شرعی کونسل آف انڈیاکادوسرا فقہی سیمینار، بریلی شریف ١٥/١٦/رجب المرجب بروز اتوار،پیر /مطابق ٢١/٢٢/اگست ٢٠٠٥ء شریف

سوال نامہ
سوال نمبر ۱
انٹر نیٹ و ٹیلی فون وغیرہ سے بیع و شراء کا حکم:۔
سائنس و ٹیکنالوجی کی بنیاد پر جہا ں بہت سے شعبوں میں نمایاں تبدیلی واقع ہوئی ہے ۔ وہیں مواصلات اور ذرائع ابلاغ کے میدان میں بھی غیر معمولی ترقی ہوئی ہے فاصلے سمٹ آئے ہیں۔ گویا دنیا ایک گلوبل ولیج بن گئی ہے صورت حال یہ ہے کہ سینکڑوں ہزاروں میل دور گھر بیٹھے سیکنڈوں میں آپ بذریعہ انٹرنیٹ ، فون، موبائل وغیرہ سے گفت و شنید کر سکتے ہیں، انٹرنیٹ اسکرین پر بذریعہ ای میل دنیا میں تحریری پیغام پہونچا سکتے ہیں، اور اگر آپ چاہیں تو اسکرین پرنٹ کو کاغذی پرنٹ کی شکل میں بھی نکال سکتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ انٹرنیٹ میں آپ ٹیلی فون کی طرح گفتگو بھی کر سکتے ہیں اور تحریر بھی بھیج سکتے ہیں۔
مواصلات اور ذرائع ابلاغ کی اس ترقی سے سماج کا ہر طبقہ نہ صرف یہ کہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے بلکہ عملاً امکانی حد تک اس سے فائدہ اٹھا بھی رہا ہے ، کاروبار خرید و فروخت کرنے والوں ( تاجرین) کی تو ، چاندی، اور بہار ہے یہ تاجرین ، انٹرنیٹ ، فون موبائل و دیگر ذرائع ابلاغ کو اپنے لئے عظیم نعمت غیر مترقبہ تصور کر تے ہیں۔ اور انہیں اپنے کارو بار کے فروغ، غیر معمولی وسعت دینے کا بہتر و مستحکم ذریعہ سمجھتے ہیں۔
سینکڑوں ہزاروں میل فاصلے کے باوجود انٹر نیٹ و ٹیلی فون کے ذریعہ ''اشیاء کی خرید و فروخت ''کا چلن بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔ اب دور حاضر کے علماء فقہاء کی شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ علمی تحقیق و جستجو اور بحث و مباحثے کے ذریعہ اس نو پید مسئلہ کا شرعی حل پیش کر کے امت مسلمہ کی صحیح رہنمائی فرمائیں۔
طرفین کی جانب سے مالی یا غیر مالی عوض ادا کئے جانے والے عقود و معاملات کی درستگی کے لئے عاقدین کا ایجاب و قبول کرنا ضروری ہے ۔ کیوں کہ فقہاء نے ایسے عقود و معاملات میں ایجاب و قبول کو رکن قرار دیا ہے۔ ایجاب و قبول کے درمیان اتصال ضروری ہے ۔ یعنی جب کوئی فریق اپنی طرف سے معاملات کی پیشکش کرے، تو دوسرے فریق کا ''قبول'' اس ''ایجاب'' سے متصلاًہونا لازمی ہے اس اتصال کی دو صورتیں ہیں (١)اتصال حقیقی(٢)اتصال حکمی پہلی صورت یہ ہے کہ ایجاب کے فوری بعد بلاتا خیر دوسرا فریق اسے قبول کر لے اور دوسری صورت یہ ہے کہ مجلس ایجاب کے ختم ہونے سے پہلے پہلے ''قبول'' کا اظہار کیا جائے اس دوسری صورت کو بھی فقہاء حنفیہ نے ''اتصال'' ہی کے زمرے میںمانا ہے، کیو ں کہ مجلس کے متحد ہونے اور ایجاب و قبول کے درمیان فصل بالا جنبی نہ پائے جانے کیوجہ سے ایجاب و قبول میں اتصال حقیقۃ نہ سہی حکماً ضرور پایا گیا۔
