مظہر مفتی اعظم علامہ تحسین رضا خاں علیہ الرحمۃ والرضوان بر صغیر ہند وپاک کے صف اول کے علماء میں ایک زبردست عالم تھے ۔
آپ خا نوادہۓ اعلیٰ حضرت کے ایک فرد کامل ہیں جس کو دنیا ئے سنیت حضور تحسین رضا خاں کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہی۔
آپکا نسب نامہ:۔
صدرالعلماء بن حسنین رضا بن حسن رضا بن نقی علی بن رضا علی
آپ کی ولادت :۔
آپ کی ولادت باسعادت بریلی شریف کے مشہور محلہ سوداگران بتاریخ ١٤/شعبان المعظم ١٣٤٨ھ مطابق١٩٣٠ء میں ہوئی ۔
تعلیم وتربیت:۔ صدر العلماء علامہ تحسین رضا خاں علیہ الرحمہ کے والد ماجد استاذ العلماء علامہ حکیم حسنین رضا خاں کو بڑا شوق تھا آپ کو پڑھانے کا آپ نے اپنی خسرال محلہ کانکر ٹولہ پرانا شہر بریلی میں سکونت اختیار کر لی تھی صدر العلماء نے اپنی ننہال میں بچپن اور جوانی کا زمانہ گزارا اور آخری وقت بھی وہیں قیام پذیر تھے آپ نے سید شبیر علی بریلوی سے قاعدہئ بغدادی پڑھا غالباً آ پ کے سب سے پہلے استاذ رہے ہوں بعد میں محلہ کے ایک مکتبہ میں قرآن اور حساب وغیرہ کی تعلیم حا صل کی فارسی کی ابتدائی کتابیں ''مدرسہ اکبری''واقع اکبری مسجد معروف بہ مرزائی مسجد محلہ گھیر جعفر خاں بریلی میں پڑھیں غالباً ١٣٦٠ھ ١٩٤١ء میں آپ کو آپ کے والد محترم نے عربی تعلیم کے لئے مدرسہ مظہر اسلام میں داخل کیا اس وقت آپ تقریباً ١٢/ سال کے تھے آپ نے ماہرین علوم وفنون اساتذہئ کرام سے درس نظامی کی ابتدائی کتابیں متوسطات تک ساری کتابیں بغیر ناغہ درسگاہ میں کمال و غوروخوض اور انہماک سے پڑھیں اور اپنے بہت خاص استاذ محترم محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد رضوی سے تعلیم حاصل کی جو مظہر اسلام کے صدر مدرس تھے مولانا سردار احمدرضوی کی غیر موجودگی میں ایک مرتبہ دوران تعلیم تفسیر میں ایک اہم ترین کتاب'' تفسیر جلالین''حضرت صدر الشریعہ مولانا امجد علی رضوی قدس سرہ سے پڑھنے کا فیض حاصل کیا اور آپ نے خصوص بالخصوص مفتی اعظم ہند حضرت علامہ الشاہ مصطفیٰ رضا خاں علیہ الرحمہ سے بھر پور علمی ،عملی ، روحانی استفادہ کیا اور فتویٰ نویسی جیسا اہم علم حاصل کیا ابھی آپ کا تعلیمی سلسلہ جاری ہی تھا کہ آپ کے استاذ محترم محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد صاحب علیہ الرحمہ تقسیم ہندوستان کے وقت اپنے اہل و عیال کے ساتھ اپنے وطن اصلی تشریف لے گئےھوا یہ کہ صدر العلماء کو فراغت سے پہلے ہی حضور مفتی اعظم ہند کے حکم پردارالعلوم مظہر اسلام بیبیان مسجد بریلی شریف میں تدریس کاآغاز کرنا پڑا ۔