چوتھا فقہی سیمینار ،شرعی کونسل آف انڈیا، بریلی شریف ٢٠٠٧ء

سوال نا مہ
سوال نمبر ۱
ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعہ بچہ پیدا کرنا:۔
سائنس کی ترقی کا ایک حیرت انگیز نمونہ ''ٹیسٹ ٹیوب'' کے ذریعہ بچہ پیدا کرنے کا مسئلہ بھی ہے ۔ یہ ایک خاص قسم کی ٹیوب ہے ، جس میں عورت کے رحم سے بیضئہ تولید کو نکال کر رکھا جاتا ہے ۔ پھر مرد کی منی نکال کر اس بیضہ میں ڈالی جاتی ہے ۔ اس طرح دونوں کے ملاپ سے بیضہ میں سلیس (Cells) جس کی افزائش ہوتی رہتی ہے، جب یہی سیل رفتہ رفتہ بڑھتے بڑھتے مخصوص مطلوبہ قوت کے حامل ہوجاتے ہیں تو ان دونوں مادوں (مادئے تولید و بیضئہ تولید) کو کسی عورت کے رحم میں ڈال دیا جاتا ہے ، عورت کے رحم میں نوماہ نشوونما پانے کے بعد بچہ کی ولادت ہوتی ہے۔
بیضئ تولید نکالنے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جن ایام میں عورت کے رحم کی نلی میں قدرۃً بیضئہ تولید تیار ہوتا ہے انہیں ایام میں عورت کے ناف کے نیچے تھوڑا سا شگاف کر کے ایک مخصوص آلہ (دوربین) کے ذریعہ بیضہ کا پتہ لگایا جاتا ہے ، پھر نالی میںموجود بیضہ کو باہر نکال لیا جاتا ہے۔ مرد کا مادئی تولید ہاتھ کے ذریعہ نکالا جاتا ہے ۔ پھر دونوں کو ایک مخصوص قسم کی ٹیوب میں جمع کیا جاتا ہے ۔ جب دونوں کے باہمی ملاپ سے اس بات کا اطمینان ہوجاتا ہے کہ اب اس سے استقرار ہوجائے گا ، تو اسے مخصوص ٹیوب کے ذریعہ عورت کی شرمگاہ کے راستے رحم میں منتقل کردیا جاتا ہے۔
ٹیسٹ ٹیوب'' کے استعمال کی حاجت اس وقت پیش آتی ہے ، جب قدرتی طور پر یامرض وغیرہ کی وجہ سے رحم کی نالیوں کے راستے عورت کے رحم میںبیضئ تولید پہونچ نہیں پاتا۔ ایسی صورت میںعورت و مرد کی فطری مباشرت سے بچہ پیدا ہونے کا امکان نہیں رہ جاتا ، اس لئے ''ٹیسٹ ٹیوب'' کے ذریعہ دونوں مادوں کو مخصوص طریقے سے رحم میں منتقل کیا جاتا ہے ۔ جانوروں کے بچہ پیدا کرنے میں یہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں ہزاروں انسان اس سے پیدا ہوچکے ہیں اور مختلف ممالک میں یہ عمل جاری ہے۔
ان حالات میں ہم پر شرعی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس طریقہ و عمل کے جواز و عد م جواز کا حکم واضح کرکے صحیح اسلامی نقطئہ نظر سے لوگوں کو روشناس کرائیں۔ اس مسئلے کے حل کے لئے چند سوالات آپ کی خدمت میں پیش ہیں:۔
۱۔ کیاٹیسٹ ٹیوب کے ذریعہ بچہ پیدا کرنا شرعاً جائز ہے؟
۲۔ اگر جواب نفی میں ہوتو کیا اولاد حاصل کرنے کی ضرورت کے پیش نظر یہ طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے ؟
۳۔ اگر کسی عورت نے اپنے رحم میں غیر شوہر کی منی داخل کرلی ، تو کیا وہ زانیہ کہلائے گی ؟ اگر اس سے اولاد پیدا ہوئی تو وہ ثابت النسب ہوگی یا نہیں؟