بیع، نکاح جیسے عقود کے انعقاد کے لئے مجلس کے ایک ہونے کی شرط لازمی ہے '' ومنہا فی المکان، وہو اتحاد المجلس بان کان الایجاب والقبول فی مجلس و احد، فان اختلف لاینعقد ( عالمگیری ص٣) (اتحاد المجلس) قال فی البحر فلواختلف المجلس لم ینعقد، فلواوجب احد ہما فقام الآخر اواشتغل بعمل آخربطل الایجاب ، لان شرط الارتباط اتحاد الزمان (رد المحتار ٤/٧٢)۔
اس تعلق سے قابل غور پہلو یہ ہے کہ اصل مقصود ایجاب و قبول میں ''مقارنت زمانیہ'' اور ''اتحاد مجلس'' دونوں ہے؟ یا یہ کہ محض زماناً مقارنت و اتصال، بایں طور کافی ہے کہ پچھلے ادوار میں عاقدین کے لئے الفاظ ایجاب و قبول کی سماعت و مقارنت، اتحاد مجلس کے بغیر متصور نہ تھی۔ اس لئے فقہاء نے انعقاد عقد کے لئے اتحاد مجلس کی شرط لگائی ، اور جب کہ ذرائع ابلاغ و مواصلات نے غیر معمولی ترقی کر لی ہے۔ عاقدین سینکڑوں بلکہ ہزاروں میل کے فاصلے پر رہتے ہوئے بھی ایجاب و قبول کر لیتے ہیں اور ان دونوں میں مقارنت زمانیہ ( اتصال) بھی بحسن و خوبی پائی جاتی ہے ، تو کیا اتحاد مجلس ، کی شرط اب بھی لازمی قرار دی جائے گی؟ اسی تناظر میں چند سلگتے ہوئے سوالات حاضر خدمت ہیں۔
۱۔ فقہاء کرام کے یہاں مجلس کے متحد و مختلف ہونے کے کیا معنی ہیں؟
۲۔ انٹرنیٹ و ٹیلی فون وغیرہ کے ذریعہ اشیاء کی خرید و فروخت کا معاملہ شرعاً درست ہے؟ اور کیا اس طرح بیع و شراء منعقد ہوتی ہے؟
۳۔ اگر یہ معاملہ شرعاً درست نہ ہو تو کیا تصحیح عقد و جواز معاملہ کی شرعاً کوئی صورت ہے یا نہیں؟
۴۔ اس ضمن میں انٹر نیٹ و ٹیلی فون کے ذریعہ نکاح کا حکم بھی واضح فرما دیا جائے۔ امید کہ ان سوالات کے تشفی بخش جواب سے شاد کام فرمائیں گے۔
ناظم: شرعی کونسل آف انڈیا
٨٢/سوداگران بریلی شریف
سوال نمبر ۲
رمی جمار:۔
ارکان اسلام میں حج بیت اللہ شریف کی عظمت و اہمیت آفتاب روز روشن سے زیادہ واضح ہے آیت کریمہ ''وﷲ علی الناس حج البیت من استطاع إلیہ سبیلا'' اور ''وأذّن فی الناس با لحج یا توک رجالاو علی کل ضامر یاتین من کل فج عمیق'' اس پر شاہد عدل ہے افعال حج میں غور و فکر کرنے سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ جس طرح طواف خانہ کعبہ کا مکان خاص (داخل مسجد حرام) اور سعی کا مسعی( صفا اور مروہ کے درمیان)میں ہونا ضروری ہے اسی طرح جمرات ثلاثہ کی رمی، مکان رمی میں ہونا ضروری ہے شارع کے مقرر فرمودہ حدود سے الگ اگران امور کو ادا کیا جائے تو حکم شارع کی بجا آوری نہ ہوئی اور یہ افعال قربت نہ کہلائیں گے بلکہ شرعا کا لعدم اور ساقط الاعتبار قرار پائیں گے اس لئے کہ یہ افعال امور تعبدیہ سے ہیں جن میں حکم شارع کی بجا آوری سے مضر نہیں مکان رمی کے متعلق فقہائے کرام کے ارشادات عالیہ سے یہ ظاہر و باہر ہے کہ اگر رمی جمرہ کے پاس یا اس کے قریب ہو تو مکان رمی میں ہوگی اور اگر اس سے دور ہو تو یہ رمی ، مکان رمی میں نہ ہوئی۔ اس قریب و بعد کی حد بھی فقہائے عظام نے معین فرمادئے ہیں وہ یہ کہ اگر تین ہاتھ کے فاصلہ کے اندر ہو تو جمرہ سے قریب ( مکان رمی میں) رمی ہوئی اور شرعا معتبر ہوئی اور اگر مذکورہ فاصلہ کے ماسوا میں رمی ہوئی تو یہ قریب جمرہ رمی نہ ہوئی اور یہ رمی واجب سے سبکدوشی کے لئے کافی نہ ہوئی امام شیخ الا سلام ابو بکر بن علی بن محمد حداد یمنی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ''وینبغی أن تقع الحصاۃ عند الجمرۃ أوقریبا منہا حتی لو وقع بعید الم یجزو حد القرب والبعد أن الثلاثہ الأذرع أی بین الحصاۃ والجمرۃ فی حد البعد وما دونہ قریب''(جوہرہ نیرہ ١/٢٣٤ایضا طحطاوی ص١٩٥ ]۔
درمختار میں ہے ''ولووقعت علی ظہررجل أوجمل إن وقعت بنفسہا بقریب الجمرۃ جاز والا لا، وثلاثۃ أذرع بعیدوما دونہ قریب'' (درمختار ٣/٥٣١ کتاب الحج ]۔
فقیہ فقید المثال مجدد اعظم سید نا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ، فرماتے ہیں''بہتر یہ ہے کہ کنکریاں جمرہ تک پہنچیں ورنہ تین گز شرعی کے فاصلہ تک کریں اس سے زیادہ میں وہ کنکری شمار میں نہ آئے گی'' ( تکملہ انوار البشارۃ فی مسائل الحج والزیارۃ النیرۃ الوضیۃ ص، ٤و ٤١ ]۔
حضرت فقیہ اعظم، صدر الشریعہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں''اگر کنکری کسی شخص کی پیٹھ یا کسی اور چیز پر پڑی اور ہلکی رہ گئی تو اس کے بدلے کی دوسری مارے اور اگر گرپڑی اور وہاں گری جہاں اس کی جگہ ہے یعنی جمرہ سے تین ہاتھ کے فاصلے کے اندر تو جائز ہوگی'' (بہار شریعت ٦/٧٩ ]۔
ان روشن فقہی شواہد سے یہ حقیقت عیاں و آشکارا ہو جاتی ہے کہ رمی کا مخصوص مکان یعنی جمرہ کے پاس یا اس کے قریب ہونا از بس لازم و ضروری ہے اگر اس حد سے دور ہو تو یہ رمی معتبر نہ ہوئی اور واجب سے سبکدوشی کے لئے کافی نہ ہوئی۔
خاتمۃ المحققین علامہ شامی علیہ الرحمہ کے اس کی علت پر روشنی ڈالتے ہوئے رقمطراز ہیں۔ ''قولہ الا قال فی الہدایۃ لأنہ لم یعرف قربۃ الافی مکان مخصوص ١ھ وفی اللباب و لو وقعت علی الشاخص أی أطراف المیل الذی ہو علا مۃ للجمرۃ أجرۃ ولوعلی قبۃ الشاخص ولم تنزل عنہ أنہ لایجزیہ للبعد، وان لم یدر أنہا وقعت فی الر می بنفسہا أو بنفض من وقعت علیہ وتحریکہ ففیہ اختلاف والا حتیاط أن یعیدہ، وکذالورمی و شک فی وقوعہا موقعہا فالا حتیاط أن یعید'' (رد المحتار ٣/٥٣١کتاب الحج ]۔