پھر کچھ عرصہ تدریس کا سلسلہ روک کر آپ کے والد محترم حضرت حسنین رضا خاں نے دوراہئ حدیث شریف مکمل کرنے کے لئے اگست ١٩٥٤ء میں حضور محدث اعظم پاکستان کی بارگاہ میں حضور صدر العلماء کو فیصل آباد میں بھیجاوہاں رہ کر آپ نے چھ ماہ میں مکمل دورہئ حدیث کیا پھر واپس آکے اسی جگہ پر تدریس کا سلسلہ جاری کردیا ۔
آغاز تعلیم:۔
حضور صدر العلماء نے تقریباً اٹھا رہ سال تک مظہر اسلام مسجد بی بی والی بریلی شریف میں بخوبی تدریس کا کام انجام دیا اور ہزاروں لوگوں کو اکتساب علم کیا ۔١٩٧٥ء میں بعض وجوہات کی بنا ء پر دارالعلوم مظہر اسلا م سے استعفیٰ دے کر یادگار رضا منظر اسلام میں بحیثیت صدر المدرسین سات سال تک تعلیم خدمات انجام دی ١٩٨٢ء میں جامعہ نوریہ رضویہ بریلی شریف کا قیام عمل میں آیا ۔ جس کی ذمہ داری آپ کے سپرد کردی گئی آپ نے تقریباً ٢٣/ سال تک بحیثیت شیخ الحدیث درس دیا۔
اس کے بعد جانشین مفتی اعظم ہند تاج الشریعہ شیخ الاسلام والمسلمین حضرت علامہ مفتی اختر رضا خاں ازہری دامت برکاتہ العالیہ نے بریلی شریف میں ایک بہت بڑے رقبہ پر عظیم ادارہ مرکز الدراسات الاسلامیہ جامعۃ الرضا قائم فرما کر صدر العلماء کو اس میں بحیثیت شیخ الحدیث صدر المدرسین خدمات انجام دینے کی دعوت دی توآپ قبول فرماکر جامعۃ الرضامیں تشریف لے آئے ۔ اوروہاں تقریباً تین سال تک تعلیم خدمات انجام دی ۔ لہٰذا بریلی شریف کے چاروں علمی مراکز کو آپ کی علمی وعملی خدمات کا شرف حاصل ہوا ہے۔
سلسلہٴ حدیث:۔
حضور صدرالعلماء کو محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد علیہ الرحمہ کے واسطے سے تین بڑی بزرگ شخصیتوں سے اجازت حدیث حاصل تھی ۔(١)حضور حجۃ الاسلام حامد رضا خاں علیہ الرحمہ(٢)حضور مفتی اعظم ہند مصطفیٰ رضا خاں علیہ الرحمہ(٣)صدر الشریعہ مولانا امجد علی علیہ الرحمہ۔
حصول بیعت وخلافت:۔
حضور صدرالعلماء نے تقریباً ١٣/سال کی عمر میں والد محترم کے ارشادپر ١٩٤٣ء میں عرس رضوی کے خوبصورت پر بہار موقع پر حضور مفتی اعظم ہند کے دست حق پرست پر بیعت ہو گئے ۔ یہ آپ کی حیات کا بہت خوشی کا دن تھا کہ مرشد گرامی نے ٢٥/صفر ١٣٨٠ھ کو بڑے بڑے علمائے مشائخ حضرت سید آل رسول مارہروی ، برہان ملت مفتی برہان الحق جبلپور ، مجاہد ملت مولانا حبیب الرحمن، حافظ ملت رحمۃ اللہ علیھم اجمعین کی موجودگی میں خرقہ پوشی فرمائی اور مفتی اعظم ہند نے اپنے دست مبارک سے اپنا عمامہ آپ کے سر پر باندھا اور سند اجازت پر بکلمہ خود اس عبارت کا خلاصہ فرمایا ''عممتہ بعمامتی والبستہ جبتی''اور اس کے علاوہ تمام وظائف و تعویذات و عملیات کی بھی اجازت عطا فرمائی اور اس پر تحریر فرمایا ''قرۃ عینی ودرۃ زینی محمد تحسین رضا خاں ''مفتی اعظم ہند نےکئی موقع پر آپ کی تعریف وتوصیف پر کلمات ارشاد فرمائے ۔ ایک موقع پر فرمایا ۔دولوگ ایسے ہیں جن پر مجھے مکمل اعتماد وبھروسہ ہے ایک تحسین رضا خاں اوردوسرے اختر میاں مفتی اعظم ہند کا فرمان عالیشان یہ ہوا کہ کو ئی دنیا میں صدرالعلماء بن کر چمکا تو کوئی تاج الشریعہ بن کر چمک رہا ہے۔
آپ کے تلامذہ :۔
دنیائے سنیت میں کم و بیش پچپن سال سے آپ تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں ہر ذی شعور اندازہ کرسکتا ہے کہ آپ کے تلامذہ کی تعداد کیا رہی ہوگی اگر چہ آپ کےدامن کرم سے وابستہ ہوکر سیراب ہو نے والے ہزاروں علماء کا شمار مشکل ہے جس میں محقق ، مصنف ، شیخ الحدیث، مفتی، مدرس ، مناظر، مقرر بھی شامل ہیں ۔ جو پوری دنیا میں پھیل کر تبلیغ دین کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ۔مگر پھر بھی چند ماہرین تلامذہ کا ذکر ضروری ہے ۔جو مندرجہ ذیل ہیں۔
۔(١)نواسہئ مفتی اعظم ہند مولانا خالد علی خاں صاحب مہتمم مظہر اسلام بریلی شریف۔
۔(٢)نبیرہئ اعلیٰ حضرت مولانا منان رضاخاں منانی مہتمم جامعہ نوریہ رضویہ بریلی شریف۔
۔(٣)عالم کیس صوفیئ باصفا الحاج مفتی محمد صالح صاحب قبلہ شیخ الحدیث جامعۃالرضا بریلی شریف۔
۔(٤)مولانا حنیف رضا خاں رضوی مرتب جامع الاحادیث صدر المدرس جامعہ نوریہ رضویہ بریلی شریف۔
۔(٥)علامہ مولانا محمد ہاشم نعیمی مرآداباد مدرس جامعہ نعیمیہ مرآداباد۔
۔(٦)شہزادئہ حضور تاج الشریعہ مولانا محمد عسجد رضا خاں ناظم اعلیٰ جامعۃ الرضا بریلی شریف۔
۔(٧)مناظر اہلسنت ناشر مسلک اعلیٰ حضرت مولانا مفتی مطیع الرحمن رضوی پورنیہ بہار۔
۔(٨)مناظر اہل سنت مولانا محمد حسین رضوی ابوالحقانی لوکھا بازار بہار۔
۔(٩)مناظر اہلسنت مولانا صغیر احمد صاحب جو کھنپوری ناظم اعلیٰ جامعہ قادریہ رچھا بریلی شریف ۔
۔(١٠)مصلح قوم وملت مفتی تطہیر احمد رضوی صاحب قبلہ دھونرہ بریلی شریف۔
۔(١١)مولانا محمد انور رضوی بہرائچ مدرس دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف۔
۔(١٢)مولانا محمد یامین مرآدابادی مدرس ومفتی جامعہ حمیدیہ بنارسوی بنارس۔
۔(١٣)مولانا عبد السلام رضوی مدرس جامعہ نوریہ رضویہ بریلی شریف۔
۔(١٤)مفتی مجیب اشرف رضوی دارالعلوم امجدیہ ناگپور ۔
