شرعی کونسل آف انڈیا کا چھٹافقہی سیمینار

مورخہ/٢٣/٢٤/٢٥/رجب المرجب ١٤٣٠ھ مطابق ١٧/١٨/١٩/جولائی ٢٠٠٩ء
سوال نا مہ
سوال نمبر ۱
جدید طریقہائے بیع کی شرعی حیثیت:۔
ارباب تجارت، خرید و فروخت کو فروغ دینے کے لیے روزمرہ جدید طریقے تجارت ایجاد کرتے رہتے ہیں۔ صنعتوںاور سامانوںوغیرہ کی خرید و فروخت میںایک نیا طریقے تجارت یہ ایجاد ہوا ہے کہ مبیع موجود و مملوک و مقبوض ہونے سے پہلے ایک شخص دوسرے تاجر سے مبیع (غیر موجود و غیر مملوک و غیر مقبوض) کا ثمن لے کر بیع کر دیتاہے۔ اور دوسرا تاجر مبیع پرملک و قبضہ اوراس کے وجود سے پہلے ایک اورشخص سے مذکورہ اوصاف کے مبیع کا ثمن لے کر بیع کر دیتا ہے ۔ اسی طرح یہ تیسراشخص چوتھے اور چوتھاشخص پانچویںسے بیع کرتاہے اور مبیع کا ابھی وجود نہیں ہوتا ہے اور نہ وہ ملک اور قبضہ میں ہے۔ صرف بدل مبیع یعنی ثمن موجود ہے مثلاً ایک شخص نے دوسرے کے ہاتھ اس دوسرے سے ثمن لے کر ایک ایسی ساڑھی کی بیع کی جو ابھی تیارنہیں ہوئی اور وجود میںنہ آئی بس اتنامقرر ہواکہ اس وصف کی ساڑھی میں تیار کر ا کے دے دوں گا۔ اس دوسرے نے اپنے بائع کو مبیع غیرموجود کا ثمن دے کر اپنے مبیع معدوم کی بیع کسی اور سے اس وصف کے مبیع کاثمن لے کر بیع کیا ایسے تیسرے اور چوتھے اور پانچویں وغیرہ کے ہاتھ ثمن لے کر مبیع معدوم کی بیع ہوا کرتی ہے۔ اور یہ طریقئہ تجارت اور کاروبار صرف کفار و مشرکین ہی نہیں کرتے بلکہ مسلمان بھی اس طریقئہ تجارت کو اختیارکرتے ہیں۔ جیسا کہ روزمرہ کا مشاہدہ اس پر شاہد ہے ۔ مگر مبیع معدوم ہونے کے باوجود اس کے تمام اوصاف مثلاً ڈیزائن و کلر وغیرہ ساری چیزوں کی وضاحت ہوتی ہے۔ گویا کہ مبیع صرف وجود میںنہیں ہے مگر اس کے تمام اوصاف مذکور و موجود ہوتے ہیں۔ اور کسی طرح کی جہالت نہیں رہتی اور یہ کاروبار تاجروں کے درمیان کافی عام اور رائج ہے کہ کارخانوں، فیکٹریوں کا کاروبار زیادہ تر بلکہ مکمل اسی طریقئہ تجارت پر گردش کرتا رہتا ہے اور ان کی طرف سے مال تجارت مبیع کے معدوم ہونے کا کوئی ضرر نہیں ہوتا۔

ہمارے فقہائے کرام رحمہم المتعال یہ فرماتے ہیں کہ مبیع کاموجود اور مال متقوم اور مملوک فی نفسہ وغیرہ ہوناشرط ہے کہ معدوم کی بیع صحیح نہیں۔ جیساکہ ردالمحتار میں ہے: " و شرط المعقودعلیہ ستۃ کونہ موجودا، مالا متقوما ، مملوکا فی نفسہ وکون الملک للبائع فیما یبیعہ لنفسہ فلم ینعقد بیع المعدوم و لا بیع ما لیس مملوکا لہ"۔ (ردالمحتار، ٧/١٥)۔

ہدایہ باب السلم میں ہے :۔ " روی أنہ علیہ الصلوۃ و السلام نھی عن بیع ما لیس عند الانسان" محقق الاطلاق امام ابن الہمام فتح القدیرمیںاس کے تحت فرماتے ہیں : ۔" رواہ أصحاب السنن الأربع عن عمرو بن شعیب، عن أبیہ، عن جدہ، عنہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ و لا تبع ما لیس عندک، قال الترمذی حسن صحیح اھــــ " (فتح القدیر٢/ ٢٠٥ اول باب السلم)۔

ان سب کے باوجود بیع سلم اور استصناع میںبیع المعدوم اور بیع ما لیس عند الانسان ہے اور سلم برخلاف قیاس نص کے سبب مشروع بشرائط ہے اوراستصناع بھی استحساناً تعامل اور حاجت ناس کے سبب خلاف قیاس جائز ہے جیسا کہ ملک العلماء علامہ کاسانی علیہ الرحمہ بدائع الصنائع میں فرماتے ہیں:۔ " فالقیاس یأبی جواز الاستصناع لانہ بیع المعدوم کالسلم بل ھو أبعد جوازا من السلم وفی الاستحسان جاز لان الناس تعاملوہ فی سائر الأعصار من غیر نکیر فکان إجماعا منھم علی الجواز فیترک القیاس " (بدائع الصنائع ٤/٤٤٤)۔

