مختصر سوانح حضورمفتی اعظم ہند

ولادت:۔ حضور مفتیء اعظم ہند کی ولادت ٢٢ /ذی الحجہ ١٣١٠ھ مطابق ٧ / جولائی ١٨٩٣ء بروزجمعہ بوقت صبح صادق علامہ حسن رضا خاں قادری کے دولت سرائے اقدس پررضا نگرمحلہ سوداگران بریلی شریف میں ہوئی۔
اسم گرامی:۔
حضور اعلیٰ حضرت نے آپ کا نام محمد تجویز فرمایااور اسی نام پر عقیقہ بھی ہوا،جبکہ سید ابوالحسین احمد نوری میاں مارہروی نے آپ کا نام ابو البرکات محی الدین جیلانی تجویز فرمایا ۔والد ماجد نے ہی عرفی نام مصطفی رضا رکھا ، اور فن شاعری میں آپ نے اپنا تخلص٫ نوری ،،پسندفرمایا.اورعرفی نا م ہی مشہورہوا اور بعد میں عرفی نام کے علاوہ مفتیء اعظم کا لقب آپ کا علم بن گیا۔آپ کی تاریخ ولادت وسلام علی عباداللہ ہ الذین اصطفی (١٣١٠ھ)سے نکلتی ہے،جس وقت آپ کی ولادت ہوئی والد گرامی کی عمر مبارک تقریباًاڑتیس سال تھی ،آپ کی ولادت کے بعد والد گرامی کل تقریباًتیس سال (١٣٤٠ھ)تک حیات ظاہری میں رہیں،جس وقت آپ کی ولادت ہوئی بڑے بھائی حضرت حجۃالاسلام کی عمر تقریباً١٨/سال تھی۔ امام احمد رضا نے حضور مفتئ اعظم ہند کو بڑے نازوں سے پالاپوسا،آپ کو اپنے برادر اکبر کی محبتیں بھی میسر رہیں۔حضرت حجۃالاسلام آپ سے بے پناہ محبت فرماتے تھے،جبھی تو حج بیت اللہ کی جب دعا کی ،تو اپنے چھوٹے بھائی کو فراموش نہ کیا۔ان کے لئے بھی دعا مانگی ۔حضرت علامہ ضیاء الدین مدنی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں جب اعلیٰ حضرت دارالافتاء میں تشریف فرما ہوتے ۔تو کبھی کبھی شہزادہء اصغر حاضر ہوتے،بارگاہ رضا میں، شہزادہء رضا کی حاضری کا اتنا پیارا اندازہوتاکہ قربان ہونے کو جی چاہتا،جو بھی دیکھتا پکار اٹھتاکہ بلا شبہ یہ مادر زاد ولی کامل ہیں،عارف حق آگاہ اور مرشد ربانی ہیں۔اس کے علاوہ کسی اور سے ایسا عرفانی عمل متوقع نہیں ہو سکتاتھا،فرماتے ہیں کہ آہستہ سے آتے،اور دو زانوں مؤدب سرکار رضا میں بیٹھ جاتے،یعنی شریر بچوں کی طرح نہ ہنگامہ کرتے،نہ کاندھوں پر دوڑتے نہ سامان کو اٹھاتے پھینکتے اور اس وقت آپ کی عمر ٤/ سال کے قریب تھی ،سارے احباب وتلامذہ نے حضور مفتئ اعظم ہند کی ولادت پر امام احمدرضا خاں کو مبارک بادیںپیش کیں ۔امام احمد رضا نے فرمایا: اللہ تعالیٰ آپ کی زبان مبارک کرے میں دین کا ادنیٰ خادم ہوں اور میری دلی تمنا ہے کہ میرا بیٹا بھی دین کی خدمت کو ہی اپنا شعار بنائے''
ابتدائی تعلیم:۔
چار سال چارما ہ چار دن کی عمر میں آپ کی رسم تسمیہ خوانی خود امام اہل سنّت نے ادا کی اورحضور حجۃالاسلام کو آپ کی تعلیم و نگاہ داشت کے لئے خاص طور پر متعین کیا ۔تین سال میں تکمیل ناظرہ قرآن کریم کرلیا۔
اساتذہ کرام:۔