۴۔ حلال یا حرام جانور کے رحم میں کسی حلال یا حرام جانور کا مادہئ تولید بذریعہ ٹیسٹ ٹیوب داخل کر کے بچہ پیدا کرنا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟
امید ہے کہ ان سوالات کے تشفی بخش جواب سے شاد کام فرمائیں گے ۔
فقط و السلام
مفتی آل مصطفی مصباحی
رکن شرعی کونسل آف انڈیا بریلی شریف وخاد م جامعہ امجدیہ رضویہ ،گھوسی
سوال نمبر ۲
رشوت دے کر مدارس کو ایڈڈ کرانے اور مدرسین کی تـقرری کا حکم:۔

پُر تعیش زندگی کی خواہش اور دنیا طلبی نے غیروں کی طرح اپنوں کو بھی اپنے دامن میں گرفتار کرلیاہے۔ مسلمانوں پر دنیا بڑی تیزی سے غالب آرہی ہے اور دینی خلوص ناپید ہوتا جارہا ہے ۔ اس کی ایک کڑی مدارس میںرشوت کی گرم بازاری ہے۔ مدارس کو ایڈڈ کروانے سے لے کر تنخواہوں کی حصولیا بی تک ہرہر قد م پر رشوت کے لین دین کا چلن بہت عام ہوتا جا رہا ہے، جب کہ مدارس کے قیام کا مطمح نظر ہی دینی علوم کی اشاعت کر کے ان جیسے خلاف شرع کام پر روک لگانا ہے۔
ہندوستان کی بعض ریاستوں میں حکومت نے جو عربی فارسی بورڈ بنا رکھا ہے اس بورڈ سے مدارس کو منسلک کر کے مالی فائدہ اٹھایا جاتا ہے جسے ایڈڈ کرانا کہتے ہیں۔ اس میں مدارس کے محدود و مقرر اساتذہ وملازمین کو گورنمنٹ تنخواہ دیتی ہے ۔ اور بعض دوسرے فنڈ کے تحت تعمیرات اور طلبہ کے وظائف کے نام پر بھی خطیر رقم دیتی ہے۔ جس سے بلا شبہ مدارس کا خاصا فائدہ ہوتا ہے۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ عملاً کوئی مدرسہ اس وقت تک ایڈ لسٹ پر نہیں لیا جاتا ، جب تک متعلقہ افسروں کو منہ مانگی رقم نذر نہ کی جائے ۔ یہ تو پہلا مرحلہ ہوا۔ پھراساتذہ و ملازمین کی تقرری کے لئے آفیسروں کے علاوہ مدارس کے نظماء بھی خطیر رقم وصول کرتے ہوئے نہیں جھجھکتے ۔ پھر جب آفیسوں سے تنخواہ پاس کرانے کی باری آتی ہے تو ماہانہ تنخواہ کی حصولیابی یااجرا ء کے لئے آفیسوں میںبیٹھے آفیسر سے لے کر کلرک تک کی مالی خدمت کی جاتی ہے کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض مدرسے کو وزارت سے منظوری ملنے کے بعد بھی منظوری کے نفاذ میں آفیسران رشوت کے بغیر کام نہیں کرتے، کبھی بعض اہل مدارس دوسرے منظوری یافتہ مدرسہ کی بجائے خود ایڈ لسٹ پر آنے کی غرض سے زیادہ رشوت دے کر اپنا کام کرالیتے ہیں۔
بظاہر یہ طرز و عمل رشوت کے دائرے میںآتا ہے ، جب کہ حدیث پاک میں اس کی شدید مذمت وارد ہوئی ۔ اور رشوت لینے والے اور دینے والے کو جہنمی قرار دیا گیا۔ حدیث میں فرمایا گیا :" الراشی والمرتشی کلاھما فی النار" ضرورت ہے کہ مدارس کے اس طرز عمل کا تحقیقی طو ر پر شرعی جائزہ لیا جائے۔ جس کے لئے چند سوالات حاضر ہیں:۔
۱۔ کیا مدرسہ کو ایڈڈ کرانے ، اساتذہ کی تقرری اور حصول تنخواہ یا اجرائے تنخواہ کے لئے متعلقہ محکمے کے ذمہ داروں کو اضافی رقم دینا جائزہے؟ اور اس طرح مدارس کو ایڈڈ کرانا جائز ہے؟