ہدایہ میںہے :۔ " و إن استصنع شیأا من ذلک بغیر أجل جاز استحسانا بلإجماع الثابت بالتعامل و فی القیاس لا یجوز لأنہ بیع المعدوم و الصحیح أنہ یجوز بیعا لا عدۃ والمعدوم قد یعتبر موجودا حکما" (ہدایہ مع الکفایۃ، کتاب البیوع ٣/١١٢)۔

کفایہ شرح ہدایہ میں ہے:۔ " وجہ الاستحسان عن النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم استصنع خاتما و منبرا و لأن المسلمین تعاملوہ" (کفایہ ٣/١١٣)۔

ان شواہد سے صاف ظاہر و عیاں ہے کہ اگرچہ بیع میں مبیع کا موجود ہونا شرط ہے مگر استصناع استحساناً تعامل ناس اور حاجت کے سبب خلاف قیاس جائز و مشروع ہے البتہ جن چیزوں میںتعامل اور حاجت مسلمین متحقق نہیں ان میں استصناع ناجائز ہے جیسا کہ ملک العلماء علامہ کاسانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: " منھا أن یکون ما للناس فیہ تعامل کالقلنسوۃ والخف و الآنیۃ و نحوہا فلا یجوز فی ما لا تعامل لھم فیہ" (بدائع الصنائع ٤/٤٤٤)۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے :۔ " و الاستصناع فی کلما جری التعامل فیہ، ثم انما جاز الاستصناع فیما للناس فیہ التعامل إذا بین وصفا علی وجہ یحصل التعریف اھــ" (٣/٢٠٧)

الاشباہ و النظائر میں ہے:۔ " و من ذلک جواز السلم علی خلاف القیاس لکونہ بیع المعدوم دفعا لحاجۃ المفالیس، و منھاجوازالاستصناع للحاجۃ " (الاشباہ و النظائر١/ ٢٦٧)۔

فقیہہ الاسلام ، مجدد اعظم امام احمد رضا قدس سرہ فرماتے ہیں:۔ " کسی سے کوئی چیز اس طرح بنوایا کہ وہ اپنے پاس سے اتنی قیمت کو بنا دے یہ صورت استصناع کہلاتی ہے کہ اگر چیز کے یوں بنوانے کا عرف جاری ہے اور اس کی قسم، وصف و حال و پیمانہ و قیمت وغیرھا کی ایسی صاف تصریح ہوئی کہ کوئی جہالت آئندہ منازعت کے قابل نہ رہے اور اس میں کوئی میعاد مہلت دینے کے لیے ذکر نہ کی گئی تو یہ عقد شرعاً جائز ہوتا ہے ۔اور اس میںبیع سلم کی شرطیں مثلاً روپیہ پیشگی اس جلسہ میںدینا یا اس کا بازار میں موجود رہنا یا مثلی ہونا کچھ ضرور نہیں ہوتا ، مگر جب اس میں میعاد ایک مہینہ یا زائد کی لگا دی جائے تو وہ عقد بعینہٖ بیع سلم ہو جاتا ہے اور اس وقت تمام شرائط بیع سلم کامتحقق ہونا ضرور ہوتا ہے اگر ایک بھی رہ گئی تو عقد فاسد ہوگیا۔" (فتاویٰ رضویہ، ٧/٢٤٤)۔

فقیہ اعظم حضرت صدر الشریعہ قدس سرہ فرماتے ہیں:۔ " کبھی ایساہوتا ہے کہ کاریگر کو فرمائش دے کر چیز بنوائی جاتی ہے اس کو استصناع کہتے ہیں اگر اس میں کوئی میعاد مذکور ہو اور وہ ایک ماہ سے کم کی نہ ہو تو وہ سلم ہے تمام وہ شرائط جو بیع سلم میں مذکور ہوئے ان کی مراعات کی جائے یہاں یہ نہ دیکھا جائے گاکہ اس کے بنوانے کا چلن اوررواج مسلمانوں میں ہے یا نہیں، اگر مدت ہی نہ ہو یا ایک ماہ سے کم کی مدت ہے تو استصناع ہے اوراس کے جواز کے لیے تعامل ضروری ہے"۔ (بہار شریعت، ج١٥،١٨٤)۔

فقیہ اسلام، مجدد اعظم، مفسر اکبر، محدث اجل سیدنا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا اورحضرت صدر الشریعہ قدس سرھما کی تصریحات سے یہ بھی ظاہر و باہر ہے کہ استصناع میں ایک مہینہ یا زائد کی میعاد مقرر کرنا اسے سلم کر دیتا ہے۔ یہی مذہب امام اعظم ماخوذ ومفتیٰ بہ و مقدم ہے ۔

ردالمختار میں ہے:۔ " أراد بالأجل ما تقدم و ھو شھر فما فوقہ، قال المصنف قیدنا الأجل بذلک لأنہ إذا کان أقل من شھر کان استصناعا إن جری فیہ تعامل و إن لا ففاسد اھــ" (ردالمحتار ٤٤٤/٧) إن ذکر علی وجہ الاستمہال و إن للاستعجال بأنہ قال علی أن تفرغ من غدا أو بعد غد کان صحیحا" (رد المحتار١/ ٤٤٤)۔

