۲۔ ڈاکٹروں کے کہنے کے مطابق آپریشن سے جو جنسی تبدیلی ہوتی ہے وہ شرعا تبدیل جنس نہیں۔اس سائنسی عمل سے پہلے انسان جس جنس میں شمار ہوتا تھا اس سائنسی عمل کے بعد بھی اسی جنس میں شمار ہوگا۔واللہ تعالیٰ اعلم۔
(۳۔ مذکورہ بالا فرضی تبدیلیئ جنس کے بعد بھی اس کے دینی و دنیاوی احکام ومعاملات وہی ہوںگے جو پہلے تھے،البتہ ایسے افراد سے معاشرے میں فتنوں کا اندیشئہ قوی ہے اس لئے سد باب فتنہ کے لئے ان پر شرعی پابندیاں عائد کی جائیں،اس قسم کے کسی مصنوعی وجعلی مرد کا کسی عورت یا مصنوعی وجعلی عورت کا کسی مرد سے نکاح ہرگز صحیح نہیں۔واللہ تعالی اعلم۔
(دستخط اراکین فیصل بورڈ)
۱۔ قاضی القضاۃ تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد اختر رضا قادری ازہری مدظلہ العالی
۲۔ محدث کبیر حضرت علامہ مفتی ضیاء المصطفیٰ قادری امجدی دام ظلہ العالی
۳۔ ماہر ہفت لسان حضرت علامہ مفتی محمد عاشق الرحمن حبیبی مدظلہ العالی
شرعی کونسل آف انڈیا بریلی شریف کے پانچویں منعقدہ فقہی سیمینار٢٢،٢٣/ رجب المرجب ١٤٢٩ھ/٢٦،٢٧/جولائی٢٠٠٨ئ بروز ہفتہ، اتوار
جواب نمبر ۲
حوالہ و دوملک کی کرنسیوں کے تبادلے کاشرعی حکم:۔
۱۔ ہر قسم کے کرنسی نوٹ خواہ ایک ملک کے ہوں یا مختلف ملک کے سبھی ثمن اصطلاحی اور مال متقوم ہیں کما ھو مصرح فی الفتاویٰ الرضویۃ مرارا کثیرۃ و علیہ العمل عند علماء العالم قاطبۃ۔
۲۔ ممالک مختلفہ کے کرنسی نوٹ اگرچہ مختلف ناموں سے موسوم ہوں نوع واحد ہیں کہ ان سب کی اصل کاغذ ہے اور اغراض و مقاصد بھی متحد ہیں یعنی قوت خرید، اگرچہ کرنسی نوٹ مالیت میں مختلف ہیں اور یہ اختلاف تقوم کی قلت و کثرت کا ہے نہ کہ نوع کا یہ ایک ملک کے مختلف المالیۃ کرنسی نوٹ کی طرح ہیں۔
۳۔ کرنسی نوٹوں کودوسرے نوٹوں سے خواہ ایک ملک کے ہوں یا چند ممالک کے (تعیین البدلین) کے ساتھ ان پر لکھی ہوئی قیمتوں سے کم و بیش پر بیع کرنا جائز ہے البتہ ثمنیت کی وجہ سے احد البد لین پر قبضہ ضروری ہے جیسا کہ فتاویٰ رضویہ کے رسالہ ''کفل الفقیہ الفاھم فی احکام قرطاس الدراھم''میں ہے:-
''وتحقیق ذالک ان بیع النوط بالدراھم کالفلوس بھالیس بصرف حتی یجب التقابض فان الصرف بیع ما خلق للثمنیۃ بما خلق لھا کما فسرہ بہ البحر والدروغیرھماو معلوم ان النوط والفلوس لیست کذالک وانما عرض لھا الثمنیۃ بالاصطلاح مادامت تروج والافعروض و بعدم کونہ صرفا صرح فی ردالمحتار عن البحر عن الذخیرۃ عن المشائخ فی باب الربا نعم لکونھا اثمانا بالرواج لا بد من قبض احدالجانبین والا حرم لنھیہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عن بیع الکالی بالکالی والمسألۃ منصوص علیھا فی مبسوط الامام محمد واعتمد ہ فی المحیط للامام السرخسی والحاوی والبزازیۃ والبحر والنھر وفتاویٰ الحا نوتی والتنویر والھندیۃ وغیرھا وھو مفاد کلام الا سبیجابی کما نقلہ الشامی عن الزین عنہ''فتاویٰ رضویہ ٧/١٤٧،رضا اکیڈمی ممبئی۔