حضور مفتی اعظم قدس سرہ نے اصل تربیت تواپنے والد ماجد امام احمد رضا قدس سرہ سے پائی ۔علوم دینیہ کی تکمیل بھی اپنے والد ماجد اعلیٰ حضرت قدس سرہ سے کی ۔جن دیگر نامور ،مشہور زمانہ اور قابل اساتذہ کرام سے خصوصی درس لیا ان میں مندرجہ ذیل حضرات کے اسماء قابل ذکر ہیں۔ شمس العلماء علامہ ظہور الحسین فاروقی رامپوری، مولانا رحم الہدی منگلوری،تلمیذ مولانا عبدالعزیز انبیٹھوی مولانا سید بشیر احمدعلی گڑھی تلمیذ مولانا لطف اللہ علی گڑھی ، حجۃ الاسلام علامہ حامد رضا خاںبریلی شریف (حیات مفتی اعظم ہند کی ایک جھلک،مرزا عبد الوحید بیگ ،ص٥،مطبوعہ بریلی)
بیعت وخلافت:۔
٢٥/جمادی الثانی ١٣١١ھ چھ ماہ تین یوم کی عمر شریف میں سیدالمشائخ حضرت شاہ ابو الحسین نوری رضی اللہ تعالی عنہ نے بیعت کی۔(حیات مفتی اعظم کی ایک جھلک ،مرزا عبد الوحید بیگ)۔
اجازت وخلافت رضا :۔
امام احمدرضا قدس سرہ نے اپنے نور نظر ،لخت جگر ،خلف اصغر مفتی اعظم کو جمیع اور ادواشغال،اوفاق واعمال اور جمیع سلاسل طریقت میں ماذون ومجاز بنایا۔(محدث اعظم پاکستان ،مولانا جلال الدین ،جلد ١ ،ص٦٧،مطبوعہ لاہور)۔
فراغت:۔
حضور مفتی اعظم قدس سرہ نے ١٣٢٨ھ /١٩١٠ء میںبہ عمر ١٨/سال خدا داد ذہانت ،ذوق مطالعہ ،لگن اور محنت ،اساتذہ کرام کی شفقت ورافقت ،اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ کی توجہ کامل اور شیخ مکرم سید المشائخ قدس سرہ کی عنایت کے نتیجہ میں جملہ علوم وفنون منقولات ومعقولات پر عبور حاصل کرکے مرکز اہل سنت دارلعلوم منظر اسلام بریلی شریف سے تکمیل فراغت پائی۔
علوم وفنون:۔
بر صغیر میں معقول ومنقول علوم وفنون کی جتنی مشہور اسناد ہیں ان میں سے سلسلہ تلمذ بریلوی کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ ہر فن اور ہر علم کی سند عالی ہے ۔اور پھر اسی ایک سلسلے سے تمام معقول ومنقول کی سند حاصل ہو جاتی ہے ۔ گویا سلسلہ تلمذ بریلوی جمیع علوم وفنون کا جامع ہے ۔ذیل میں ان علوم کا ذکر کیا جاتا ہے جو حضرت مفتی اعظم قدس سرہ نے بریلوی سلسلہ تلمذ کے واسطے سے نہ صرف حاصل کئے بلکہ ان میں درجہ اختصاص حاصل کیا ۔اور تقریباً چالیس علوم و فنون میں مہارت بہم پہنچائی جو درج ذیل ہیں ۔
(١)علم القرآن(٢)علم الحدیث(٣)اصول الحدیث (٤)فقہ حنفی (٥)جملہ کتب فقہ متداولہ مذاہب اربعہ(٦) اصول فقہ(٧)علم تفسیر (٨) علم العقائد والکلام (٩)علم النحو(١٠)علم صرف(١١)علم معانی(١٢)علم بیان (١٣)علم بدیع(١٤)علم منطق(١٥)علم مناظرہ(١٦)علم فلسفہ(١٧)علم حساب (١٨)علم ہندسہ(١٩)علم سیر(٢٠)علم تاریخ(٢١)علم لغت(٢٢) ادب(٢٣)اسماء الرجال(٢٤)نظم عربی(٢٥)نظم فارسی(٢٦)نظم ہندسہ (٢٧)نثر عربی(٢٨)نثر فارسی(٢٩)نثر ہندی(٣٠)خط نستعلیق(٣١)تلاوت مع تجوید(٣٢)علم الفرائض (٣٣)علم عروض(٣٤)علم قوانی(٣٥)علم تکسیر(٣٦)علم التوقیت(٣٧)زیجات(٣٨)ہیات کی والد ماجد سے تحصیل کی(٣٩)علم تصوف اور سلوک کی تعلیم حضرت ابو الحسین احمد نوری میاں اور والد ماجد سے لی۔ دیگرعلوم و فنو ن کی تحصیل اساتذہ سے کی۔