ان تصریحات و توضیحات سے یہ ظاہر ہے کہ مذکورہ طریقئہ تجارت جو مسلمانوں اور کافروں کے درمیان خوب عام و رائج ہے اس میںبائع اول تو صانع ہے اوراس کا مشتری صرف مستصنع ہے نہ کہ صانع تو یہاں پر استصناع ہونا چاہیے اگر اس کی شرط متحقق ہو لیکن بائع اول کاخریدار اور اسی طرح باقی خریدار یہ صانع نہیں اور بائع اول کے خریدار کے علاوہ نہ حقیقۃ مستصنع ہیں پھر بھی معدوم کی بیع کر رہے ہیں علاوہ ازیںمذہب امام اعظم مقدم و ماخوذ و مفتی بہ پر استصناع اس وقت سلم ہوجایا کرتا ہے جب کہ ایک ماہ یا اس سے زائد کی مقدار مقرر ہو اور یہاں حال یہی ہے کہ فیکٹریاں اور کارخانے کے لوگ ایک ماہ سے زائد ہی مدت مقررکرتے ہیں مثلاً ایک ہزار ساڑھی چارماہ یااس سے زائد میں تیار کر کے بائع اول اپنے خریدار کو سپرد کرے گا اسی طرح دیگر سامانوں میں ایک ماہ سے زائد کی مدت و میعاد مقررہوتی ہے ۔ تومذہب امام اعظم مقدم و ماخوذ ومفتی بہ پر تو یہ استصناع نہیں ہاں مذہب صاحبین پر استصناع ہے کہ وہ مدت کاذکر استعجال کے لیے قرار دیتے ہیں البتہ جن چیزوں میںتعامل نہیں ان میں مدت کاذکر بالاجماع سلم ہی ہے استصناع نہیں جیسا کہ بدائع الصنائع میںہے: " ھذا إذا استصنع شیأا و لم یضرب لہ أجلا، فأما إذا ضرب لہ أجلا فانہ ینقلب سلما عند أبی حنیفۃ فلا یجوز إلا بشرائط السلم و لا خیار لواحد منھما کما فی السلم، و عندھما ھو علی حالۃ الاستصناع وذکرہ للتعجیل و لو ضرب الأجل فی ما لا تعامل فیہ ینقلب سلما بالإجماع وجہ قولھما أن ھذا استصناع حقیقۃ فلو صار سلما إنما یصیر بذکر المدۃ و إنہ قد یکون للاستعجال کما فی الاستصناع فلا یخرج عن کونہ استصناعا مع الاحتمال، و لأبی حنیفۃ، إن الأجل فی البیع من خصائص اللازمۃ للسلم فذکرہ یکون ذکرا للسلم معنی وان لم ےذکرہ صریحا۔(بدائع الصنائع،٥/٣١٣)۔

مگر جب مذہب امام اعظم مقدم وماخود و مفتیٰ بہ یہ ہے تواس سے عدول کے لیے اسباب ستہ میںسے کوئی سبب متحقق ہوناچاہیے اور اگر مذہب امام سے عدول نہ کر کے اسے سلم ہی قرار دیاجائے تو پھر کتب فقہ میںتحقق سلم کے لیے بہت سارے اوصاف و شرائط درکار ہیں ان شرائط و اوصاف کاتحقق اس عقد میں ہے یا نہیںیا یہ کہ یہ عقد نہ استصناع ہے نہ سلم بلکہ کچھ اور۔ ان سب پر تحقیق اور تفحص کے بعد اس عقد کاشرعی جائزہ لینے اور اس کی صحیح شرعی صورت متعین کرنے اور تحقیقی جواب ارقام کرنے کے لیے درج ذیل سوالات ارسال خدمت ہیں امید ہے کہ سوالات کے تمام گوشوں پر کامل غور فرما کر جواب بالصواب سے شاد کام فرمائیں گے اورشرعی کونسل کاعلمی و فقہی تعاون فرما کر امت مسلمہ کے لیے صحیح راہ متعین کرنے اور گناہ سے بچانے میں مدد فرمائیں گے۔ جزاکم اللہ تعالیٰ خیر الجزائ

سوالات:۔ ۱۔ ارباب تجارت کامروجہ جدید طریقئہ تجارت کون سا عقد شرعی ہے؟ بیع استصناع یا بیع سلم ،یا بیع مطلق یا اس کے علاوہ ؟
اگر سلم ہو تو کیااس کے شرائط معتبرہ متحقق و موجود ہیں اور اگر مذہب صاحبین پر استصناع ہو تو کیامذہب امام اعظم ماخوذ و مفتی بہ سے عدول کا سبب اور تعامل عوام و خواص و حاجت ناس یا کوئی اورسبب اسباب ستہ میںسے متحقق ہے وضاحت فرمائیں اور بائع اول کے خریداروں کا ایک دوسرے سے بیع معدوم کرناجائز ہے ؟
۲۔ اگرشرعاً ناجائز ہو تو اس کے جواز کی کوئی راہ ہے۔۔۔۔۔۔؟، جبکہ اس بیع کا رواج بہت عام ہو چکا ہے۔
۳۔ تعامل مطلقاً معتبر ہے یا بعلت حاجت (کفایہ جلد٣،ص١١٣ کی عبارت سے یہ متبادر ہے کہ استصناع کاجواز استحسان بالاثر اور تعامل مسلمین کی وجہ سے ہے اس کے برخلاف الاشباہ و النظائر جلد اول٢٦٧، کی عبارت میںفرمایا " منھا جواز الاستصناع للحاجۃ" اس لیے سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ استصناع کے لیے صرف تعامل کافی ہے یا تعامل اور حاجت دونوں شرط ہیں برتقدیر اول مدلل ارشاد فرمائیں اور بر تقدیر ثانی سلسلئہ بیع میں حاجت کس کے حق میںمتحقق ہے اور کس کے حق میں نہیں۔