رمی کا جس طرح مخصوص مکان میں ہونا ضروری ہے اسی طرح اس کے لئے مخصوص اوقات بھی ہیں کہ انہیں اوقات مخصوصہ میں رمی شرعا معتبر ہوئی صاحب جو ہرہ نیرہ اس حقیقت کو و اشگاف فرماتے ہوئے رقمطراز ہیں ''أوقات الرمی أر بعۃ أیام یوم النحر و ثلاثۃ أیام بعدہ ففی الاول وقت مکروہ وہو مابعدطلوع الفجر الی طلوع الشمس، ومسنون وہو طلوع الشمس الی الزوال و مباح وہو ما بعد الزوال الی الغروب، وما بعد ذالک الی طلوع الفجر مکروہ، وفی الیوم الثانی و الثالث من طلوع الشمس الی الزوال لایجوز ، وما بعدہ الی الغروب مسنون، ومن بعد الغروب الی طلوع الفجر مکروہ، فان رمی با للیل قبل طلوع الفجر جاز ولا شی علیہ واما الیوم الرابع فعند ابی حنیفۃ من طلوع الفجر الی الغروب الا أن ما قبل الزوال مکروہ وما بعدہ مسنون وعندہما وقتہ ما بعد الزوال ولا یجوز قبلہ قیاساعلی الیوم الثانی والثالث و أبو حنیفۃ قاسہ علی الیوم الادل ناذ ا عزبت الشمس یوم الرابع لایجوز أن یرمی باللیل لانہ قدمضی وقت الرمی فسقط فعلہ ویجب علیہ دم للسقوط کذا ذ کرہ الحجنزی'' (جوہرہ نیرہ ١/٢٣٣و٢٣٤ ]۔
حضرت فقیہ اعظم صدر الشریعہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ''دسویں کی رمی کا وقت اوپر مذکور ہوا ( اس رمی کا وقت آج کی فجر سے گیارہویں کی فجر تک ہے مگر مسنون یہ ہے کہ طلوع آفتاب سے زوال تک ہو او زوال سے غروب تک مباح اور غروب سے فجر تک مکروہ یوں ہی دسویں کی فجر سے طلوع آفتاب تک مکروہ اور اگر کسی عذر کے سبب ہو مثلاً چرواہوں نے رات میں رمی کی تو کراہت نہیں گیارہویں بارہویں کا وقت آفتاب ڈھلنے سے صبح تک ہے مگر رات میں یعنی آفتاب ڈوبنے کے بعد مکروہ ہے اور تیرہویں کی رمی کا وقت صبح سے آفتاب ڈوبنے تک ہے مگر صبح سے آفتاب ڈھلنے تک مکروہ وقت ہے اس کے بعد غروب آفتاب تک مسنون۔
لہٰذا اگر پہلی تین تاریخوں ١٠/١١/١٢/ کی رمی دن میں نہ کی ہو تو رات میں کرے پھر اگر بغیر عذر ہے تو کراہت ہے ورنہ کچھ نہیں اور اگر رات میں بھی نہ کی تو قضا ہوگئی اب دوسرے دن اس کی قضا دے اور اس کے ذمہ کفارہ واجب اور اس قضا کا بھی وقت تیرہویں کے آفتاب ڈوبنے تک ہے اگر تیرہویں کو آفتاب ڈوب گیا اور رمی نہ کی تو اب رمی نہیںہو سکتی اور دم واجب '' ( درمختار و رد المحتار) بہار شریعت ٦/٧٥و٧٩ گزشتہ سطور کے مطالعہ سے رمی کے اوقات جائزہ و مکروہہ و مستحبہ کی حقیقت منکشف تام ہو گئی جس سے یہ امر بالکل واضح ہے کہ مکان رمی میں اسی وقت رمی معتبر اور واجب سے سبکدوشی کے لئے کافی ہوئی جب کہ رمی ان اوقات میں ہو جو اوقات شرعا معتبر ہیں۔
یہاں یہ امر بھی قابل اعتنا ہے کہ رمی خود رامی کا فعل ہو اور اسی کی قوت سے واقع ہونہ کہ غیر جیسا کہ درمختار و شامی کی درج ذیل عبارت سے یہی اشعار ہوتا ہے درمختار میں ہے ''ولو وقعت علی ظہر رجل أوجمل ان وقعت بنفسہا بقریب الجمرۃ جاز، والالا''[ ردالمحتار ٣/٥٣١ کتاب الحج ]۔
شامی میں صاحب درمختار کے مذکورہ بالا قول ''والا'' کے تحت ہے ''أی وان لم تقع من علی ظہرہ بنفسہا بل بتحرک الرجل أوالجمل اووقعت بنفسہا لکن بعید امن الجمرہ'' ردالمحتار٣/٥٣١کتاب الحج