۲۔ یہ رقم رشوت ہے یا کچھ اور؟
۳۔ اگر یہ رشوت ہے ، تو سوال نمبر ایک میں ذکر کردہ چیزوں کے لئے جواز کا کوئی حیلہ آپ کی نظر میں ہے؟
امید ہے کہ تسلی بخش جواب سے نوازیں گے ۔
فقط والسلام
مفتی آل مصطفی مصباحی رکن شرعی کونسل آف انڈیا بریلی شریف وخاد م جامعہ امجدیہ رضویہ ،گھوسی
سوال نمبر ۳
دربارئہ قربانی:۔

اختلاف زمان و مکان کی صورت میں وکیل و موکل کے یہاں قربانی کے اوقات و اسباب:- قربانی دیگر عبادتوں کی طرح ایک اہم عبادت ہے جو زمان کے ساتھ مخصوص ہے وقت داخل ہونے سے پہلے ادا کرنا جائز نہیں کہ وقت ، قربانی کے واجب ہونے کا سبب ہے جب وقت آیا اور شرائط وجوب پائے گئے قربانی واجب ہوگئی ۔ تنویر الابصار و درمختار میں ہے: ''(وسببہا الوقت وھو ایام النحر وقیل الرأس۔
اس کے تحت شامی میں ہے:۔ ''والدلیل علی سببیۃ الوقت امتناع التقدیم علیہ کا متناع تقدیم الصلاۃ، وانما لم تجب علی الفقد لفقد الشرط وھو الغنی وان وجد السبب''۔ [رد المحتار٩/٤٥٣ کتاب الاضحیۃ (زکریا)] بدائع الصنائع میں ہے: واماوقت الوجوب: فایام النحر فلا تجب قبل دخول الوقت لان الواجبات الموقتۃ لاتجب قبل اوقاتہا کالصلاۃ والصوم ونحوھما'' [٥/٩٧/ کتاب التضحیۃ مرکز اہل سنت برکات رضا]۔
نیزاسی بدائع میں ہے: واما الذی یرجع الی وقت التضحیۃ فھو انھا لاتجوز قبل دخول الوقت لان الوقت کما ھو شرط الوجوب فھو شرط جواز اقامۃ الواجب کوقت الصلاۃ فلایجوز لاحد ان یضحی قبل طلوع الفجر الثانی من النوم الاول من ایام النحر ویجوز بعد طلوعہ سواء کان من اہل المصر أو من اہل القریٰ غیر ان للجواز فی حق اہل المصر شرطازائدا وھو ان یکون بعد صلاۃ العید لا یجوز تقدیمھا علیہ عندنا'' [بدائع الصنائع ٥/١٠٨/ کتاب التضحیۃ مرکز اہل سنت برکات رضا]۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ قربانی ان عبادات موقتہ سے ہے جو زمان کے ساتھ مخصوص ہیں اور اس کے واجب ہونے کا سبب وقت یعنی ایام نحر ہیں اور اس کا اوّل وقت شہری اور دیہی کے حق میں طلوع فجر ہے مگر شہری کے لئے قربانی سے پہلے نماز عید ادا کرنا شرط ہے شہری اور دیہی کی قربانی کا وقت مختلف نہ ہوا بلکہ اس کی شرط تو صاحب مصر کے لئے نماز سے پہلے قربانی کاجائز نہ ہونا عد م شرط کی وجہ سے ہے نہ اس لئے کہ قربانی کا وقت ہی معدوم ہے۔ جیسا کہ صاحب بدائع کی عبارت سے صاف ظاہر ہے اور رد المحتار میں علامہ شامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:''التضحیۃ لا یختلف وقتہا بالمصری وغیرہ بل شرطہا، فاول وقتھا فی حق المصری والقروی طلوع الفجر الا انہ شرط للمصری تقدیم الصلاۃ علیھ+ا فعدم الجواز لفقد الشرط لالعدم الوقت'' [٩/٤٦٠کتاب الاضحیۃ زکریا]۔