فتویٰ نویشی:۔
١٣٢٨ھ میں فراغت کے بعد پہلا قلم برداشتہ فتویٰ رضاعت کے مسئلے پر لکھا۔ جواب کی صحت پر امام احمد رضا نے مسرت کا اظہار فرمایا اور خود ہی مہر بنواکر عطا کی امام احمد رضا کی کامیابی پر علامہ نقی علی خاں کوجو خوشی ہوئی تھی ۔امام احمد رضا کو چھوٹے شہزادے کی کامیابی پر بھی وہی خوشی ہوئی۔ ١٣٢٨ھ سے ١٣٤٠ تک ١٢/سال امام احمد رضا کی زیر نگرانی فتویٰ لکھا،اور تربیت بھی حاصل کی ١٣٢٩ھ کو عم مکرم علامہ حسن رضا قادری کاوصال ہوا تو حجۃ الاسلام منظر اسلام کے مہتمم ہوئے اور علامہ مصطفی رضا خاں نوری کو فتوی نویسی اور امام احمد رضا خاں کی اعانت تفویض ہوئی ۔(پھر امام احمد رضا کے وصال کے بعد ١٣٤٠ھ سے باضابطہ فتویٰ نویسی کا آغاز کیا)۔
تلامذہ :۔
١۔ محدث اعظم پاکستان مفتی سردار احمد رضوی پاکستان
٢۔ مفتی اعظم پاکستان مولانا ابو البرکات سید احمد رضوی شیخ الحدیث دار العلوم حزب الاحناف لاہور
٣۔ افقہ الفقہاء مفتی سید افضل حسین رضوی مونگیری
٤۔ مفتی الحاج مبین الدین رضوی امروہی
٥۔ فقیہ عصر مفتی احمد جہانگیر خاں رضوی
٦۔ شیخ المحدثین علامہ مفتی محمد تحسین رضا خاں رضوی بریلی شریف
٧۔ شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی گھوسی
٨۔ فقیہ اسلام تاج الشریعہ علامہ مفتی محمد اختر رضا خاں ازہری بریلی شریف
٩۔ محدث کبیر مفتی محمد ضیاء المصطفیٰ رضوی گھوسی
١٠۔ فقیہ ملت قاضی عبد الرحیم بستوی
١١۔مفتی محمد اعظم رضوی ٹانڈوی
١٢۔ بحر العلوم مفتی عبد المنان اعظمی مبارک پور
١٣۔ مفتی محمد رجب علی رضوی نانپاروی
١٤۔ یاد گار سلف مولانا محمد حبیب رضا خاں رضوی بریلی شریف
١٥۔ مفتی ابرار حسین صدیقی تلہری
١٦۔ شیخ العلماء مفتی غلام جیلانی گھوسوی
١٧۔ استاذ العلماء مفتی خواجہ مظفر حسین رضوی پورنوی
١٨۔ شیخ الحدیث مولانا غلام یزدانی گھوسوی
١٩۔ مولانا غلام محمد یٰسین رشیدی پورنوی
٢٠۔ مولانا معین الدین خاں اعظمی
٢١۔ مفتی محمد طاہر حسین اشرفی رضوی
٢٢۔ مفتی مطیع الرحمٰن رضوی کشن گنج بہار
٢٣۔ قاضی مرزاپور مفتی عبد الخالق رضوی مدھوبنی بہار
٢٤۔ مولانا حسن منظر قدیری
٢٥۔ مولاناعبد الحمید رضوی دیناج پوری
٢٦۔ صوفی باصفا مفتی محمد صالح رضوی شیخ الحدیث جامعۃ الرضا بریلی شریف
٢٧۔ مولانا مظفر حسین غازی پوری کراچی پاکستان
٢٨۔ مولانا مفتی مجیب الاسلام نسیم اعظمی
٢٩۔ مفتی ریاض احمد سیوانی
٣٠۔ مفتی عبد الغفور بہاری
٣١۔ مولانا محمد انور رضوی ٹانڈوی
٣٢۔ مولانا رئیس الدین رضوی پورنوی
٣٣۔ قاری امانت رسول پیلی بھیت
٣٤۔ سید شاہد علی رضوی رامپوری