فقیہ اعظم حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ''اگر کنکری کسی شخص پر پڑی اور اس پر سے جمرہ کو لگی تو اگر معلوم ہو کہ اس کے دفع کرنے سے جمرہ پر پہونچی تو اس کے بدلے کی دوسری کنکری مارے اور معلوم نہ ہو جب بھی احتیاط یہی ہے کہ دوسری مارے یوہیں اگر شک ہو کہ کنکری اپنی جگہ پر پہنچی یا نہیں تو اعادہ کرے منسک بہار شریعت
ان فقہی تصریحات سے یہ حقیقت طشت از بام ہو جاتی ہے کہ رمی خود رامی کی قوت سے ہو نہ کہ غیر کہ قوت غیر سے اگر رمی ہوئی تو شرعا معتبر نہ ہوئی ان سطور کے بعد موجودہ حالات میں مکان رمی اور اوقات رمی پر نظر و فکر کی ضرورت ہے مکان رمی کے متعلق حج بیت اللہ شریف کی سعادت عظمیٰ سے شرفیاب ہونے والے بعض علمائے کرام نے اپنے مشاہدہ کی روشنی میں یہ انکشاف فرمایا کہ اب مکان رمی مثل سابق نہ رہا بلکہ اس سال ٢٠٠٥ء میں یہ دیکھنے میں آیا کہ مکان رمی میں بہت کچھ تبدیلیاں ہو گئیں ہیں جن کے سبب رمی کے مسئلہ میں پیچید گی پیدا ہو گئی ہے اور وہ یہ کہ شیطان کا علامتی نشان غالباً اب مثل سابق نہ رہا بلکہ حجاج کرام کی سہولیت کے پیش نظر مکان رمی کو کافی طویل و عریض بنادیا گیا ہے جس سے اب یہ خدشہ پیدا ہو سکتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ کسی گو شہ سے رمی کرنے پر کنکریاں مخصوص دائرہ میں نہ گریں بلکہ اس سے باہر گریں اگر فی الواقع ایسی صورت پیدا ہو گئی ہے تو کیا یہ رمی معتبر ہوگی اور واجب سے سبکدوشی کے لئے کافی ہوگی؟
یہ بھی ممکن ہے کہ مکان رمی اپنے طویل و عریض ہو جانے کے بعد بھی اس ہیئت کے ساتھ بنایا گیا ہو کہ کنکری اس وسیع و عریض دائرہ کے کسی بھی گوشہ سے ماری جائے تو اس مخصوص دائرہ ہی میں واقع ہو جو شرعاً معتبر ہے۔
رمی جمرات میں بہت سے حجاج رمی کے اوقات جائزہ و مستحبہ کی رعایت نہیں کرتے ہیں نیز بہت سے حجاج خود رمی نہیں کرتے ہیں بلکہ دوسرے رمی کر نے والوں سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ میری طرف سے بھی رمی کر دیجئے گا اس لئے موجودہ حالات کے تناظر میں آپ حضرات کی خدمات عالیہ میں یہ گزارش ہے کہ تینوں جمروں کے مکا نات کی کامل تحقیق فرما کر درج ذیل سوالات کے تشفی بخش جوابات سے نوازیں۔
۱۔ مکان رمی کی موجودہ صورت حال کیا ہے؟ کیا اب بھی ان تغیرات کے بعد کنکریاں خاص دائرہ ہی میں واقع ہوتی ہیں اگر خاص اس حد میں واقع نہیں ہوتیں بلکہ اس سے دور گرتی ہیں تو کیا یہ رمی شرعاً معتبر ہوئی اور دم واجب نہ ہوگا؟
۲۔ اگر یہ رمی مکان رمی میں نہ ہونے کے سبب شرعاً غیر معتبر ہو تو کیا ازدحام شدید کا عذر معقول تخفیف حکم اور سقوط دم میں مؤثر ہوگا یا اور کوئی سبب موجب تخفیف ہے یا تخفیف کی کوئی صورت نہیں بلکہ دم ہی واجب ہے یا اور کوئی شرعی حل ہے؟