مفتی محمود اختر قادری
رکن شرعی کونسل آف انڈیا بریلی شریف
سوال نمبر ۲
اموال زکوٰٰۃ و عشر اور عطیات میں خلط یا تصرف کا شرعی حکم:۔
زکوٰة اعظم فروض دین و اہم ارکان اسلام سے ہے شریعت میں صاحب نصاب پر زکوٰة کی ادائیگی لازم ہے، وہ خود مستحقین کو دے یا اس کا کوئی وکیل ،بہت سے اہل ثروت کسی شخص کو وکیل بنا دیتے ہیں کہ وہ مستحقین کو زکاة دیںیہ طریقہ ملک وبیرون ملک دونوں میں ہوتاہے دینی اداروں اوراسلامی دانش گاہوں کے سفراء مالکان نصاب اور اصحاب ثروت سے زکوٰة و صدقات و عطیات کی رقمیں وصول کرتے ہیں، درحقیقت یہ مالکان نصاب اور ارباب ثروت کے وکیل ہوتے ہیں، اگرچہ یہ اداروں کے اجیر خاص یا اجیر مشترک ہوا کرتے ہیں، بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ خود مستحقین زکوٰة کسی کو تحصیل زکوٰة کا محض وکیل بنا دیتے ہیں، بہرحال اصحاب ثروت و مالکان نصاب وکیل کے ہاتھ میں زکاة وغیرہ کی جو کچھ رقمیں دیتے ہیں وہ درحقیقت امانت ہے فقیہ اعظم حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:۔

''دوسرے شخص کو اپنے مال کی حفاظت پر مقرر کر دینے کو ایداع کہتے ہیں اور اس مال کو ودیعت کہتے ہیں جس کو عام طور پر امانت کہا جاتا ہے۔امانت اسے کہتے ہیں کہ جس میں تلف پرضمان نہیں ہوتا ہے جس کی چیز ہے اسے مودع کہتے ہیں اور جس کی حفاظت میں دی گئی اسے مودع کہتے ہیں''۔ (بہار شریعت ١٤/٣٠)۔
اس کے احکام و شرائط کے تحت فرماتے ہیں:۔

'' ودیعت کا حکم یہ ہے کہ وہ چیز مودع کے پاس امانت ہوتی ہے اس کی حفاظت مودع پر واجب ہوتی ہے اور مالک کے طلب کرنے پر دینا واجب ہوتا ہے''۔۔۔۔۔۔''ودیعت کو نہ دوسرے کے پاس امانت رکھ سکتا ہے نہ عاریت یا اجارہ پر دے سکتا ہے نہ اس کو رہن رکھ سکتا ہے ان میں سے کوئی کام کرے گا تا وان دینا ہوگا اس پر ضمان کی شرط کر دینا کہ یہ چیز ہلاک ہوگئی تو تاوان لوں گا یہ باطل ہے'' (بہار شریعت ١٤/٣٠)۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے :۔
''أما حکمھا فوجوب الحفظ علی المودع وصیر ورۃ المال امانۃ فی یدہ و وجوب أدائہ عند طلب مالکہ کذا فی الشمنی والودیعۃ لا تودع ولا تعار ولا تؤاجر ولا ترھن وان فعل شیأا منھا ضمن کذا فی البحرالرائق۔ ٤/٣٣٨
حاصل یہ کہ ارباب ثروت و مالکان نصاب سے زکوٰة وغیرہ کی تحصیل کرنےو الے وکیل اور مال زکوٰة کے محافظ وامین ہو ا کرتے ہیں انہیں امانت میں تصرف و تعدی اور اپنے مصالح و حاجات اور مصارف وضروریات میں خرچ کرنا شرعا ناجائز و حرام ہے اس خیانت کے سبب وہ خائن و غاصب اور مرتکب حرام قرار پائیں گے اللہ عزوجل کا ارشاد ہے۔

یایھا الذین اٰمنوا لا تخونوا اللہ والرسول و تخونوا أمٰنٰتکم وأنتم تعلمون۔ (پ ٩ ع ٧ آّیت ٢٧الانفال)۔ اے ایمان والو اللہ و رسول سے دغانہ کرو اور نہ اپنی امانتوں میں دانستہ خیانت کرو۔ (کنزالایمان)۔

نیز ارشاد ہے :۔ ان اللہ لا یحب الخائنین (پ ١٠ ع ٣ آیت ٥٨ الانفال)بے شک دغاوالے اللہ کو پسند نہیں۔ حدیث پاک میں امانت میں تعدی و خیانت کرنے والے کو منافق فرمایا گیا جیسا کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے:- اٰیۃ المنافق ثلٰث اذا حدث کذب،واذا وعد أخلف واذا اوتمن خان''(صحیح مسلم شریف ١ /٥٦)۔
منافق کی تین نشانیاں ہیں جب بات کرے جھوٹ بولے ،وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے،اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے :۔ اذا کان عند رجل و دیعۃ دراھم أودنا نیر أو شیأا من المکیل أوالموزون وأنفق شیأا منھا فی حاجۃ حتی صار ضا منا لما انفق'' ٤/٣٤٨۔
مجدد اعظم ،فقیہ اسلام سیدنا اعلیٰحضرت امام احمد رضا قدس سرہ فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں :۔ ''زرامانت میں اس کو تصرف حرام ہے ،یہ ان مواضع میں ہے جن میں در اہم و دنانیر متعین ہوتے ہیں اس کو جائز نہیں کہ اس روپے کے بدلے دوسرا روپیہ رکھ دے اگرچہ بعینہ ویسا ہی ہو اگر کرے گا امین نہ رہے گا اور تاوان دینا آئے گا۔ والمسألۃ منصوص علیھا فی الدرالمختار و کثیرمن الاسفار (فتاویٰ رضویہ ٨/٣١)۔