ّ(١٥)مولانا صغیر اختر مصباحی مدرس جامعہ نوریہ رضویہ بریلی شریف۔
اور ان کی طرح بہت سے تلامذہ ہیں جن کی تعداد بے شمار ہے ۔
خلفاء صدرالعلماء:۔
۔(١)نبیرہٴ اعلیٰ حضرت مولانا قمر رضا خاں صاحب قادری۔
۔(٢)عالم باعمل صوفی باصفا الحاج مفتی محمد صالح صاحب قبلہ شیخ الحدیث جامعۃالرضا بریلی شریف۔
۔(٣)قاضیئ شہر رامپور حضرت مولانا مفتی سید شاہد علی صاحب رضوی رامپوری۔
۔(٤)استاذ الاستاتذہ حضرت مولانا محمد حنیف خاں صاحب رضوی مرتب جامع الاحادیث۔
۔(٥)مصلح قوم وملت مفتی تطہیر احمد رضوی صاحب قبلہ دھونرہ بریلی شریف۔
۔(٦)مناظر اہلسنت مولانا صغیر احمد صاحب جو کھنپوری ناظم اعلیٰ جامعہ قادریہ رچھا بریلی شریف ۔
۔(٧)مولانا عبد السلام صاحب مدرس جامعہ نوریہ رضویہ بریلی شریف۔
۔(٨)مولانا مشکور احمد صاحب
۔(٩)مولانا صغیر اختر مصباحی مدرس جامعہ نوریہ رضویہ بریلی شریف۔
۔(١٠)مولانا شکیل صاحب مدرس جامعہ نوریہ رضویہ بریلی شریف ۔
۔(١١)مولانا عزیز الرحمن صاحب مدرس جامعہ نوریہ رضویہ بریلی شریف ۔
۔(١٢) مولانا رفیق احمد صاحب مدرس جامعہ نوریہ رضویہ بریلی شریف ۔
۔(١٣) خلف ارشد حضرت محمد حسان رضا خاں صاحب کانکر ٹولہ جانشین صدرالعلماء ۔
۔(١٤)فرزند ارجمند حضرت رضوان میاں صاحب۔
۔(١٥)مولانا نوراللہ صاحب ۔
۔(١٦)قاری الطاف حسین صاحب۔
۔(١٧)صوفی محمد عیسیٰ نوری صاحب ماہم شریف۔
۔(١٨)محمد اجمل رضا قادری
آپ ایک معتمد ومستند صاحب زبان وقلم تھے:۔جب صدرالعلماء کسی بھی عربی ، فارسی، اردوتصنیف یا تالیف کردہ کتاب کو اصلاح کے لئے دیکھ لیتے تو اب اس میں علمی ،ادبی یاشرعی یا اعتقادی کسی بھی قسم کی کوئی غلطی کا شبہ نہ ہونے کا اطمینان ہو جا تا تھا ۔ آپ قرآن، حدیث، عقائد، فقہ، شریعت ،طریقت ، نحو ، صرف ، معانی، بیان، عروض ، نعت، ادب، منطق ، فلسفہ ، اصول فقہ، علم حدیث، اصول حدیث ، علم تفسیر ، اصول تفسیر ، کلام ہر فن کی کتابیں بارہا پڑھا کر ایک کنہ مشق ماہر مدرس ہو گئے تھے۔
شاعر ی :۔
حضور صدر العلماء علیہ الرحمہ ایک استاذ الشعراء شاعر تھے ۔ آپ کے اشعار میں عجیب وغریب بلاغت وفصاحت و سلاست پائی جا تی ہے۔ آپ کے دادا استاذ ذمن کے اشعار سے آپ کے اشعار بہت مشابہ و مما ثل معلوم ہو تے ہیں آ پ نے بہت ساری نعت ومنقبت اپنی حیات مبارکہ میں لکھیں ۔ جس کے پڑھنے سے فصاحت وبلاغت کا اندازہ معلوم ہوتا ہے۔
آپ کے اخلاق:۔