۳۔ مکان رمی کی خاص حد حقیقۃ کیا ہے کیا صرف فرش زمیں سے متصل حصہ ہی حقیقہ مکان رمی ہے یا فرش زمیں سے آسمان تک اس خاص حد کے محاذی جو فضا واقع ہے وہ بھی شرعا مکان رمی ہے اور اس محاذی فضا میں بلا عذر رمی کرنے سے رمی ساقط ہوجائے گی اور یہ رمی عند الجمرہ یا قرب جمرہ کہلائے گی؟
۴۔ رمی میں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کنکری رامی کی قوت سے حرکت کر کے براہ راست مکان رمی میں واقع نہیں ہوتی بلکہ کسی دوسری شئی سے ٹکراکر اس شئی کی قوت دافعہ سے متحرک ہو کر مخصوص دائرہ میں واقع ہوتی ہے تو کیا رمی عند الشرع معتبر ہوئی اور مباشر ( رامی)کی طرف منسوب ہوئی اور اس کی صفت ذاتیہ قرار پائے گی اور واجب ادا ہو جائے گا؟
۵۔ جو حجاج خود رمی نہیں کرتے بلکہ دوسرے حاجیوں کو رمی کے لئے کہتے ہیںاور وہ ان کی طرف سے رمی کرتے ہیں اس رمی کا کیا حکم ہے جب کہ بہت سے ایسے حجاج ہوتے ہیں جنہیں اس از دحام شدید میں رمی کرنے سے اپنی جان کے ہلاکت کا قوی اندیشہ ہوتا ہے؟
۶۔ بعض حجاج بھیڑ بھاڑ کی تاب نہ رکھنے کے سبب دوسروں کو رمی کے لئے تو نہیں کہتے بلکہ خود ہی رمی کرتے ہیں مگر اوقات مستحبہ میںر می کر نے کے بجائے شب میں رمی کرتے ہیںتو کیا ازدحام شدید کے عذر معقول کے سبب یہ رمی بلا کراہت جائز و درست ہوئی حضرت صدرالشریعہ علیہ الرحمہ کے ارشاد سے یہ ثبوت فراہم ہوتا ہے کہ شب میں رمی اگربغیر عذر ہے تو تو کراہت ہے ورنہ کچھ نہیں موجودہ صورت حال میںاز دحام شدید کا حال اظہر من الشمس اور اوضح من الامس ہے ہر سال ایام حج میںرمی کے دوران حوادث واقع ہوتے رہتے ہیں اور بہت سے حجاج اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دیتے ہیں کیا اس ازدحام شدید کو عذر شرعی قرار دے کر اصحاب عذر کے لئے شب میں بلا کراہت رمی کا حکم ہوگا؟
ناظم: شرعی کونسل آف انڈیا
٨٢/سوداگران بریلی شریف

سوال نمبر ۳
رویت ہلال بذریعہ جدید آلات شرعاً معتبر ہے یا نہیں؟
آج کا دور ترقی یافتہ دور مانا جاتا ہے فیکس ، ای میل، انٹر نیٹ ، ٹیلیفون، ٹی وی ویڈیو وغیرہ اس دور ترقی کے خاص ایجادات سے ہیں جو عوام و خواص سبھی کی ضرورت بن چکے ہیں ان ایجادات کے فوائد سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر ان فوائد کے ساتھ شرعی قباحتوں سے بھی مفرنہیں ہم جس ملک میں رہتے ہیں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ رمضان المبارک اور عید الفطر اور عید الاضحی کے موقع پر ان ایجادات کے سبب عوام و علماء دونوں الجھنوں کے شکار ہو جاتے ہیں کیوں کہ اس ملک میں کچھ ایسے خداناترس لوگ ہیں جو بلا تحقیق شرعی ان اعلانات پر اعتماد کر لیتے ہیں جن کی شرعا کوئی حیثیت نہیں جس کا نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ ایسے لوگ خاص کر علمائے کرام کے لئے بوجھ بن جاتے ہیں اور اپنی عبادتوں کو ضائع کر کے شرعی قباحتوں کے مرتکب ہو جاتے ہیں ایسی صورت حال میں علمائے دین و ملت اور علمائے امت کی اہم ترین ذمہ داری ہوتی ہے کہ عوام کی صحیح رہنمائی کریں اور ان کے حل کی کوئی ایسی راہ متعین کریں جس میں عوام و علما دونوں کے لئے آسانی ہو اور اخروی صلاح و فلاح بھی اس لئے آپ حضرات کی خدمات عالیہ میں درج ذیل سوالات پیش ہیں۔
۱۔ کیا پورے ملک کا ایک قاضی بنانا صحیح ہے یا اس کے تحت مختلف بلاد و امصار کے لحاظ سے مختلف قضاۃ کا ہونا بھی ضروری ہے اگر ایک قاضی بنانا صحیح ہے تو اس کا کیا معنی ہے؟اگر دیگر قضاۃ بھی قاضی بلد کے تحت ہوں تو ان کا دائرہ قضا و عمل کیا ہوگا؟ فقہائے کرام کے ارشاد اذاخلاالزمان من سلطان ذی کفایۃ فالأ مورمؤ کلۃ الی العلمائکا کیا معنی ہے یہاں امور اور علماء سے کیا مراد ہے اور علماء کے مصداق کون حضرات ہیں۔
۲۔ ایک قاضی اگر دوسرے قاضی کو ٹیلیفون، فیکس، ای میل، انٹر نیٹ وغیرہ کے ذریعہ ثبوت رویت فراہم کرے تو کیا یہ شرعاً معتبر ہوگا اور قاضی مرسل الیہ کواس پر اعتماد کر کے رویت کا اعلان کر نا جائز ہوگا ؟کیایہ کتاب القاضی الی القاضی کے زمرہ میں آئے گا اگر کتاب القاضی الی القاضی کے درجہ میں ہو تو کیا اس کے شرائط یہاںموجود ہیں اگر نہیںتو کیا ان شرطوں کے بغیر بھی معتبر ہو سکتا ہے ؟
۳۔ اگر پورے ملک کا قاضی اپنے پورے ملک میں یا اس کے ماتحت اپنے حدود قضاء میں تحقیق رویت ہلال کے بعد ٹیلیفون، فیکس، ای میل، انٹر نیٹ یا اپنے مہر و دستخط کردہ مکتوب وغیرہ کے ذریعہ ثبوت رویت فراہم کرے تو کیا اس پر اعتمادکی کوئی راہ ہے کیا ان طرق موجبہ میںسے ہے جنہیں فقہائے کرام نے مدار رویت قرار دیا کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ مذکورہ ذرائع سے اعلان قاضی ،قاضی بلدکے حکم سے داغی جانے والی توپ کے حکم میں ہے۔
۴۔ اگر مذکورہ ذرائع ابلاغ ان طرق موجبہ میں سے نہ ہوں تو کیا ان کے بغیر اور کسی طریقے سے بھی رویت کا ثبوت فراہم ہو سکتا ہے یا انہیں طرق موجبہ ہی کا اب بھی عمل میں لانا ضروری ہے ان کے علاوہ اور کوئی طریقہ معتبر نہیں؟
۵۔ اگر پورے ملک کا قاضی تحقیق رویت کے بعد اپنے ماتحت قاضی کے حدود میں ان کے اذن کے بغیر ثبوت رویت فراہم کرے اور رویت کا حکم نافذ کرے تو کیا شرعاً اسکا اعتبار ہوگا؟
۶۔ بسیٹیلائٹ کے ذریعہ ٹی وی چینل پر چاند کی مشاہدہ کی جانے والی صورت کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟کیا شرعاحکم رویت اس کے ذریعہ ثابت ہوگا اور احکام شرعیہ کا مدار اسے قرار دینا صحیح ہوگا؟
ناظم: شرعی کونسل آف انڈیا
٨٢/سوداگران بریلی شریف
جوابات/فیصلے
دوسرا فقہی سیمینار ''شرعی کونسل آف انڈیا''بریلی شریف ١٥/١٦/رجب المرجب بروز اتوار،پیر /مطابق ٢١/٢٢/اگست ٢٠٠٥ء