فقیہ اعظم حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ مال زکاة کے وکیل کے متعلق فرماتے ہیں:- ''زکاة دینے والے نے وکیل کو زکوٰة کا روپیہ دیا وکیل نے اسے رکھ لیا اور اپنا روپیہ زکوٰة میں دے دیا تو جائزہے اگر یہ نیت کی ہو کہ اس کے عوض موکل کا روپیہ لے لے گا اور اگر وکیل نے پہلے اس روپیہ کو خرچ کر ڈالا بعد کو اپنا روپیہ زکوٰة میں دیا تو زکوٰة ادا نہ ہوئی بلکہ یہ تبرع ہے اور موکل کو تاوان دے گا۔ (درمختار ردالمحتار ١/١٥بہار شریعت ٥/٢٠)۔

ردالمحتار مع درمختار میں یوں ہے :۔ ولو تصدق الخ أی الوکیل بد فع الزکوٰۃ اذا امسک دراہم الموکل و دفع من مالہ لیرجع ببدلھا فی دراھم موکل صح،بخلاف مااذا انفقھا اولا علی نفسہ مثلا،ثم دفع من مالہ فھو متبرع۔ (ردالمحتار ٣/١٧٦ کتاب الزکاۃ مطلب فی ثمن مبیع الوفائ)۔

اپنی حاجت میں خرچ کرنا تو کجا فقہائے کرام یہاں تک فرماتے ہیں کہ اگر کسی خاص شخص کو دینے کا وکیل کیا اسے نہ دے کر اپنے فقیر لڑکے یا فقیر بیوی کو دیا تو جائز نہیں جبکہ یہاں پر تملیک مستحق ہے بہار شریعت میں ہے:-''وکیل کو اختیار ہے کہ مال زکوٰة اپنے لڑکے یا بیوی کو دے دے جب کہ یہ فقیرہوں اور لڑکا اگر نابالغ ہے تو اسے دینے کے لئے جو اس کا وکیل ہے اس کا فقیر ہونا بھی ضروری ہے مگر اپنی اولاد یا بیوی کو اس وقت دے سکتا ہے جب موکل نے ان کے سوا کسی خاص شخص کو دینے کے لئے نہ کہہ دیا ہو ورنہ نہیں دے سکتا''۔ (ردالمحتار ٢/١٤و١٥ بہار شریعت ٥/٢٠)۔

خود وکیل اگر فقیر ہے تو اسے بھی زکوٰة لینے کا اختیار نہیں جب تک زکوٰة دینے والا یہ نہ کہہ دے جس جگہ چاہو صرف کرو۔ بہار شریعت میں ہے: وکیل کو یہ اختیار نہیں کہ خود لے لے ہاں اگر زکوٰة دینے والے نے یہ کہہ دیا ہو کہ جس جگہ چاہو صرف کرو تو دے سکتا ہے'' (درمختار ٢/١٥،بہار شیریعت ٥/١٢٠)۔

فقیہ اسلام،مجدد اعظم ،مفسر اکبر،محدث اجل سیدنا اعلیٰحضرت امام احمد رضا قدس سرہ فرماتے ہیں ''جس کے مالک نے اسے اذ ن مطلق دیا کہ جہاں مناسب سمجھودو تو اسے اپنے نفس پر بھی صرف کرنے کا اختیار حاصل ہے جبکہ یہ اس کا مصرف ہو،ہاں اگر یہ لفظ نہ کہے جاتے تو اسے اپنے نفس پر صرف کرنا جائز نہ ہوتا مگر اپنی بیوی یا اولاد کو دے دینا جب بھی جائز ہوتا اگر وہ مصرف تھے درمختار میں ہے:۔ للوکیل ان ید فع لو لدہ الفقیر وزوجتہٖ لا لنفسہ الا اذا قال ربھا ضعھا حیث شئت۔ (درمختار کتاب الزکاۃ ١/٣٠ مطبع مجتبائی دہلی،فتاویٰ رضویہ مترجم ١٠/ ١٥٨و١٥٩،برکات رضا)۔

وکیل کا اپنے مصارف وحاجات میں خرچ کرنا تو کجا مال زکات کو دو سرے مال زکات میں ملا دینا شرعاً ناجائز اور موجب ضمان ہے اور اس خلط و استہلاک کے سبب زکات ادا نہ ہوئی جیسا کہ فقیہ اعظم حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ''بہت سے لوگ مال زکاةاسلامی مدرسوں میں بھیج دیتے ہیں ان کو چاہئے کہ متولی مدرسہ کو اطلاع دیں کہ یہ مال زکاة ہے تاکہ متولی اس مال کو جدا رکھے اور مال میں نہ ملا دے اور غریب طلبہ پر صرف کرے کسی کام کی اجرت میں نہ دے ورنہ زکات ادا نہ ہوئی'' (بہار شریعت ٥/٥٨)۔

مزید فرماتے ہیں کہ اگر عرف ہواور موکل اس عرف سے واقف ہو تو اجازت ہے۔ اگر موکلوںنے صراحتا ملانے کی اجازت نہ دی مگر عرف ایسا جاری ہو گیا کہ وکیل ملا دیا کرتے ہیں تو یہ بھی اجازت سمجھی جائے گی جب کہ موکل اس عرف سے واقف ہو مگر دلال کو خلط کی اجازت نہیں کہ اس میں عرف نہیں''۔ (بہار شریعت ٥/١٩و ٢٠}۔

