حاصل کلام
شخصیت یونہی نہیں بنتی اس کے پیچھے کتنے عوامل کار فرما ہوتے ہیں، کسان بیج زمین میں ڈالتا ہے، زمین اسے اپنی آغوش دیتی ہے ، سورج تمازت دیتا ہے ، بارش نمی دیتی ہے تب زمین سے کومل کونپل نکلتی ہے، نازک پودا نکلتا، اب شبنم اس جا چہرہ دھلاتی ہے ،نسیم و صبا جھولا جھلاتی ہے، چاند نی اپنا دودھ پلاتی ہے، کسان خود پودوں سے اس کی حفاظت کرتا ہے، تب کلیاں کھلتی اور پھول مسکراتے ہیں۔ حضرت امام اہل سنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادری برکاتی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے ، ان کی تعمیر شخصیت کے جو عوامل ہمیں نظر آتے ہیں ان میں کسی نے ان کے دامن حیات پر علم کے گل بوٹے سجائے ہیں ، تو کسی نے عمل کی آئینہ بندی کی ہے ، ان کی تربیت و اخلا ق و افکار کے یہ ظاہری و سائل و ذرائع ہیں جو ہمیں نظر آتے ہیں لیکن ان کے اخلاق و افکار کی پھول جیسی نزاکت و لطافت بول رہی ہے کہ علم ہو یا عمل ہر گلشن کی آبیاری عشق مصطفیٰ نے کی ہے ، ان کی ہر چمک دمک میں مدینہ کی کرن کا اہم رول رہا ہے، آفتاب رسالت مدینہ میں جلوہ گر تھا اور اس کی کرن بریلی میں نور برسا رہی تھی۔چونکہ نوری پاور عالمی پاور ہاؤس سے ڈائرکٹ آرہا تھا اس لئے تجلیات کا دائرہ بھی محدود نہ تھا ۔ علم و عمل ، فکر و نظر، شعور و آگہی ، تجربہ و مشاہدہ ، اخلاق و عادات، غرض کہ جس شعبہ پر اجالا پڑگیا ، چمکتا چلا گیا، ذرہ پر اگر سورج کی کرن پڑجائے تو اس میں بھی قوت پرواز آجاتی ہے تو پھر جس ہستی پر ماہتاب نبوت کی کرن پڑجائے اس کی تجلیات اور پر توفگنی کا اندازہ کون کرسکتا ہے ؟ اسے یوں سمجھئے ایک ہوتا ہے منوَّر اور ایک ہوتا ہے منورِ، منوّر کا فیض یافتہ ہی منوّرِ ہوتا ہے ، جب منورہ سے اکتساب فیض کرکے منورِ چمک اٹھتا ہے تو اب جو اس منور ِ کے قریب آجائے اس سے منسوب ہو جائے وہ بھی چمک اٹھتا ہے، وہ بھی منورِ ہو جاتا ہے، افق حجاز سے نبوت کی کرن جگمگائی ''قد جاء کم من اللہ نور'' کی نوری شعائیں پھیلیں، میرا نبی منور بن کر نورانی کرن برسا رہا ہے ، جماعت در جماعت لوگ آتے جا رہے ہیں، صحابیت کے نور سے جگمگاتے جارہے ہیں ، منور بنتے جارہے ہیں منورَ نبی کی صحبت سے صحبت یافتہ صحابی بن کر چمکے ، صحابی کا صحبت یافتہ تابعی بن کر چمکا، تابعی کا صحبت یافتہ تبع تابعی بن کر چمکے ، علی ھذا القیاس قرنا بعد قرن لوگ چمکتے جا رہے ہیں ، منور بنتے جارہے ہیں، وہ کرن بغداد میں چمکی تو لوگوں نے غوث اعظم کہا، وہی کرن اجم میں چمکی تو لوگوں نے غریب نواز کہا، وہی کرن دلی میں چمکی تو لوگوں نے محبوب الہی کہا، وہی کرن بریلی میں چمکی تو دنیا نے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کہا۔ اب جو ان سے قریب ہو گیا وہ بھی چمک گیا ، کوئی حجۃ الاسلام بن کر چمکا ، کوئی مفتی اعظم بن کر چمکا ، کوئی ملک العلما بن کر چمکا ، کوئی صدر الشریعہ بن کر چمکا ، کوئی شیر بیشہ سنت بن کر چمکا کوئی صدر الافاضل بن کع چمکا اور جو ان چمکنے والوں سے قریب ہوگیا وہ بھی سنورتا جا رہا ہے ، چمکتا جا رہا ہے، روشنی ہے کہ پھیلتی جارہی ہے۔ مدنی کرن کا یہ فیضان ہے کہ حضرت رضا بریلوی نے ملک وملت اور فرد و قوم کی جگمگاہٹ کا انتظام و اہتمام فرما دیا ہے۔ شمع جلا جلا کر آپ نے رکھ دی ہیں ، جس کا جی چاہے منور ہوجائے اور جس طرح چاہے منور ہوجائے ، جس گوشے کو چا ہے منور کرے، زنان و ادب کی روشنی کی ضرورت ہے، کنز الایمان ، فتاوی رضویہ اور حدائق بخشش سے حاصل کرلو، قوم و ملت کو روشنی کی ضرورت ہے حجۃ الاسلام، مفتی اعظم ہند ،ملک العلماء، صدر الشریعہ اور شیر بیشہ سنت کے چراغ سے لو ملالو، ملکی سیاست کو روشنی کی ضرورت ہے اعلام الاعلام اور المحجۃ الموتمنہ سے اکتساب نور کرلو ، حضرت رضا بریلوی کی شمع مدنی شمع ہے اور اس کا فیضان ، فیضان رحمت اللعالمین کی طرح سب کے لئے عام ہے ۔
وہ ایک ذرہ تھے مگر صحرا کی وسعتیں بھی ان کے دامن میں پناہ لیتی تھیں ، وہ ایک قطرہ تھے مگر سمندر کی تشنہ کامی بھی سیراب ہوا کرتی تھی ، وہ ضعیف تھے مگر ناقابل تسخیر چٹان بھی ان سے عزم و استقامت کی بھیک مانگا کرتی تھی، وہ تن تنہا تھے مگر اپنی شخصیت میں ایک بڑی جماعت تھے ۔ وہ اکیلے تھے مگر سواد اعظم تھے ، وہ ایک نقطہ تھے مگر جب پھیلے تو اتنا پھیلے کہ اعلیٰ حضرت بن کر دنیا پر چھا گئے مگر جب سمٹے تو اتنا سمٹے کہ مجسم عشق مصطفی بن گئے۔ سنئے سنئے رضا کے عشق کی یہ آواز۔
انہیں جانا انہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام
للہ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا