حضور مفسر اعظم ہند ایک بہت ہی عظیم اور پاکیزہ شخصیت کا نام ہے جو حقیقتا ًزبان رضا تھے وہ رضا کے علم و فضل اور زہد و تقوی ٰ کے وارث و امین تھے ان کی نیکی ان کے صبر شکر گزاری اور بے لوث دینی خدمات ہی کا ثمرہ ہے کہ آپ کی اولاد خوش وخرم اور شاد وآباد ہے وہ حقیقی معنی ٰ میں مبلغ اسلام عالم باعمل سچے نائب رسول اور اصلیت میں پیر طریقت اور مرشد برحق تھے وہ جو بھی کہتے اور بولتے اس پر عمل کر تےانہوں نے اپنا اثاثہ اپنے گھر کے زیورات ،اپنا مال وزر ،اپنا لہو و پسینہ صرف اورصرف غلبہ اسلام وسنیت اور تبلیغ دین ومسلک کی خاطر قربان کردیا اسلئے تو عاشق اعلیٰ حضرت شکیل اثر نورانی کہتے ہیں ۔
رضا کا نیر تاباں مفسر اعظم
رضا کا ماہ درخشاں مفسر اعظم
مہک رہا ہے گلستان رضویت جس سے
ہے اسکی فصل بہاراں مفسر اعظم
ولادت با سعادت :۔
حضور حجۃ الاسلام کے دولت گدہ پر بحیثیت اولاد نرینہ کو ئی اولاد نہ تھی سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ کے دولت گدہ پر بحیثیت نییرہ پہلی ولادت با سعادت تھی آپکی ولادت با سعادت کے بعد سنت مصطفیٰ کے مطابق داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں تکبیر کہی گئی سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ نے تھوڑا سا چھوہارا چبا کر دولت گدہ میں بھیجا آپ کی ولادت کی خبر سن کر سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے منجھلے بھائی استاد زمن علامہ حسن رضا خاں قدس سرہ نے فی البدیہہ یہ مصرع ارشاد فرمایا ''علم وعمر اقبال وطالع دے خدا '' خدا کی شان یہی مصرع تاریخ ولادت ہو گیا ۔
نام ونسب:۔
حضور مفسر اعظم ہند کا اسم گرامی محمد رکھا گیا مشہور ہے یہ اسم مبارک خود سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رکھا پھر آپکے والد ماجد حجۃ الاسلام مفتی حامد رضا خاں صاحب نے دین حنیف کی طرف نسبت کرتے ہوئے آپ کا نام ابراہیم رضا خاں تجویز کیا اور جد محترم سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پکارنے کے لئے جیلانی میاں رکھا ۔
عقیقہ:۔
سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ نے خود آپ کے عقیقہ کا انتظام فرمایا جس میں جملہ عزیز واقارب اور جامعہ رضویہ منظر اسلام کے تمام اساتذہ وطلباء کی حسب خواہش جاگانہ شوق کے مطابق الگ الگ خورد ونوش کا انتظام واہتمام فرمایا ۔
رسم بسم اللہ خوانی :۔
جب حضور مفسر اعظم کی عمر شریف چار سال چارماہ چار دن کی ہوئی تو ١٤/شعبان المعظم ١٣٢٩ھ بروز چہار شنبہ سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے علماء وصلحاء اعزاء واقرباء اور شہر کے معز زین کی موجودگی میں بسم اللہ خوا نی کرائی نیز اسی مقدس ومبارک موقع پر امام اہل سنت نے آپ کو بیعت فرماکر خلافت واجازت سے سرفراز فرمایا اور علی الاعلان فرمایا یہ میرا پوتا کبھی میری زبان ہوگا ۔
تعلیم وتربیت:ابتدائی تعلیم گھر ہی پر والدہ ماجدہ مشفقہ جدہ محترمہ سے حاصل کی یہاں تک کہ ناظرہ قرآن کریم اور اردو کی ابتدائی کتب پڑھیں سات سال کی عمر مبارک میں دارالعلوم منظر اسلام میں داخل کئے گئے ،قدوری ،فصول اکبری وغیرہ محدث جلیل حضرت علامہ احسان فیض پوری قدس سرہ سے پڑھیں عربی ادب کی کتابیں اور مشکوٰۃ شریف خود حضور حجۃ الاسلام مفتی حامد رضا خاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پڑھائیں حدیث وفقہ کی دیگر کتابیں دوسرے اساتذہ سے پڑھیں تحصیل علوم ہی کے دوران جد کریم سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سایہ شفقت سر سے اٹھ گیا تقریبا ً ١٩/سال کی عمر میں ١٣٤٤ھ میں آپکی فراغت ہوئی والد محترم حضور حجۃ الاسلام نے مشاہیر علماء ومشائخ کی موجودگی میں دستار بندی فرمائی اور اپنی نیابت وخلافت سے سرفراز فرمایا۔
نکاح مبار ک و رخصتی:۔
حضور مفسر اعظم ہند ابھی کم سنی میں تھے سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دونوں عظیم وجلیل شہزادگان حجۃ الاسلام اور حضور مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما کو طلب کیا اور دونوں کی اجازت طلب کی اس کے بعد پوتے اور پوتی کو رشۃ ازدواج میں منسلک کردیا جب حضور مفسر اعظم ہند کی عمر ١٩/ سال کی ہوئی اور آپ تعلیم سے آراسۃ وپیراسۃ ہوئے تو سنت کے مطابق رخصتی ہوئی اور اس سعید موقع پر شاندار ضیافت وولیمہ کا اہتمام کیا گیا۔
نیابت اور ابتدائے تبلیغ:۔
حضور حجۃ الاسلام نے اپنے وصال ١٧/جمادی الاولیٰ ١٣٦٢ھ مطابق ٢٣/مئی ١٩٤٣ء سے قبل اپنے دونوں صاحبزادوں کو بلایا اور اپنی خلافت کا اعلان فرمادیا اوراپنی وصیت کے مطابق مفسر اعظم ہند کو اپنے نائب ،خانقاہ عالیہ رضویہ کا سجادہ اور دارالعلوم منظر اسلام کا مہتمم نامزد فرمایا جس وقت دارالعلوم منظر اسلام کا اہتمام قانونی طور سے حضور مفسر اعظم ہند کے قبضے میں آیا تو دارالعلوم کی حالت بڑی خسۃ تھی اس یادگار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ ،منظر اسلام کو حیات تازہ دینے کی خاطر سخت جدوجہد کی ۔محدث اعظم پاکستان مفتی سردار احمد اور دیگر مشاہیر علماء کرام دارالعلوم کو خیرآباد کہہ چکے تھے ان کے ساتھ کچھ ذہین وفطین طلباء عظام بھی دارالعلوم سے رخصت ہوگئے تھے ایسے وقت میں دارالعلوم کی حالت خزاں رسیدہ چمن کے مانند تھی آپ نے قابل اساتذہ کو دارالعلوم میں لانا شروع کیا اپنے استاذ گرامی محدث جلیل احسان علی اور نامور مفتی حضرت علامہ سید افضل حسین صاحب ومفتی محمد احمد جہانگیر خاں صاحب قدس سرہ کو دارالعلوم میں خاص خاص مناصب پر فائز فرمادیا دیگر ذی استعداد اور قابل اساتذہ کا بھی تقرر فرمایا اور اپنے آپ درس وتدریس میں لگ گئے شروع ہی میں دارالعلوم کی آمدنی نا کے برابر تھی لہذا کئی بار ایسا موقع آیاکہ آپ نے مدرسین اور دیگر عمال کی تنخواہ کی ادائیگی کے لئے گھر کے زیورات تک بیچ دئے آپ کی علمیت ،آپ کی خطابت ،خاندانی وجاہت اور تقویٰ نیز تعویذات وغیرہ کے اثر نے مسلمانان اہل سنت کو بہت ہی زیادہ متاثر کرنا شروع کردیا اور لوگ دارالعلوم کی طرف خصوصی توجہ دینے لگے اور جلد ہی یہ دارالعلوم ہندوپاک کا عظیم ادارہ بن گیا اور مرکز اہل سنت تسلیم کیا جانے لگا آپ دار العلوم کے کلرکوں سے سختی کے ساتھ حساب کرتے حساب درست ہونے پر بہت ہی شاد ہوتے اور انہیں مٹھائیاں کھلاتے آپ نے دارالعلوم کی مالی حالت مضبوط کرنے کی خاطر محصلین حضرات مقرر کئے جو دارالعلوم کو مالی امداد فراہم کرتے اور شہر در شہر مسلک حق کی اشاعت وتبلیغ کرتے آپ نے دارالعلوم کی آمدنی بڑھانے کے لئے کتب ورسائل تصنیف فرماکر نیز سرکار اعلیٰ حضرت کی کتابیں چھپواکر سنیوں میں تقسیم کرائیں اور ان سے جو آمدنی ہوتی وہ دارالعلوم کو دے دےتے اسی طرح دارالعلوم کی آمدنی میں کافی اضافہ ہوا ساتھ ہی ساتھ آپ کے علم وقلم میں بھی تابانی بڑھی یہ تمام امور آپ نے صرف اور صرف دین کی تبلیغ اور علم دین کی ترویج واشاعت کے لئے انجام دئے۔
مفسر اعظم کا لقب :۔
خانوادئہ اشرفیہ کے روشن چراغ سید محمد محدث اعظم ہند کچھوچھوی آپ کی تقریر سے بہت متاثر تھے ملک کی کئی بڑی سنی کانفرنسوں میں سیدنا آپ کا تعارف کرایا اور آپ کو مفسر اعظم ہند سے یاد فرمایا سیدنا محدث اعظم نے سب سے پہلے کلکۃ کی ایک عظیم الشان کانفرنس میں آپ کو اس لقب سے یاد فرمایا اور موجودہ علماء کرام نے اس کی تائید کی علماء ،سامعین نے تکبیر ورسالت اور مسلک اعلیٰ حضرت ،نبیرئہ اعلیٰ حضرت زندہ باد ،پائندہ باد کے نعروں سے خوشی کا اظہار کیا اور اب ہر پوسٹر اور اشتہار میں آپ کے لئے مفسر اعظم ہند چھپنے لگاآپ کے اس لقب اور شہرت سے کچھ لوگ حسد کرنے لگے لیکن آپ نے نہ تو اس لقب کی عظمت وشہرت پر کبھی اظہار فخر کیا نہ ہی مخالفین ومعاندین کی تنقید ونکتہ چینی کی پرواہ کی اور پوسٹر واشتہار میں چھپنے کے بعد عوام وخواص،علماء،طلباء ہر کسی نے بجائے جیلانی میاں یا علامہ ابراہیم رضا بریلوی یا بریلی والے مولانا صاحب بجائے مفسر اعظم ہند کہنا شروع کر دیا آپ کی تفسیر کا ماخذ عموماًروح البیان ،نسیم الریاض ،شفا قاضی عیاض ،خزائن العرفان ہوتے۔احادیث مصطفی کے نکات شارح مسلم شریف امام نووی اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی کی مدارج النبوۃ ،اشعۃ اللمعات کے اقوال کی روشنی میں بیان کرتے۔
انداز خطابت:۔