آپ بہت بااخلاق مہذب نرم استاذ تھے ۔ بڑا ہو یا چھوٹا سب سے گفتگو اس طرح فرما تے کہ وہ مطمئن و خوش ہو جا تے آپ کے اخلاق حسنہ حدیث مبارکہ کے تحت تھے آپ کے اخلاق مبارکہ کو دیکھ کر دوسرے لوگ سبق لیتے تھے اور اپنے تو اپنے غیر بھی آپ کا اخلاق دیکھ کر متاثر ہوتے تھے اور تعریف وتوصیف بیان کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ کو کسی نے برے الفاظ سے کبھی نہ جا نا یہ صرف آپ کے اخلاق کا کمال ہے ۔
صدرالعلماء کا سفر آخرت:۔
١٤/اگست ٢٠٠٧ کو دارالعلوم غوثیہ چندر پور مہارشٹر کے سلانہ جلسئہ دستار بندی میں حضرت مولانا غلام نبی صاحب کی دعوت اور حضرت مولانا ظہیر رضا خاں کی سفارش پر صدرالعلماء نے رخت سفرباندھنے کا ارادہ فرمایا۔چونکہ چندر پور کے احباب طریقت اور مخلص مریدین کا شدید اصرار تھا کہ حضرت ٣/اگست ٢٠٠٧ کوجمعہ کی نماز چندر پور میں ادا فرمایئں۔اسلئے حضرت صدرالعلماء نے ٢/اگست بروز جمعرات ہی کو صبح بریلی شریف سے بذر یعے ٹرین اور دہلی سے فلائٹ کے ذریعے ناگپور کا قصد فرمایا۔چونکہ جمعرات کو صبح جانا تھا اسلئے قاری عرفان نے پہلے سے
ہی صدرالعلماء کے ایک خاص مرید زاہد علی سے اپنی گاڑی سے حضرت کو وقت مقررہ پر بریلی جنکشن پہونچانے کا وعدہ تھا زاہد علی ٢/اگست جمعرات کی صبح کو اپنی گاڑی صدرالعلماء کے مکان کے پاس کھڑی کر دیتے ہیں (گھر کے افراد نے بارش ہونے کی وجہ سے وہاں جانے کو منع بھی کیا لیکن حضرت وعدہ فرما چکے تھے اسلئے اس حال میںبھی جانے کیلئے تیار ہوگئے )اور کچھ دیر بعد حضرت گھر سے باہر تشریف لاتے ہیں سلام ودعاء کے بعد حضرت اور قاری عرفان گاڑی میں بیٹھے کچھ دیر میں جنکشن پہونچ گئے پہونچتے ہی حضرت کی زیارت کیلئے لوگوں کا مجمع لگ گیا۔حضرت نے تمام لوگوں کو دعاء سے نوازا اور تھوڑی دیر بعد دہلی کو جانے والی ٹرین پلیٹ فارم نمبر ٤/ پر آگئی برتھ نمبر ٣١/پر بیٹھا یا تو حضرت بہت کھوئے کھوئے سے اورخا موش تھےآپکے ہمراہ قاری عرفان اور مولانا ظہیر رضا تھے۔
شام کے وقت دہلی ہ پہونچ جاتے ہیں اور پھر ایر پوٹ پر گئے وہاں سے فلائٹ کے ذریعے ناگپور کے ایر پوٹ پر رات کو پہونچتے ہیں وہاں پر چندر پور کے سید عمیر جو مولانا ظہیر کے مرید تھے اور صدرالعلماء سے بڑی عقیدت رکھنے والے تھے اپنی ١٥/دن پہلے نکالی ہوئی اسکار پیوگاڑی لیکر حضرت کا انظار کر رہے تھے انکے علاوہ ناگپور کے ہی چند اور حضرت سے عقیدت ومحبت رکھنے والے ایرپوٹ پر انتظار کر رہے تھے ان میں ایک مولانا مجتبی شریف خاں بھی ہیں چونکے رات زیادہ ہو چکی تھی اسلئے ناگپور سے چندر پور تک کا ١٨٠/ کلو میٹر کا سفر کرنا مناسب نہیں سمجھا اور پھر حضرت تھک چکے تھے آرام کی بھی ضرورت تھی لہذا حضرت نے مولانا مجتبی شریف کے شدید اصرار پرچندر پور میں قیام کرنے کاارادا فرمالیتے ہیں تمام حضرات انکے گھر ٹھرے رات کو اطلاع ہونے پرمحلہ پڑوس کے بڑے بڑے عقیدت مند آپکی زیارت کیلے کافی رات تک آتے رہے اور حضرت تمام کو دعاوئں سے نوازتے رہے ۔