جس طرح دیگر عبادتوں میں توکیل صحیح ہے اسی طرح قربانی میں بھی تو کیل صحیح ہے جیسا کہ فقہی شواہد سے صاف ظاہر ہے، قربانی کی توکیل میں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وکیل و موکل دونوں ایسے مقامات پر ہوتے ہیں ، جہاں اوقات میں تفاوت ہوتا ہے نہ مطالع کا اختلاف ، اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اوقات و مطالع مختلف ہوتے ہیں ایک شخص امریکہ مثلاً رہتا ہے اور اس کے گھر کے لوگ ہندوستان میں رہتے ہیں اس نے اپنے گھر والوں کو اپنی قربانی کا وکیل بنایاظاہر ہے کہ دونوں مقامات میںکس درجہ اختلاف اوقات ہے کہ ایک جگہ د ن ہے دوسری جگہ رات، فرض کیجئے کہ وکیل کے یہاں انشقاق فجر ہوچکا اور نماز عید بھی ہوچکی جبکہ مؤکل کے یہاں ابھی صبح کا سپیدہ نمودار نہ ہوا خود اپنے ہندوستان کو لے لیجئے کہ ایک شخص ایسے مقام پر رہتا ہے جہاں سے اس کے اہل کافی دور ہیں اور دیہات میں رہتے ہیں، اس نے اپنے گھروالوں کو قربانی کا وکیل کیا، یہاں اول وقت داخل ہوگیا جبکہ مؤکل ایسے شہر میں ہے کہ وہاں طلوع فجر میں تاخیر ہے جس کے سبب وجوب کا سبب موکل کے یہاں متحقق نہیں۔
اسی طرح رویت ہلال میں اختلاف ہوا وکیل کے یہاں بطریق شرعی موجب قربانی کا وقت ایک دن پہلے شروع ہوا اور موکل کے یہاں طرق موجبہ کے ذریعہ ثبوت رویت ٢٩/کو محقق نہ ہوا اور ''فان غم علیکم فاکملوا العدۃ ثلاثین'' پر عمل ہوا اور قربانی کا وقت ایک دن بعد شروع ہوا یہ ہمارے ملک ہندوستان میں بھی ہوتا رہتا ہے اور دیگر ممالک میں بھی اب جبکہ قربانی کے واجب ہونے کا سبب وقت ہے جس طرح نماز کا وقت اس کے لئے سبب ہے تو جس طرح نماز کو اس کے وقت سے پہلے ادا کرنا جائز و درست نہیں قربانی بھی اس کے وقت ایام نحر سے پہلے ادا کرنا جائز نہیں وکیل اور موکل کے یہاں ابھی گذرا کہ قربانی کے اوقات کا اختلاف ہوتا ہے کبھی مطالع شمس کے اختلاف کے سبب اور کبھی رویت ہلال کے اختلاف کے سبب تویہ امر قابل اعتنا اور لائق فکر ہے کہ سبب وجوب وکیل و موکل دونوں کے یہاں پایا جانا ضروری ہے یاکہ وکیل کے یہاں تحقق بس ہے کتب فقہ کے مطالعہ سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ موکل اگر شہر میں ہے اور اس کا وکیل کسی ایسے دور دیہات میں ہے کہ موکل کے شہر اور اس دیہات میں جہاں وکیل رہتا ہے مسافت سفر ہے جس میں مسافر کے لئے نماز میں قصر مباح ہے تو وکیل نماز عید سے پہلے بعد طلوع فجر موکل کی طرف سے قربانی کرسکتا ہے اور یہ قربانی صحیح و درست ہوتی ہے بلکہ فقہائے کرام نے اس شہری کے لئے جو اپنی قربانی جلد کرنا چاہتا ہے اس کے لئے یہ حیلہ تحریر فرمایا کہ وہ اپنی قربانی کا جانور مذکورہ اوصاف کے دیہات میں کسی وکیل کے پاس بھیج دے اور وہ وکیل دیہات میں بعد طلوع فجر نماز عید سے پہلے قربانی کردے در مختار میں ہے:۔ والمعتبر مکان الاضحیۃ لامکان من علیہ، فحیلۃ مصری أراد التعجیل ان یخرجہا لخارج المصر فیضحی بہا اذا طلع الفجر اس کے تحت رد المحتا میں ہے: ''فلو کانت فی السواد والمضحی فی المصر جازت قبل الصلاۃ، وفی العکس لاتجوز'' قولہ ! (أن یخرجہا) أی یا مربا خراجہا۔ قولہ ! (لخارج المصر) أی إلیٰ ما یباح فیہ القصر'' [ردالمحتار ٩/٤٦١ کتاب الاضحیۃ ، زکریا ]۔