مجدد اعظم، فقیہ اسلام ،سیدنا اعلیٰحضرت امام احمد رضا قدس سرہ فرماتے ہیں:۔ ''اس طریقہ سے زکات ادا نہیں ہو سکتی،یہ لوگ بطور خود چندہ کرتے ہیں اور زکات وغیر زکات بلکہ مسلم و غیر مسلم سب کے چندے خلط کرلیتے ہیں وہ روپیہ فورا ہلاک ہو جاتا ہے اور قابل اداء زکات نہیں رہتا فان الخلط استھلاک۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:۔ ''رجلان دفع کل منھا زکاۃ مالہ الی رجل لیودی عنہ فخلط مالھما ضمن الوکیل مال الدافعین وکانت الصدقۃ عنہ کذا فی فتاویٰ قاضی خان'۔ '(فتاویٰ ہندیہ الباب الثالث فی زکاۃ الذھب الخ ا/١٨٣نورانی کتب خانہ پشاور)۔

درمختار میں ہے :۔ ''لوخلط زکاۃ موکلیہ کان متبرعا الا اذا وکلہ الفقرائ''۔ (درمختار کتاب الزکاۃ ١/٣٠مطبع مجتبائی دہلی)۔

اس کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ زکاة دینے والے خالص مسلمان اپنی اپنی زکاة ایک معتمد متدین کے پاس جمع کر دیںاور وہ روپیہ ملا لینے کی اجازت دیں اور اس میں کوئی پیسہ غیر زکاة کا خلط نہ کیا جائے نہ کسی وہابی یا رافضی یا نیچری یا قادیانی یا حد کفر تک پہونچے ہوئے گاندھوی کی زکاة اس میں شامل ہو کہ ان لوگوں کی زکاة شرعاً زکاة نہیں یہ خالص زکاة شرعی کا جمع کیا ہوا مال کہ مالکوں کے اذن سے خلط کیا گیا ان فقرائے مظلومین کو پہنچایا جائے ۔ردالمحتار میں زیر عبارت مذکورہ درمختار ہے۔

''قولہ ضمن وکان متبرعا لانہ ملکہ بالخلط وصارمودیامال نفسہ قال فی التتارخانیۃ الا اذا وجد الاذن او اجاز المالکان الی اٰخرہ و تیصل بھذا العالم واذا سال للفقیر شیئًا وخلط ضمن، قلت و مقتضاہ لووجد العرف فلاضمان لوجود الاذن حینئذٍ دلالۃ'' (ردالمحتار کتاب الزکاۃ ٢/١٢ مصطفی البابی مصر،فتاویٰ رضویہ ٤/٤٧١)۔

ردالمحتار میں اس کے بعد ہے :۔ ''والظاھر أنہ لابد من علم المالک بھذا العرف لیکون اذنا منہ دلالۃ''۔ (کتاب الزکاۃ،مطلب فی زکاۃ ثمن مبیع الوفائ)۔

ان عبارتوں سے صاف ظاہر ہے کہ زکاة کی رقم اپنی حاجت میں خرچ کرنا اور زکاة کو غیر زکاة میں مالکوں کی اجازت یا عرف شائع کے بغیر ملانا ناجائز ہے۔ اموال زکات کی طرح مساجد وغیرہ کی تعمیر کے لئے حاصل کر دہ رقم اپنی حاجت میں استعمال کرنا اور اس کا بدل مسجد کے خرچ میں دینا جائز نہیں۔

فقیہ النفس امام قاضی خان فتاویٰ قاضی خان میں فرماتے ہیں:۔ ''رجل جمع مالا من الناس لینفقہ فی بناء المسجد وانفق من تلک الدراھم فی حاجۃ نفسہ ثم رد بدلھا فی نفقۃ المسجد لا یسعہ ان یفعل ذالک واذافعل ان کان یعرف صاحب المال ردالضمان علیہ أویسالہ لیا ذن لہ بانفاق الضمان فی المسجد وان لم یعرف صاحب المال یرفع الأمرالی القاضی حتی یامرہ بانفاق ذلک فی المسجد فان لم یقدر علی ان یرفع الا مرالی القاضی قالوا نرجو لہ فی الاستحسان ان ینفق مثل ذلک فی المسجد فیجوزویخرج عن الوبال فیمابینہ و بین اللہ تعالیٰ وفی القضاء یکون ضامنا فیکون ذلک دینا علیہ لصاحب المال وھو نظیر ماذکر فی الأصل الوکیل بقضاء الدین اذا صرف مال الموکل فی حاجۃ نفسہ ثم قضی بمال نفسہ فی دین الموکل یکون تبرعا فی قضاء دین الموکل''۔ (فتاویٰ قاضی خان ٣/٢٩٩)۔