جواب نمبر ۱
انٹر نیٹ و ٹیلی فون وغیرہ سے بیع و شراء کا حکم:۔
۱۔ اس پر سب کو اتفاق ہے کہ انٹر نیٹ و فیکس کے ذریعہ عقد بیع ہو تو شرعاً بیع منعقد ہوجائے گی۔
۲۔ بذریعہ فون یا موبائل بیع و شراء سے متعلق گفتگو معاہدہ ہے، ہاں بطور تعاطی یہ بیع درست ہوگی۔ جب ایک فریق نے مال یادام دوسرے فریق کے پاس بھیجا اور دوسرے نے لیا۔
۳۔ انٹرنیٹ و فیکس کے ذریعہ نکاح کے انعقاد کے سلسلے مین بحث کا موقع نہ مل سکا اس لئے اسے آئندہ پر موقوف رکھا جاتا ہے۔


جواب نمبر ۲
رمی جمار:۔
۱۔ جمرہ کی موجودہ صورت حال کہ جس میں جمرہ اپنی اصل صورت سے بہت زیادہ وسیع کر دیا گیا ہے۔ اس میں اصل حکم یہی ہے کہ رامی کی کنکریاں قدیم جمرہ کے تین ہاتھ کے فاصلے کے اندر واقع ہوں رمی معتبر ہوگی۔ ورنہ رمی معتبر نہ ہوگی۔
۲۔ جو لوگ رمی ایسی جگہ سے کریں جو قدیم جمرہ سے تین ہاتھ سے زیادہ دوری پر واقع ہو، اور رامی ہی کی قوت سے جمرہ سے وہ تین ہاتھ کے اندر پہونچ جائے تو بھی رمی صحیح ہے، اور اگر یہ شبہ ہو کہ وہ قوت رامی سے وہاں پہونچی یا کسی دوسرے قاسرسے تو احتیاط یہ ہے کہ دوسری کنکری مارے۔یونہی اگر شک ہو کہ کنکری اپنی جگہ پہونچی یا نہیں۔ تو بھی اعادئہ رمی کرے۔
۳۔ بغیر عذر کنکری مارنے کے لئے نائب بنانے کی اجازت نہیں۔ ہاں جو شخص صاحب عذر ہو یعنی ایسا مریض ہو کہ جمرہ تک سواری پر بھی نہ جاسکتا ہو، وہ دوسرے کو حکم کردے کہ وہ اس کی طرف سے رمی کرے۔اور نائب کو چاہئے کہ پہلے اپنی طرف سے سات کنکریاں مارنے کے بعد مریض کی طرف سے رمی کرے۔ اور اگر مریض کے بغیر حکم رمی کردی، تو جائز نہ ہوئی۔ اور اگر مریض میں اتنی طاقت نہیں تو بہتر یہ کہ اس کا ساتھی اس کے ہاتھ پر کنکری رکھ کر رمی کرائے۔ اگر مریض بے ہوش ہے تو اس کا ساتھی اس کی طرف سے رمی کردے۔
جواب نمبر ۳

رویت ہلال بذریعہ جدید آلات شرعاً معتبر ہے یا نہیں:۔
۱۔ اس زمانے میں پورے ملک کے لئے ایک قاضی پر اتفاق دشوار ہے، اس لئے ہر ضلع کا سب سے بڑا عالم دین مرجع فتویٰ واہل تقویٰ قاضئ شرع ہوگا۔ اور اس کے حکم و فیصلہ کا اعلان اس کے شہرو خوامی شہر میں معتبر ہے ۔
۲۔ پورے ملک کے قاضی کا اعلان سخت محل نظر ہونے کی وجہ سے آئندہ کے لئے زیر غور رکھا گیا۔
۳۔ رویت ہلال کے وہ اعلان جو ریڈیو،ٹیلی ویژن، ٹیلیفون کے ذریعہ ہوں، اگرچہ ایک شہر کے لئے ہوں، وہ نا معتبر ہیں، کیوں کہ ہندوستان کے مذکورہ ذرائع ابلاغ اختیار قاضی سے باہر ہیں جن میں جعل و تزویر ہوتی رہتی ہے۔ یہی حکم پاکستان و بنگلہ دیش کے مذکورہ ذرائع ابلاغ کا ہے جبکہ وہ قبضئہ قاضی سے باہر ہوں۔
۴۔ سیٹلائٹ کی اسکرین پرچاندکی رویت شرعاً معتبر نہیں۔
۵۔ باتفاق رائے طے ہوا کہ فیکس و انٹر نیٹ ، ٹیلیفون کے ذریعہ استفاضہ شرعیہ کا تحقق نہیں ہو سکتا۔
|  HOME  | آ