فقیہ النفس امام قاضی خاں رحمۃ اﷲ تعالیٰ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں :۔ لوکانت الاضحیۃ فی السواد وصاحبہا فی المصر فامر اہلہ بالتضحیۃ فذبح الاہل قبل صلاۃ" العید یجوز عندنا ویعتبر مکان المذبوح لامکان المالک وفی صدقۃ الفطر یعتبر مکان المولیٰ لا مکان العبید فی قول محمد وابی یوسف الاول رحمہما اﷲ تعالیٰ فرجع ابو یوسف رحمہ اﷲ تعالیٰ وقال یعتبر مکان العبید'' [فتاویٰ خانیہ علی ہامش الہندیۃ ٣/٣٤٥ نورانی کتب خانہ پشاور پاکستان]۔
بدائع الصنائع میںہے:۔ ''فان کان ہو فی المصر والشاۃ فی الرستاق أوفی موضع لا یصلی فیہ وقد کان امر ان یضحوا عنہ فضحوا بھا بعد طلوع الفجر قبل صلاۃ العید فانھا تجزیہ وعلی عکسہ لوکان ھو فی الرستاق والشاۃ فی المصر وقد امر من یضحی عنہ فضحوا بھا قبل صلاۃ العید فانھا لاتجزیہ وانما یعتبر فی ہذا مکان الشاۃ لامکان من علیہ ہکذا ذکر محمد علیہ الرحمہ تعالیٰ فی النوادر وقال: انما انظر الی محل الذبح ولا انظر الی موضع المذبوح عنہ وھکذ اروی الحسن عن ابی یوسف رحمہ اﷲ تعالیٰ یعتبر المکان الذی یکون فیہ الذبح ولا یعتبر المکان الذی یکون فیہ المذبوح عنہ وانما کان کذالک لأن الذبح ھو القربۃ فیعتبر مکان فعلیھا لامکان المفعول عنہ۔'' [بدائع الصنائع ٥/١١١ کتاب التضحیۃ مرکز اہل سنت برکات رضا]۔
بلکہ موکل قربانی کے وقت کسی شہر میں ہے اور اس کے گھر کے افراد کسی دوسرے شہر میں ہیں تو ظاہر الروایہ یہی ہے کہ مکان اضحیہ کا اعتبار ولحاظ ہے نہ کہ مذبوح عنہ کا مکان ۔ فقیہ النفس امام قاضی خاں رحمہ اﷲ تعالیٰ تصریح فرماتے ہیں: ''ولوکان ھو فی مصروقت الاضحیۃ واھلہ فی مصر آخر فکتب الی الاھل وامر ھم بالتضحیۃ، فی ظاھر الروایۃ یعتبر مکان الاضحیۃ'' [فتاویٰ خانیہ علی ہامش الہندیہ ٣/٣٤٥ ، نورانی کتب خانہ پشاور پاکستان]۔
ملک العلماء امام علاء الدین ابو بکر بن مسعود کا سانی حنفی رحمہ اﷲ تعالیٰ روشن وضاحت فرماتے ہیں:. ''وإن کان الرجل فی مصر واھلہ فی مصر اخر فکتب الیھم ان یضحوا عنہ روی عن ابی یوسف انہ اعتبر مکان الذبیحۃ فقال: ینبغی لھم ان لا یضحوا عنہ حتی یصلی الامام الذی فیہ أھلہ وان ضحوا عنہ قبل ان یصلی لم یجزہ وھو قول محمد علیہ الرحمۃ وقال الحسن بن زیاد: انتظرت الصلاتین جمیعا وان شکوا فی وقت صلاۃ المصر الاٰخر انتظربہ الزوال فعندہ لایذبحون عنہ حتی یصلوا فی المصرین جمیعا وان وقع لھم الشک فی وقت صلاۃ المصر الاٰخر لم یذبحوا حتی تزول الشمس فاذا زالت ذبحوا عنہ، وجہ قول الحسن ان فیما قلنا اعتبار الحالین حال الذبح وحال المذبوح عنہ فکان اولی ولابی یوسف و محمد رحمہما اﷲ تعالیٰ ان القربۃ فی الذبح، والقربات الموقتۃ یعتبر وقتھا فی حق فاعلیھا لا فی حق المفعول عنہ۔'' [بدائع الصنائع٥/١١١ کتاب التضحیۃ مرکز اہلسنت برکات رضا]۔