جناب اسماعیل خاں نے صبح ناشتے کیلے اصرار کیا تو صبح ٧/بجے چھوڑنے کی شرط پر ان کو اجازت دے دی گئی ۔صدرالعلماء نے فجر کی نماز ناگپور کی جامع مسجد میں پڑھائی ،سواسات بجے ناشتے کے بعد باباتاج الدین کے مزار پر حاضری دی گئی وہاںکی حاضری پرحضرت بہت خوش ہوئے تھے ٹھیک ٨/بجے مزار پاک سے چندرپور کی لئے نکلے ۔ گاڑی میں کل چھ افرادسوار تھے (یاد رہے کہ چندر پور ناگپور سے جانب مشرق ١٨٠/کلومیٹر ہے اور مقام حادثہ ناگپور سے ١٣٠/کلو میٹر جانب مشرق ہے)۔
انداز نشت:۔
(١)سید عمیر ڈرائیونگ کر رہے تھے (٢)حضورصدرالعلماء انکی بائیں طرف تشریف فرما تھےڈرائیور کی پیچھے سیٹ پر (٣)مولانا غلام نبی (٤)بیچ میں مولانا ظہیر رضا خاں (٥)اور بائیں طرف قاری عرفان (٦)پیچھے سیٹ سامان کے ساتھ اسماعیل ساکن چندر پور تھے ۔صبح کے وقت زیادہ بھیر کی وجہ سے گاڑی تیز نہیں چل رہی تھی لھذا مفتی محمد خاں صاحب کے مزار پر فاتحہ خوانی کا مشورہ ہوا ، حضرت نے فاتحہ پڑھی اور وہاں کچھ دیر اعلحضرت کے اشعار پڑھے اور وہی (جامعۃالرضا یونیورسٹی )کا معائنہ فرما کر غلام محمد صاحب کی تعریف وتوصیف کی اور فرمایا کہ بڑی محنت کی ہوگی اس کے بعد وضوء فرماکر چندر پور کی طرف روانہ ہوئے ،ابھی کچھ ہی سفر طے ہوا کہ پیچھے سے ٹائرسے تیز ہوا نکلنے کی آواز ہوئی دیکھا تو وہ اسی گاڑی کا ٹائر تھا ٹائر کی درستگی میں ایک گھنٹہ لگ گیا۔پھر وہاں سے تقریبا ١١/بجے ''جام''نامی مقام پہونچے تو سید عمر نے حضرت سے چائے کیلے درخواست کی حضرت نے انکار کر دیا مولانا ظہیر صاحب نے کہا کہ حضرت کو ''مرینڈہ ''پسند ہے تو سید عمیر تمام
لوگوں کیلے مرینڈہ لائے ،حضرت نے بھی نوش فرمایا جام میں ١١/بجکر ٤٥/مینٹ ہوگئے تھے دوران سفر قاری عرفان نے حضرت کی لکھی ہوئی نعت پڑھنی شروع کردی اور مولانا غلام نبی ،مولانا ظہیر دونوں تبصرہ کررہے تھے کہ اتنے میں سڑک پر پانی نظر آیا (یہ مقام این مداسے ایک کلو میٹر جانب شرق ہے)سامنے سے ٹرک آرہا تھا اسکو سید عمیر نے سائڈدینا چاہا اور گاڑی اس پانی میں چلی گئی،انہوں نے بجائے بریک کے ایکسیلیٹر پر پاوئں رکھ دیا تو گاڑی کی اسپیڈ اچانک بڑھ کر بقول سید عمیر (١٢٠)ہوگئی گاڑی لہراتی ہوئی جارہی تھی کہ سید عمیر صاحب کا پاؤںبریک پر گیا ایک دم گاڑی ہوا میں لہرائی اور کئی پلٹیاں کھاتی چلی گئی ۔