٣٥۔ مولانا لطف اللہ قریشی رضوی علی گڑھی
٣٦۔ مولانا قدرت اللہ رضوی
٣٧۔ بدر العلماء بدر الدین رضوی گورکھپوری
٣٨۔ مولانا محمد حنیف قادری
٣٩۔ ناصر ملت مولانا محمد خالد علی خاں رضوی بریلی شریف
٤٠۔ ریحان ملت علامہ مفتی ریحان رضاخاں بریلی شریف
٤١۔ مناظر اعظم ہند حشمت علی خاں پیلی بھیت
٤٢۔ فقیہ عصر مولانا اعجاز ولی خاں رضوی بریلی
٤٣۔ مولانا محمد نعیم اللہ خاں رضوی بستوی
٤٤۔ مولانا محمد ابراہیم خشتر صدیقی
٤٥۔ مولانا محمد منظور احمد رضوی
خلفاء:۔
١۔ برہا ن ملت حضرت علامہ مفتی برہان الحق رضوی جبلپوری
٢۔ صدر العلماء حضرت علامہ مفتی سید غلام جیلانی میرٹھی
٣۔ شمس العلماء حضرت مفتی قاضی شمس الدین رضوی جونپوری
٤۔ مجاہد ملت حضرت علامہ مفتی محمد حبیب الرحمٰن رضوی اڑیسوی
٥۔ حافظ ملت حضرت علامہ مفتی عبد العزیز رضوی محدث مرادآبادی
٦۔ امین شریعت حضرت علامہ مفتی رفاقت حسین قادری مظفر پوری
٧۔ حبیب ملت حضرت علامہ مفتی حبیب اللہ قادری بہاری
٨۔ سید العلماء حضرت علامہ مفتی سید آل مصطفی برکاتی مارہروی
٩۔ استاذ علماء حضرت علامہ مفتی عبد الرؤف قادری بلیاوی
١٠۔ شیر بہار حضرت علامہ مفتی اسلم رضوی مظفر پوری
١١۔ شیخ العلماء حضرت علامہ مفتی یونس قادری سنبھلی
١٢۔ مناظر اہل سنت حضرت علامہ مفتی محمد حسین قادری سنبھلی(رحمہ اللہ تعالیٰ اجمعین)۔
تصنیفات اور حواشی:۔
آپ کی تحریرحواشی:وں اور فتاویٰ میں آپ کے والد ماجد مجدد اعظم امام احمد رضا قدس سرہ کے اسلوب کی جھلک اورژرف نگاہی نظرآتی ہے ۔ تحقیق کا کمال بھی نظر آتاہے اور تدقیق کا جمال بھی ۔ فقہی جزئیات پر عبور کا جلوہ بھی نظر آتاہے ۔ اور علامہ شامی کے تفقہ کا انداز بھی ،امام غزالی کی نکتہ سنجی ، امام رازی کے دقت نظر ،اور امام سیوطی کے وسعت مطالعہ کی جلوہ گری بھی ہوتی ہے ۔ آپنے اپنی گوناگوں مصروفیات اور ہمہ جہت مشاغل لے باجود مختلف موضوعات پر تصنیفات وتالیفات کا ایک گراں قدر ذخیر ہ چھوڑا وہ مندرجہ ذیل ہیں ۔ (١)فتاویٰ مصطفویہ کامل تین جلد یں (٢)وقعات السنان (٣)ادخال السنان(٤)الموت الاحمر،ہشتاد بیدو بند بر مکاری دیوبند(٥)المفوظ کامل (٦)الطاری الداری لہفوات عبد الباری (٧)القول العجیب فی جوازالتثویب (٨)سامان بخشش(٩)تنویر الحجہ بالتواء الحجہ (١٠)طرق الہدی والارشاد(١١)وقایہ اہل السنہ (١٢)اشد الباس علی عابد الخناس (١٣)القثم القاصم للداسم القاسم(١٤)نفی العار من معائب المولوی عبد الغفار(١٥)مقتل کذب وکید(١٦)حجۃ واہرہ بوجوب الحجۃ الحاضرہ(١٦)الکاوی فی العاوی والغاوی(١٧)نور الفرقان بین جند الا لہ واحزاب الشیطان(١٨) الرمح الدیانی علی راس الوسواس الشیطانی(١٩)الٰہی ضرب بہ اہل الحرب(٢٠)نہلیۃ السنان(٢١)سیف القہارعلی العبید الکفار(٢٢)النکۃ علی مراء کلکۃ(٢٣) مقتل اکذب