اپنی تقریر میں آپ قرآن مجید کی تفسیر والہانہ انداز میں کرتے اور خطبہ کے بعد دس دس ،بیس بیس آیات قرآنی تلاوت کرتے کنزالایمان سے ان کے ترجمے پیش کرتے اور دیگر مترجمین کے تراجم کا موازنہ کرتے ترجمہ کنزالایمان کے نکات بیان کرتے اور احادیث کریمہ سے ان کی توثیق کرتے وہابیہ ،دیابنہ کے رد میں جد کریم سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مختلیف تصانیف نیز دیگر محققین کی کتابوں کو حوالہ بناتے آپ دودو،تین تین گھنٹے روانی کے ساتھ بولتے رہتے اور پورے مجمع کو اپنے خطابت سے مست ونہال کردیتے آپ کے جلسے میں آپ کے ہم عصر ممتاز علماء وخطباء بھی شرکت فرماتے اور ہر کوئی آپ کے خطابت کے جمال وکمال سے مست ہو اٹھتا ۔ کلکۃ ،کانپور،مظفرپور،شیوہر وغیرہ میں مہینوں آپ کے تقریری وتبلیغی پروگرام چلتے۔ مفتی اعظم کانپور امیر شریعت مفتی رفاقت حسین علیہ الرحمہ سے بھی ملاقت کی وہ آپ کی بڑی عزت کرتے تھے ۔حضرت نے خدمت دین کے لئے جو جانفشانی اٹھائی اور جس طرح کا ایثار پیش کیا وہ صدہا آفریں کے لائق ہے لیکن ہمیشہ یہی فرمایا کرتے کہ مجھے تبلیغ کا موقع بہت کم ملا آپ نے بہار ونیپال کے علاقوں میں پیدل ،سائیکل اور بیل گاڑی تک سے سفر کیا صرف سنیت کی اشاعت اور دین کی تبلیغ کے خاطر اور اس سے سنیت کو کافی فروغ ملا ۔
قبل وفات کے چندواقعات:۔
حضرت مفسراعظم ہند کے آخری ایام میں زبان بند ہوگئی تھی مگر آپ تحریرا دین اور خدمت خلق انجام دےتے رہے وصال سے چند ماہ قبل آپ کافی کمزور ہوگئے تھے لیکن اس کے باوجود متعدد مقامات کے دورے کئے اور دین وسنیت کی تبلیغ کا فریضہ انجام دیا آخری ایام میں جو واقعات قبل وفات رونما ہوئے ان میں مختصراً یہ ہیں۔
حضور مفسراعظم ہند کے وصال سے قبل کلکۃ سے ایک مرید کا خط آیا انہوں نے حضور مفسراعظم ہند کو تین مرتبہ سرکار ابد قرار کے ہمراہ دیکھا حضور مفسراعظم ہند نے یہ خط دیکھا اور تبسم کیا یہ خط آپ کی تیسری صاحب زادی نے بھی پڑھا اور انہیں ایسا محسوس ہوا کہ پیارے ابا جان جلد ہی ان سے جدا ہونے والے ہیں اور پردہ فرمانے والے ہیں مفسراعظم ہند کے ایک مرید نے خواب میں دیکھا جو بہار بارڈر نیپال سے تعلق رکھتے تھے کہ حضور مفسراعظم ہند اور حضور مفتی اعظم ہند ایک ساتھ جلواہ گر ہیں تھوڑے وقفے کے بعد مفسراعظم ہند اٹھ کر چلنے لگے اس مرید نے خواب میں کہا حضور پان کھا کر جایئے حضور مفسراعظم ہند نے مڑ کر پان لے لیا اور چلے گئے مرید بہت فکر مند ہوا وہ بریلی شریف آیا تو اسے معلوم ہوا کہ حضور مفسراعظم ہند وصال کر گئے ہیں آپ کا وصال ١١/صفر المظفر ١٣٨٥ھ مطابق ٢٢/جون ١٩٦٩ء بروز ہفتہ کو ہوا آپ کی نماز جنازہ اسلامیہ کالج گراؤنڈ میں نائب مفتی اعظم ہند سید افضل حسین صاحب مونگری نے پڑھائی بعد نماز جنازہ خانقاہ عالیہ رضویہ میں لاکر دفن کر دیا گیا ۔آپ کو آپ کی قبر اطہر میں مفتی جہانگیر خاں ،مرید سرکار اعلیٰ حضرت سید اعجاز حسین بریلوی اور دیگر اصحاب نے اتارا اور رضوی دولہا کو آرام سے لٹا دیا گیا۔