فقیہ اعظم حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ والرضوان بہار شریعت میں فرماتے ہیں:-
''نوٹ کو نوٹ کے بدلے میں بیچنا بھی جائز ہے اور اگر دونوں معین کر لیں تو ایک نوٹ کے بدلے میں دونوٹ بھی خرید سکتے ہیں جس طرح ایک پیسے سے معین دو پیسوں کو خرید سکتے ہیں روپوں سے اس کو خریدا یا بیچا جائے تو جدا ہونے سے پہلے ایک پر قبضہ ہونا ضروری ہے جو رقم اس پر لکھی ہوتی ہے اس سے کم و بیش پر بھی نوٹ کا بیچنا جائز ہے دس کا نوٹ پانچ میں بارہ میں بیع کرنا درست ہے جس طرح ایک روپے سے ٦٤پیسے کی جگہ سو پیسے یا پچاس پیسے بیچے جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں'' بہار شریعت ١١/٢٠٧ بیع صرف کا بیان فاروقیہ بکڈپو۔
۴۔ ایک ملک کے کرنسی نوٹوں کو حوالہ کمپنی کے ذریعہ اجرت پر دوسرے ملک تک اس طرح بھیجنا کہ اس دوسرے ملک کے کرنسی نوٹ ادا کئے جائیں یہ منی آرڈر کی طرح تصحیحا للعقد جائز ہے فتاویٰ رضویہ میں حاجت تصحیح عقد کے متعلق ہے۔
یشیر الی الجواب بان الحاجۃ الی تصحیح العقد تکفی قرینۃ علی ذالک ولا یلزم کون ذالک ناشأا عن نفس ذات العقد کمن باع درھماودینارین بدرھمین و دینار یحمل علی الجواز صرفا للجنس الی خلاف الجنس مع أن نفس ذات العقد لا تابی مقابلۃ الجنس بالجنس واحتمال الربا کتحققہ فما الحامل علیہ الا حاجۃ التصحیح وکم لہ من نظیر''حاشیہ فتاویٰ رضویہ ٧/١٦٠ رضا اکیڈمی ممبئی۔
ہدایہ میں ہے :-
ولنا أن المقابلۃ المطلقۃ تحتمل مقابلۃ الفرد بالفرد کما فی مقابلۃ الجنس بالجنس وانہ طریق متعین لتصحیحہ فتحمل علیہ تصحیحا لتصرفہ وفیہ تغییر وصفہ لا اصلہ لانہ یبقی موجبہ الاصلی وھو ثبوت الملک فی الکل بمقابلۃ الکل وصار ھذا کما اذا باع نصف عبد مشترک بینہ و بین غیرہ ینصرف الی نصیبہ تصحیحا لتصرفہ بخلاف ما عد من المسائل۔(ہدایہ اٰخیرین ص ١٠٧ کتاب الصرف)۔
اس کے تحت فتح القدیر میں امام ابن ہمام فرماتے ہیں :-
''ولکن الاصحاب اقتحموہ بناء علی أصل اجماعی وھو أن مھما أمکن تصحیح تصرف المسلم العاقل یرتکب ولہ نظائر کثیرہ''(فتح القدیر ٦/٢٦٩ کتاب الصرف بیروت)