واجہل(٢٤)القسورہ علی ادوارالحمر الکفرۃ(٢٥)شفاء العی فی جواب سوال بمبئی(٢٦)وہابیہ کی تقیہ بازی(٢٧) الحجۃ الباہرہ(٢٨) داڑھی کا مسئلہ(٢٩) طرد الشیطان (٣٠)کانگریسوں کا رد(٣١) کشف ضلال دیو بند (حواشی وتکمیلات الاستمداد)(٣٢)حاشیہ فتاویٰ رضویہ جلد چہارم(٣٣) حاشیہ فتاویٰ عزیزیہ (٣٤) مسائل سماع (٣٥) نور العرفان(٣٦) مسلک مرادآباد پر معطر ضانہ ریمارک(٣٧) حاشیہ تفسیر احمدی(٣٨)صلیم الدیان لتقطیع حیالۃ الشیطان
امام احمد رضا قدس سرہ کو اپنے فرزند اصغر مفتی اعظم کی فقاہت وثقاہت پر اس نوعیت کا اعتماد تھا کہ اپنے فتاویٰ پر ان کی تائیدی دستخط کر واتے تھے(پندرہ روزہ رفاقت یکم فروری١٩٨٢ )۔
امام احمد رضا قدس سرہ نے اپنی حیات طیبہ میں سیکڑوں مسائل اپنے خلف اصغر مفتی اعظم ہند سے لکھوائے اور ان کی تصدیق و تصویب فر ماکر اپنے دستخط کئے۔ رجب١٣٣٩ھ میں اعلیٰ حضرت مجدد دین وملت امام احمد رضا قدس سرہ نے متحدہ ہندوستان کے لئے دارالقضاء شرعی قائم فرمایا اور بعض علماء کرام کی موجودگی میں حضرت صدرا لشریعہ مفتی امجد علی رضوی اعظمی کو پورے متحدہ ہندوستان کے لئے قاضئ شرع بنایا اور حضور مفتئ اعظم ہند علامہ محمد مصطفی رضا خاں نوری حضرت علامہ مفتی محمد برہان الحق جبل پوری علیہم الرحمہ والرضوان کو دارالقضاء کے مفتی اور معین القاضی کی حیثیت سے مامور فرمایا۔ اور یہ بھی ظاہر کر دیا کہ اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اختیا ر مجھے عطا فرمایا ہے اس کی بناء پر یہ تقرر عمل میںآیا ہے۔(پندرہ روزہ ،رفاقت یکم فروری ١٩٨٢ء)۔
مولانا مصطفی رضا کومفتی اعظم کا خطاب:۔
٢٥/صفرالمظفر ١٣٤٧ھ اگست ١٩٢٨ء کو خانقاہ عالیہ رضویہ بریلی کے عظیم الشان اجتماع میں ہزاروں کید تعداد میں اہل اسلام شریک تھے ۔مقامی علماء کرام ،اولیاء عظام ،مشاہیر قوم کے علاوہ لنکا،بنگال،بہار،بمبئی، پنجاب،گجرات،کاتھیاواڑ گونڈل ،مدارس،یوپی،راج پوتانہ سرحد کے جلیل القدر فضلاء وعمائدین قوم بھی حاضر جلسہ تھے ۔ اس تاریخی اجلاس میں حضرت مولانا محمد مصطفی رضا نوری قدس سرہ کو مفتی اعظم اور صدر العلماء نہ صرف کہا گیا بلکہ شہزادہ اکبر حجۃ الاسلام مولانا محمد حامد رضاخاں بریلوی قدس سرہ کے حکم سے اس اجلاس میں جو تجاویز پاس ہویئں۔ ان میں تجویز نمبر ٣ میں آپ کو صدرالعلماء اور مفتی اعظم لکھا گیا ۔
حج وزیارت:
حضور مفتی اعظم علیہ الرحمہ نے تین حج کئے ۔ پہلا حج ١٩٤٥ء میں ، دوسرا حج ١٩٤٨ء میں اور تیسرا حج ١٩٧١ء میں ''فوٹو کی قید ''کے بعد بلا فوٹو کیا ۔
وصال : ۔
آپ چودہ ١٤ محر الحرام ١٤٠٢ھ /١٢ نومبر ١٩٨١ء رات ایک بج کر چالیس منٹ پر کلمہ طیبہ کا وردکرتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔وصال کے وقت آپ کی عمر ٩١ سال تھی ۔
|  HOME  |