ان شواہد مسطورہ سے یہ روشنی ملتی ہے کہ قربانی کا سبب وجوب بلاشبہ وقت ہے مگر کسی شخص نے دوسرے کو وکیل کردیا تو مذبوح کے مکان کا اعتبار ہوگا نہ کہ مذبوح عنہ خواہ دونوں الگ الگ شہرمیں ہوں یا موکل شہر میں ہو اور وکیل ایسے دیہات میں ہو جہاں سے موکل کے شہر تک مسافت سفر ہے وجہ در اصل یہ ہے کہ قربانی قربت فی الذبح ہے اور قربات موقتہ میں ان کا وقت ان کے فاعل کے حق میں معتبر ہوتا ہے نہ کہ مفعول عنہ (موکل) اب اگر غور کیا جائے تو یہاں دو چیزیں ہیں ایک قربانی کا سبب وجوب دوسرے وقت صحت ادا جیسا کہ امام ابن ہمام صاحب فتح القدیر تاج الشریعہ کے کلام کے تصویب فرماتے ہوئے رقم طراز ہیں:۔ ''اقول لاخطأ فی کلام تاج الشریعۃ اصلا، فان مرادہ بقولہ: واول وقتھا اول وقت ادائہا لا اول وقت وجوبھا، ولا یشک أنہ اذا کان تقدیم الصلاۃ علیہ شرطا فی حق اہل الاٰمصار کان اول وقت أدائھا فی حقھم بعد الصلاۃ، وان کان اول وقت وجوبھا بعد طلوع الفجر من یوم النحر ویویدہ جد اعبارۃ الامام قاضی خان فی فتا واہ حیث قال: ووقت الاداء لمن کان فی المصر بعد فراغ الامام عن صلاۃ العید انتھی قولہ'' [فتح القدیر ٩/٥٢٦ کتاب الاضحیۃ مرکز اہلسنّت برکات رضا پوربندر]۔
اب جبکہ سبب وجوب اور وقت ادا کا حال واضح ہو چکا تو صاحب مصر اور دیہی کے درمیان وقت ادا کے اختلاف کے ساتھ نفس وجوب کا اختلاف نہ صرف ممکن بلکہ واقع ہے بلکہ دو شہروں کے درمیان نفس وجوب کا اختلاف ہوتا ہے مجدد اعظم سیدنا اعلیٰ حضرت امام احمدرضا قدس سرہ، مطالع شمس کے اختلاف کے سبب اختلاف اوقات کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:۔ ''(مطالع شمس) ایک ہی فرسخ یعنی تین میل پر مختلف ہوجاتے ہیں'' کما نص علیہ علماء الھیئۃ قلت بل الحق انھا تختلف فی میل واحد بل اقل من ذلک، غیر ان التفاوت لقلتہ جدالایستبین لنا الا فی نحو فرسخ''جیسا کہ علماء ہیئت نے اس کی تصریح کی ہے میں کہتا ہوں بلکہ حق یہ ہے کہ وہ ایک میل بلکہ اس سے کم میں مختلف ہوجاتے ہیں لیکن وہ اختلاف اتنا قلیل ہوتا ہے کہ ہمیں صرف فرسخ کی مسافت تک معلوم ہو سکتا ہے۔ حاصل یہ کہ صاحب مصر ساکن دہ یا صاحب مصر کو اپنی قربانی کا وکیل بنانا فقہاۓ ا کرام کی ارشادات کی روشنی میں صحیح ہے اور یہاں قربانی کے اوقات کے اختلاف کی راہ ہے تو اب یہاں پر درج ذیل سوالات تنقیح طلب ہیں امید کہ اپنی ژرف نگاہی سے اس قضیہ کا روشن حل پیش فرمائیں گے ۔