گاڑی کے دروازے کھل گئے اور مولانا ظہیر رضا صاحب سب سے پہلے گاڑی سے گرے پھر حضرت صدرالعلماء علیہ الرحمہ گاڑی سے نیچے آئے اور پھر قاری عرفان ،اور سید عمیر کچھ فاصلہ پر گرے مولانا غلام نبی اور اسماعیل صاحب کو معمولی چوٹیں آئیں ۔قدرتی طور پر جس جگہ صدرالعلماء اور مولانا ظہیر گرے دو پتھر پڑے تھے ایک سے حضور تحسین میاں کا سر لگا اور دوسرے سے مولانا ظہیر کا ،مولانا غلام نبی حضرت کے قریب گئے اور سر کو اپنی گود میں رکھا حضرت کے چہرئہ انور سے گرد وغبار صاف کرنے لگے اور خون کو دیکھ کر اپنا رومال کو سر پر باندھ دیتے ہیں ،حضرت نے دو آہیںبھریں اور پھر آسمان کی طرف دیکھا کلمئہ طیبہ پڑھا اور اس دار فانی کو لبیک کہکر اپنے خالق حقیقی سے جاملے(یہ حادثہ ٢/اگست ٢٠٠٧ء مطابق ١٨/رجب المرجب ١٤٢٨/ھ بروز جمہ عینی شاھدین کے مطابق ١٢/بجکر ١٠/منٹ ''این سا'' مقام پر ہوا ۔)
''انا للہ و انا الیہ راجعون''
پھر کیا ہوا یہ تو صدرالعلماء سے محبت و عقیدت رکھنے والوں سے کوئی معلوم کرے کہ پوری دنیاسنیت میں ایک کہرام مچ گیا ،
آپ شہید ہیںـّ :
''کل نفس ذائقۃ الموت '' اس ایۃ کریمہ کے تحت باری تعالی کے کسی بھی حکم یا فرمان عالی شان میں کسی کو کوئی دخل نہیں وہ جب چاہے جسے چاہے کسی کو بھی کسی بہانے مقررہ وقت پر اس د نیافانی سے اٹھا لیتا ہے۔لیکن مرنے والوں کے درجات الگ ہوتے ہیں کوئی شہید کہلاتا ہے کوئی نہیں
ایک حدیث کے مفہوم سے حضرت کا شہید ہونا ثابت ہورہا ہے،نبی پاک نے فرمایا کہ جہاد فی سبیل لللہ کے علاوہ پانچ اور بھی شہید ہیں ایک وہ جو طاعون کی بیماری میں مرے دوسرا جو پیٹ کے درد سے مرا تیسرا جو پھوڑا کی بیماری میں مرا چوتھا وہ جو کسی چیز سے دب کر مرا ہو، پانچواں وہ جو پانی میں ڈوب کر مرے (بخاری)ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے کہ سفر میں مرنے والا بھی شہید ہے تو گویا کہ صدرالعلماء کا شہید ہونا ثابت ہوگیا ،میں تو قاصر ہوں حضرت کے اوصاف حسنہ کو بیان کرنے سے لہذا تمام اہل سنت سے میری یہ گذارش ہے کہ دعاوئں میں صدرالعلماء کو یاد رکھیں ۔اللہ تعالی اپنی رحمت سے میرے پیرو مرشد برحق کی تربت پاک کو بقئہ نور بنا دے اور انکے روحانی فیض سے تمام انسے عقیدت رکھنے والوں کوانکے فیوضوبرکات سئ مستفیض ومال مال کردے آمین آمین
|