(٥) حوالہ کمپنی کے ذریعہ کسی ملک کی کرنسی دوسرے ملک میں اجارہ پر اس طرح بھیجنا کہ اس دوسرے ملک کی کرنسی ادا کی جائے منی آرڈر کی طرح اجارہ ہے جو قرض پر مشتمل ہے۔
۶۔ حکومتوں کے رجسٹرڈ بینک اور صرافہ کے حکومت سے مجاز دفاتر ایک ملک کی کرنسی دوسرے ملک کی کرنسیوں کی شکل میں کسی ملک یا شہر سے دوسرے ملک یا شہر تک اجرت و کمیشن پر پہنچاتے ہیں یہ صورت بھی منی آرڈر کی طرح جائز ہے لان قراطیس النوط مختلفۃ المالیۃ نوع واحد۔یہاں یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ بینک کا ڈرافٹ صرف ایک رسید ہے نہ کہ ثمن یا مبیع اسی لئے ضائع ہونے کی صورت میں دوسرا ڈرافٹ بینک ادا کرنے پر مجبور ہے۔
۷۔ حکومت کی طرف سے غیر منظور شدہ بعض اشخاص اجرت پر کرنسیاں ما بین الممالک منتقل کرتے ہیں ایسے دفاتر و اشخاص بعض اوقات قانونی گرفت میں آ جاتے ہیں اور ان کو دی گئی رقمیں یا تو قُرق ہو جاتی ہیں یا جرمانہ و رشوت میں خرچ ہو جاتی ہیں اور مرسل الیہ یا محال لہ کو نہیں پہنچتی ہیں۔ایسے لوگوں سے اجارہ کے کاروبار میں ضیاع مال و ذلت نفس کا اندیشئہ قوی ہے ایسے لوگوں سے مراسلت رقوم کا اجارہ نہ کیا جائے ۔
سیدنا اعلیٰحضرت امام احمد رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :-
الثانیۃ ان من الصور المباحۃ ما یکون جرماً فی القانون ففی اقتحامہ تعریض النفس للاذی والاذلال وھولایجوز فیجب التحرز عن مثلہ وما عدا ذلک مباح سائغ لا حجر فیہ۔(فتاویٰ رضویہ ٧/١١٥)۔
۸۔ بعض صرافے صرف یہ بتاتے ہیں کہ فلاں کرنسی نوٹ کی ہندوستانی کرنسی ہندوستان میں اتنی دی جائے گی وہ مقدار اجرت ظاہر نہیں کرتے حالانکہ عاقدین میں سے ہر ایک کو یہ معلوم ہے کہ قابل ادا کرنسی اجرت وضع کرکے طے ہو رہی ہے اس صورت مسئلہ میں مرسل پر اجرت کی جہالت مفضی الی النزاع نہ ہونے کی وجہ سے یہ عقداجارہ جائز ہے فاسد نہیں واللہ تعالیٰ اعلم۔
(دستخط اراکین فیصل بورڈ)
۱۔ قاضی القضاۃ تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد اختر رضا قادری ازہری مدظلہ العالی
۲۔ محدث کبیر حضرت علامہ مفتی ضیاء المصطفیٰ قادری امجدی دام ظلہ العالی
۳۔ ماہر ہفت لسان حضرت علامہ مفتی محمد عاشق الرحمن حبیبی مدظلہ العالی
فقہی سیمینار مورخہ٢٢، ٢٣/ رجب المرجب ١٤٢٩ھ/٢٦،٢٧/جولائی٢٠٠٨ء بروز ہفتہ، اتوار کی دوسری اور تیسری نشستوں میں کرنسی نوٹوں اور ان کے حوالہ کاروبار سے متعلق بحثوں کا اختتام درج ذیل فیصلوں پر ہوا۔
جواب نمبر ۳
منی و مزدلفہ کی تحدید و توسیع کاشرعی حکم:۔