ســــــــوالات
۱۔ کیا قربانی میںموکل اور وکیل دونوں کے یہاں سبب و جوب کا تحقق درکار ہے؟ مطالع شمس یا رویت ہلال کے اختلاف کے سبب وکیل کے یہاں سبب وجوب پایا گیا نہ کہ موکل تو کیاوکیل کی قربانی صحیح و درست ہے؟
۲۔ اگر وکیل و موکل دونوں کے یہاں سبب و جوب کا تحقق ضروری ہو تو اگرچہ مصرو دیہات میںقربانی کا وقت طلوع فجر کے بعد ہی سے شروع ہوتا ہے مگر مصروقریہ بلکہ دو شہروں کا وقت طلوع مختلف ہوتا ہے فقہائے کرام کے اس ارشاد کا کیا معنیٰ ہے کہ ساکن دہ نے پوپھٹتے ہی صاحب مصر کی قربانی کردی تو صحیح و درست ہے؟
۳۔ اگر وکیل و موکل دونوں کے یہاں سبب کا تحقق مراد ہے تو کیا بدائع کے مذکورہ جزئیہ کے خلاف کوئی دوسری فقہی تصریح ملتی ہے؟ وضاحت فرمائیں۔
نـــــوٹ : سوال نامہ میں مذکورہ جزئیات کی طرف صرف اشارہ کافی ہے مزید جزئیات کا افادہ فرمائیں۔
مفتی محمدناظم علی قادری بارہ بنکوی رکن شرعی کونسل آف انڈیا بریلی شریف
جوابات/فیصلے
جواب نمبر ۱
ٹیسٹ ٹیوب کے متعلق طے شدہ امور:۔

۱۔ حصول اولاد کے لئے ٹیسٹ ٹیوب کے استعمال کے جواز و عدم جواز پر بھرپور بحث و تمحیص کے بعد یہ طے ہوا کہ ٹیسٹ ٹیوب کے استعمال کی ایک صورت کے سوا تمام صورتیں باتفاق رائے ناجائز ہیں۔ جس ایک صورت کے جواز میں اجلاس میں اختلاف کیا گیا وہ صورت یہ ہے کہ مرد کا نطفہ عزل کے ذریعہ ٹیوب میں محفوظ کیا جائے اور اسے رحم زوجہ میں براہ فرج یا بواسطئ انجکشن خود زوجہ کا شوہر داخل کرے اس کے عدم جواز پر بھی کثرت رائے ہے صرف مولانا معراج القادری و مولانا آل مصطفی و مولانا رحمت اﷲ و مولانا اختر حسین علیمی و مولانا احتشام الدین صاحبان جواز کے قائل ہیں ، لیکن یہ صورت بہت ہی نادرہے اور اس کی وجہ سے ناجائز صورتوں کا فتح باب مظنون بہ ظن غالب ہے نیز ٹیسٹ ٹیوب کا عمل غیر ماہر کے ذریعہ سے ہونے میں ہلاک زوجہ کا احتمال قوی ہے اس لئے باقی تمام مندوبین نے اس صورت کو بھی ناجائز قرار دیا اور جو حضرات جواز کے قائل تھے انہوں نے بھی بوقت تحریر فیصلہ اس صورت کو ممنوع قرار دیا ہے ۔ واﷲ تعالیٰ اعلم
۲۔ بالفرض اگر ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعہ بچہ پیدا ہوا تو وہ شوہر سے ثابت النسب ہے ۔ فان النسب أمر مہتم بہ حتی لا ینتفی بنفی الزوج إلا بعد اللعان بینھما۔ واﷲ تعالیٰ اعلم
۳۔ اگر کسی عورت نے غیر شوہر کی منی رحم میں داخل کرلی تو وہ زانیہ نہ کہلائے گی۔ فان الزنا موقوف علی ادخال الحشفۃ فی الفرج وہو ھھنا معدوم، پیدا شدہ بچہ ثابت النسب ہوگا اور بے لعان زوجین نسب منتفی نہ ہوگا۔ واﷲ تعالیٰ اعلم
چوتھافقہی سیمینار ،شرعی کونسل آف انڈیا،بریلی شریف
بمقام: مرکزالدراسات الاسلامیہ جامعة الرضا بریلی شریف یوپی انڈیا مورخہ ١٢/١٣/رجب المرجب ١٤٢٨ھ مطابق ٢٨/٢٩/جولائی ٢٠٠٧ء