ان ارشادات عالیہ کے باوجود آج کے حالات کچھ ایسے ہیں کہ وکیل تملیک مستحق سے پہلے امانت میں تصرف کرتے ہیں اور موکل سے وصول کردہ رقم اپنے خرچ میں لاتے ہیں اور اس کا بدل ادا کرتے ہیں بسا اوقات انہیں اس تصرف کی حاجت پیش آتی ہے کہ مصارف سفر ان پر تنگ ہو جاتے ہیں اور وصول کردہ رقم کے علاوہ مزید رقم ان کے پاس نہیں ہوتی اور نہ اس کی کوئی صورت نظر آتی ہے بسا اوقات وکیل اپنے استعمال میں تو نہیں لاتے مگر مستحقین تک پہنچانے کے لئے انہیں تصرف کی حاجت پیش آتی ہے ظاہر ہے ایک ملک سے دوسرے ملک مستحقین تک پہنچانے کے لئے بینک،ڈاکخانہ اور حوالہ کمپنی وغیرہ معتمد ذرائع کا سہارا لینا پڑتا ہے کہ ان معتمد ذرائع سے مستحقین بآسانی حاصل کر سکتے ہیں اور راستے کے خطرات سے امن بھی رہتا ہے کہ اگر وکیل خود لائے یا کسی کے ذریعہ وصول کردہ رقم مستحق تک پہنچائے تو اس میں ضیاع کا خطرہ و اندیشہ رہتا ہے۔یا موکل سے وصول کردہ رقم خود وکیل ہی لایا مگر کرنسیوں کی تبدیلی کے بغیر وکیل یا مہتمم ادارہ وہ رقم مستحقین پر صرف نہیں کر سکتے اندرون ملک بہت سے حضرات اجرت اور بے اجرت کسی ایک شہر میں رہ کر وہاں کے لوگوں سے اموال زکات کی وصولیابی کر کے بینک و ڈاکخانہ وغیرہ کے ذریعہ مستحقین پر صرف کرنے کے لئے رقم ارسال کرتے ہیں، بہت سے ادارہ کے لوگ منی آرڈر فارم پیشگی مخصوص شہروں میں خاص افراد کے نام روانہ کر دیتے ہیں اور یہ خاص افراد وصول کردہ رقم بینک، ڈاکخانہ وغیرہ کے ذریعہ روانہ کرتے ہیں ظاہر ہے تملیک مستحق سے پہلے یہ تصرفات ہوتے ہیں اور اس میں مختلف لوگوں کے اموال زکات بلکہ بسا اوقات زکات اور غیر زکات کا خلط بھی ہوا کرتا ہے ساتھ ہی ترسیل زر کے اخراجات بھی بہت سے لوگ اسی وصول کردہ رقم سے وضع کر لیتے ہیں کہ وکیل کے پاس عموما کوئی فنڈ اس کام کے لئے نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے طور پر یہ کام انجام دیتا ہے ممکن ہے بعض وکیل اس بات کا لحاظ رکھتے ہوں ظاہر ہے ان صورتوں میں تملیک مستحق سے پہلے یہ سارے تصرفات ہوتے ہیں اور مستحق تک زکوٰۃ دہندگان کی رقم من و عن بے تبدیل و تغییر نہ پہونچی بلکہ مثل اور بدل پہونچا

مجدد اعظم سیدنا اعلیٰحضرت امام احمد رضا قدس سرہ فرماتے ہیں :۔ ''مہتممان انجمن نے اگر صراحۃ بھی اجازت دے دی ہو کہ تم جب چاہنا صرف کر لینا پھر اس کا عوض دیدینا جب بھی نہ سیٹھ کو تصرف جائز نہ مہتمموں کو اجازت دینے کی اجازت،کہ مہتمم مالک نہیں اور قرض تبرع ہے اور غیر مالک کو تبرع کا اختیار نہیں،ہاں چندہ دہندہ اجازت دے جائیں تو حرج نہیں ،اس حالت میں جب تصرف کرے گا روپیہ امانت سے نکل کر اس پر قرض ہوجائے گا جو عند الطلب دینا لازم آئے گا اگرچہ کوئی میعاد مقرر کر دی ہو ''فان التاجیل فی القرض باطل کما فی الدرالمختار وغیرہ'' (فتاویٰ رضویہ ٦/٣١)۔

ان حالات کے تناظر میں چند سوالات خصوصی توجہ کے طالب ہیں امید کہ غور و فکر اور کامل تفحص و جستجو کے بعد جواب باصواب سے شاد کام فرمائیں گے مجھے آپ حضرات کی گونا گوں مصروفیات کے باوجود امید قوی یہی ہے کہ درج ذیل سوالات کے جوابات وقت مقرر پر عنایت فرماکر شکریہ کا موقعہ فراہم فرمائیں گے۔

۱۔ الف :- کیا مصارف سفر تنگ ہونے کے وقت وکیل کے لئے یہ جائز ہے کہ بقدر ضرورت وکفایت موکل سے وصول کردہ زکاة کی رقم استعمال کرے اور اس کا مثل و بدل مستحق کو ادا کرے بصورت عدم جواز کیا جواز کی کوئی ایسی صورت نکلتی ہے جس سے وکیل کے مصارف پورے ہوں؟
ب:- پھر عدم جواز تصرف مال زکاة کے ساتھ خاص ہے یا دیگر صدقات و عطیات کو بھی عام ہے ؟
۲۔ کیا تملیک مستحق سے پہلے وکیل کے لئے اس تصرف کی اجازت ہے کہ ایک ملک سے دوسرے ملک یا اندرون ملک ایک شہر سے دوسرے شہر مستحقین تک پہنچانے کے لئے بینک اور ڈاکخانہ وغیرہ معتمد ذرائع کا استعمال کرے کیا اس تصرف کے سبب وہ غاصب و خائن و مرتکب حرام کہلائے گا؟ اور زکات ادا نہ ہوگی اور وکیل متبرع ہوگا اورا س پر ضمان و تاوان لازم ہوگا؟ اسی طرح تملیک مستحق سے پہلے کرنسیوں کی تبدیلی کیا ناجائز ہے جبکہ اس تصرف کے بغیر مستحقین پرصرف کی راہ نہ ہو؟ اسی طرح موکل نے کسی خاص ادارہ کے مستحقین کے لئے وکیل کو زکات وغیرہ کی رقم دی تو کیا کسی دوسرے مستحق کی تملیک یا دوسرے ادارہ کے مستحقین پر صرف جائز ہے؟
۳۔ مختلف لوگوں کے اموال زکاة اسی طرح زکاة وغیر زکاة کا باہم خلط شرعاً ناجائز ہے؟ یا آج خلط کی اجازت پر عرف قائم ہو چکا ہے بہر صورت بصورت خلط،زکاة ادا ہوئی یا نہیں؟ اثمان اصطلاحیہ اور غلے اور نقود کے خلط کا حکم یکساں ہے؟
۴۔ کیا کسی مخصوص مدرسے یا انجمن کی رسید پر وصول کی گئی زکوٰۃ یا مزکی کی طرف سے اسی ادارہ کے مستحقین کے لئے مخصوص ہے یا دوسرے مصارف زکوٰۃ پر بھی صرف کرنا جائز ہے ؟