۱۔ الف:- منی و مزدلفہ و عرفات کے حدود حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے عہد مبارک سے جس طور پر متعین ہیں ادائے مناسک کے لئے انہیں حدود کا اعتبار ہے جو مناسک سنت ہیں وہ سنت اور جو فرض یا واجب ہیں وہ فرض یا واجب۔
ب:- ملک العلماء کاسانی علیہ الرحمہ نے بدائع میں وادیئ محسر کو موقف مزدلفہ میں داخل قرار دیا ہے اور وادئی
محسر میں وقوف کو جائز مع الکراہۃ فرمایا ہے ۔
جیسا کہ بدائع میں ہے:-
فیکرہ النزول فیہ ولووقف بہ اجزأہ مع الکراھۃ والافضل ان یکون وقوفہ خلف الامام علی الجبل الذی یقف علیہ الامام وھوالجبل الذی یقال لہ ''قزح'' لانہ روی ان رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وقف علیہ وقال ''خذواعنی منا سککم''ولانہ یکون اقرب الی الامام فیکون افضل۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔(بدائع ج ٣ ص ٨٩/٨٨)۔
لیکن امام ابن ہمام و علامہ شامی نے وادیئ محسر کو حدود مزدلفہ و منی دونوں سے خارج قرار دیاہے۔
جیسا کہ فتح القدیر میں ہے :-
ولیس وادی محسر من منی و لامن المزدلفۃ،فالاستثناء فی قولہ ''ومزدلفۃ کلھا موقف الاوادی محسر''منقطع،واعلم ان ظاھر کلام القدوری والھدایۃ وغیرھما فی قولھم''مزدلفۃ کلھا موقف،الاوادی محسر،وکذاعرفۃ کلھا موقف الابطن عرنۃ ان المکانین لیسا مکان وقوف،فلووقف فیھما لا یجزیہ کما لو وقف فی منیٰ سواء قلنا ان عرنۃ و محسرا من عرفۃ ومزدلفۃ اولا،وھکذا ظاھر الحدیث الذی قدمنا تخریجہ وکذا عبارۃ الاصل من کلام محمد،ووقع فی البدائع! واما مکانہ،یعنی الوقوف بمزدلفۃ فجزء من اجزاء مزدلفۃ،الاانہ لا ینبغی ان ینزل فی وادی محسر،ورویٰ الحدیث ثم قال: ولووقف بہ اجزاہ مع الکراھۃ،وذکرمثل ھذا فی بطن عرنۃ: اعنی قولہ الاانہ لا ینبغی ان یقف فی بطن عرنۃ لانہ علیہ السلام نھی عن ذالک واخبرأنہ وادی الشیطان الخ۔ولم یصرح فیہ بالاجزاء مع الکراھۃ کما صرح بہ فی وادی محسر ولا یخفی ان الکلام فیھما واحد،وما ذکرہ غیر مشھور من کلام الاصحاب،بل الذی یقتضیہ کلامھم عدم الاجزاء ،واما الذی یقتضیہ النظر ان لم یکن اجماع علی عدم اجزاء الوقوف بالمکانین وھوان عرنۃ ووادی محسر ان کان من مسمی عرفۃ والمشعر الحرام یجزی الوقوف بھما،ویکون مکروھا لان القاطع اطلق الوقوف بمسما ھما مطلقا،وخبرالواحد منعہ فی بعضہ فقیدہ،والزیادۃ علیہ بخبر الواحد لا تجوز فیثبت الرکن بالوقوف فی مسماھما مطلقا ،والوجوب فی کونہ فی غیر المکانین المستثنین وان لم یکونا من مسما ھما لا یجزی اصلا وھو ظاہر والاستثناء منقطع۔
(فتح القدیر ج ٢/٤٩٥۔٤٩٦،برکات رضا)۔
اورشامی میں ہے :-