جواب نمبر ۲
دربارہئ رشوت برائے ایڈ منظوری مدارس:۔

مدارس کی ایڈ کی منظوری کی صورت اب تک صرف یہی ہے کہ گورنمنٹ مدرسین کی تنخواہوں کی ذمہ داری قبول کرلے۔
۱۔ وہ مدارس جو شرائط منظوری کے حقیقۃ جامع ہیں اور ان کی منظوری کے لئے کوئی غیرشرعی شرط نہ ہومگر ان کے نام و درخواست تنخواہ مدرسین و ملازمین کو بے رشوت لئے منظوری دینے والے ادارے میں پیش کرنے کو راضی نہیں۔ اگر ظن غالب ملحق بالیقین ہو کہ اس طرح منظوری مل جائے گی تو اس کے لئے کچھ دینا، دینی مدارس کی حاجت کی بناء پر جائز ہے ، خصوصا جبکہ عوام ہی سے حاصل شدہ مال سے وہ امداد بصورت تنخواہ دی جاتی ہو ۔ واﷲ تعالیٰ اعلم
۲۔ جن مدرسین کی صحیح تقرری ہو چکی ہو اور آفیسر وغیرہ بے رشوت اجرائے تنخواہ پر راضی نہ ہوں تو ان مدرسین کی طرف سے یہ ادائےگی جائز ہے ۔ واﷲ تعالیٰ اعلم
۳۔ وہ مدارس جو سرے سے موجود ہی نہ ہوں یا شرائط منظوری کے حامل نہ ہوں یا شرائط منظوری متحقق ہو مگر کسی محظور شرعی کی شرط ہو، ان کی منظوری کے لئے جو رقم دی جائے رشوت و حرام ہے۔ واﷲ تعالیٰ اعلم
۴۔ منصب تدریس یا ملازمت حاصل کر نے کے لئے کچھ دینا رشوت و حرام ہے۔ واﷲ تعالیٰ اعلم
۵۔ جو اب نمبر ایک ، دو میں رشوت نہیں ہے اور جواب نمبر تین و چار کی صورت میں لینے والے ودینے والے دونوں کے حق میں رشوت ہے۔ واﷲ تعالیٰ اعلم
چوتھافقہی سیمینار ،شرعی کونسل آف انڈیا،بریلی شریف
بمقام: مرکزالدراسات الاسلامیہ جامعة الرضا بریلی شریف یوپی انڈیا مورخہ ١٢/١٣/رجب المرجب ١٤٢٨ھ مطابق ٢٨/٢٩/جولائی ٢٠٠٧ء
جواب نمبر ۳
دربارہئ قربانی:۔

قربانی کا سبب وجوب ایام النحر ہیں اور وقت اداء شہری کے حق میں بعد صلوۃ الاضحی ہے۔ قروی کے لئے بعد طلوع فجر یوم النحر۔
موکل کے یہاں یوم النحر کی صبح صادق نہ ہوئی اور وکیل اضحیہ کے یہاں صبح ہوگئی تو کیا وکیل کے قربانی کرنے سے واجب اداء ہوجائے گا۔
بھر پور بحث کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ موکل کی طرف سے قربانی صحیح ہوگی۔ لإطلاق نصوص الفقہاء بأن المعتبر مکان الذبح لامکان المالک۔ ولصیانۃ امور المسلمین۔ مگر احتیاط یہی ہے کہ وکیل اس وقت قربانی کرے کہ موکل کے یہاں بھی فجر یوم النحر طلوع ہو چکی ہو۔
صرف مفتی عزیر عالم صاحب نے یہ اختلاف کیا کہ ''موکل کے یہاں نفس وجوب وقت پایا جانا ضروری ہے۔ اگر وکیل کے یہاں وقت پایا گیا اور موکل کے یہاں نہیں تو موکل کی طرف سے قربانی درست نہ ہوگی ہاں شہادت کی بناء پر قربانی ہوگئی پھر معلوم ہوا کہ شہادت غلط تھی تو صحت نماز وقربانی کا حکم دیا جائے گا۔ واﷲ تعالیٰ اعلم
چوتھافقہی سیمینار ،شرعی کونسل آف انڈیا،بریلی شریف
بمقام: مرکزالدراسات الاسلامیہ جامعة الرضا بریلی شریف یوپی انڈیا مورخہ ١٢/١٣/رجب المرجب ١٤٢٨ھ مطابق ٢٨/٢٩/جولائی ٢٠٠٧ء
|  HOME  |