ، ٢۳/باصلاحیت اساتذہ کرام کی فرض شناس ٹیم اپنی محنت ولگن اورانتھک کوششوں کے ذریعہ قوم وملت کے تقریباً ۷٠٠/نو نہالوں کو زیور علم و فن سے آراستہ کرنے میں مصروف عمل ہے۔
جامعہ نے ایک مختصر سے عرسے میں عوام وخواص کے دلوں پر جو شہرت و مقبولیت کا جھنڈا گاڑا ہے ہم اپنے سبھی کرم فرماؤں کے ممنون ومشکور ہیں خصوصاً اہل سنت کے علمائے کرام و مشائخ عظام کے جنھوں نے اپنے مفید مشوروں اور اپنی پر اثر دعاؤں سے ہمیں نوازا، اور "امام احمد رضا ٹرسٹ" کے جملہ ٹرسٹی حضرات کے جنھوں نے اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دیا نیز تمام سنی مسلمانوں کے جن کے پر خلوص تعاون نے ہمارے حوصلوں کو پست نہیں ہونے دیا، مولائے کریم ان سبھی کرم فرماؤں کو ان کے اس خلوص کا اجر جزیل عطا فرمائے اور ہماری اس خدمت کو شرف قبولیت بخشے اور مزید جامعہ کے ذریعہ خدمت دین متین کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ اجمعین۔