(قولہ الاوادی محسر) بضم المیم وفتح الحاء المھملۃ وکسرالسین المھملۃ المشددۃ وبالراء ، والاستثناء منقطع لانہ لیس من منی،کما اشارالیہ الشارح۔
(قولہ لیس من منیٰ) صوابہ لیس من مزدلفۃ لانھا محل الوقوف،(قولہ أو ببطن عرنۃ) ای الذی قرب عرفات، کما مر۔
(قولہ لم یجز) ای لم یصح الاول عن وقوف مزدلفۃ الواجب ولا الثانی عن وقوف عرفات الرکن۔
(قولہ علی المشھور) ای خلافا لما فی البدائع من جوازہ فیھما،فتح۔
(ردالمحتار٢/١٩١مطبع فیض القراٰن)
اور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے اسی قول آخر پر حکم صادر فرمایا ،جیسا کہ ''فتاویٰ رضویہ میں ہے :-
جب وادی محسر١پہونچے ٥٤٥ہاتھ بہت جلد تیزی کے ساتھ چل کر نکل جاؤ مگر نہ وہ تیزی کہ جس سے کسی کو ایذا ہو۔
اس کے تحت حاشیہ منہیہ میں ہے ۔
یہ منیٰ ،مزدلفہ کے بیچ میں ایک نالہ ہے دونوں کی حدود سے خارج ،مزدلفہ سے منیٰ کو جاتے بائیں ہاتھ کو جو پہاڑ پڑتا ہے اس کی چوٹی سے شروع ہو کر ٥٤٥ہاتھ تک ہے۔ یہاں اصحا ب الفیل آکر ٹھہرے تھے اور ان پر عذاب ابابیل اترا تھا اس سے جلد گزرنا اور عذاب الٰہی سے پناہ مانگنا چاہیئے۔(فتاویٰ رضویہ ٤/٧١٠،رسالہ انوار البشارہ مطبع رضا اکیڈمی ) ۔
سیمینار کے مندوبین بھی اسی پر متفق ہیں۔عذر نا گزیر کی صورت میں قول بدائع پر عمل کر سکتا ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
۲۔ جن حجاج کے خیمے حدود منی سے باہر ہیں وہ لوگ حدود منی میں اپنی نمازیں گزارنے اور ذکر کے لئے کچھ وقت صرف کرنے پر قادر ہوں تو ایسا ضرور کریں تاکہ بالکلیہ سنت فوت نہ ہو واللہ تعالیٰ اعلم۔
۳۔ اگر وقوف مزدلفہ خاص انہیں حدود میں کیا جو عہد رسالت میں مزدلفہ تھا تو واجب ادا ہو گیا یہ وقوف طلوع فجر سے طلوع شمس تک اس طرح واجب ہے کہ کسی عذر کی بنا پر ترک ہو جائے تو دم واجب نہ ہوگا۔اعذار کی تفصیل انور البشارہ و بہار شریعت سے معلوم کی جائیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
۴۔ دسویں ذی الحجہ کی رمی جمرہ عقبہ اور گیارہویں بارہویں کی رمی جمرات ثلثہ واجبات حج سے ہے ۔منی کا قیام لیل و نہار ان کی شرط وجوب نہیں ۔البتہ اگر تیرہویں کی شب کے کل یا جز میں منی میں اتنا قیام کیا کہ صبح صادق ہو گئی تو اس دن کی رمی واجب ہے ۔ترک کرے گا تو دم واجب ہوگا۔
تیرہویں کی رمی کا وقت صبح صادق سے غروب آفتاب تک ہے مگر زوال شمس سے قبل مکروہ ہے واللہ تعالیٰ اعلم۔
شرعی کونسل آف انڈیا بریلی شریف کے پانچویں منعقدہ فقہی سیمینار٢٢،٢٣/ رجب المرجب ١٤٢٩ھ/٢٦،٢٧/جولائی٢٠٠٨ء بروز ہفتہ، اتوار