مفتی محمد محمود اختر امجدی
رکن شرعی کونسل آف انڈیا بریلی شریف ''شرعی کونسل آف انڈیا''بریلی شریف کادو روزہ چھٹافقہی سیمینار مورخہ/٢٣/٢٤/٢٥/رجب المرجب ١٤٣٠ھ مطابق ١٧/١٨/١٩/جولائی ٢٠٠٩ء
جوابات/فیصلے
جواب نمبر ۱
جدید طریقئہ بیع کی شرعی حیثیت:۔
جدید طریقئہ تجارت کے تحت یہ مسئلہ زیر بحث آیا کہ مبیع موجود و مقبوض ہونے سے قبل ہی بیچنے اور خرید نے کا عمل اہل تجارت میں عام طور پر رائج ہو گیا ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص سے مال تیار کرنے کو کہکر اس سے خرید لیتا ہے اور مال موجود بھی نہیں ہے وہ دوسرے کو بیچ دیتا ہے حالانکہ ابھی وہ مال موجود و مقبوض نہیں ہے اور ہکذا وہ دوسرا تیسرے شخص کو وغیرہ ۔ اس میں سوال یہ ہے کہ یہ بیع کی کس قسم میں داخل ہے؟

۱۔ یہ طے ہوا کہ بیع اول بیع استصناع ہے اور یہ تعامل کی وجہ سے جائز ہے لہٰذا جن جن اشیا میں ایسی بیع رائج ہوگئی ہے وہ جائز ہے اور یہاں تعامل کے لئے یہی کافی ہے کہ اس کا رواج ہو اور علما سے بعد علم اس پر نکیرنہ پائی جائے ۔
مذکورہ بالا بیع استصناع میں بسا اوقات ایک ماہ یا اس سے زائد کی اجل مذکور ہوتی ہے جو مذہب امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر استصناع کے بجائے سلم ہوجاتی ہے اور اس میں جملہ شرائط سلم صحت عقد کے لئے لازم ہیں۔اور حضرات صاحبین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے مذہب پر ایک ماہ یا زائد کی مدت استعجال کے لئے ہوتی ہے نہ کہ بطور شرط تو کیا اس مسئلہ میں قول امام سے عدول درست ہے اگر درست ہے تو کس بنا پر؟

۲۔ باتفاق رائے یہ طے ہو اکہ استصناع میں ایک ماہ یا اس سے زائد کی اجل کا ذکر بطور استعجال ہے جو صاحبین کا قول ہے ۔ اس مسئلہ میں قول امام سے عدول دفع حرج شدید کی بنا پر درست ہے ۔

۳۔ استصناع بوجہ تعامل ہی جائز ہے اور اس تعامل کی بنا حاجت پر ہے اس لئے بعض فقہانے جواز الاستصناع للحاجۃ ذکر فرمادیا ہے ۔

سوال میں یہ جو ذکر کیا گیا کہ ایک شخص کسی سے مال کا عقد استصناع کرتا ہے پھر مال کے موجود ہونے سے پہلے ہی کسی دوسرے تاجر کو بیع کر دیتا اوردوسرا تاجر بھی ملک و قبضہ سے پہلے تیسرے تاجر کو بیع کرتا ہے ۔ وہکذا یجری۔ اس سلسلے میں یہ فیصلہ ہوا کہ اول کی بیع استصناع ہے۔ اور بعد والی بیعوں کے متعلق تحقیق کے بعد یہ پتہ چلا کہ مستصنع اور اس کے بعد کے تجار ایک دوسرے سے صرف معاہدہئ بیع کرتے ہیں نہ کہ بیع اس لئے یہ جائز ہے کہ معدوم کی بیع و شراء کا وعدہ بے قباحت جائز ہے۔ واللّٰہ تعالیٰ اعلم

جواب نمبر ۲
اموال زکوٰٰۃ و عشر اور عطیات میں خلط یا تصرف کا شرعی حکم:۔
مختلف اموال زکوٰۃ یا دیگر اموال عشر وصدقات نافلہ میں خلط و تصرف کا شرعی حکم سفرا زکوٰۃ دہندگان و چندہ دہندہ کے اس بات میں وکیل ہوتے ہیں کہ زر زکوٰۃ و صدقات نافلہ ناظمین مدرسہ و انجمن تک پہنچائیں اور ان کے ہاتھ میں وصول شدہ مال زر امانت ہے ۔ بے اذن معطی ان اموال میں تصرف یا تبدیلی ناجائز ہے ۔ اذن کے لئے ضروری نہیں کہ صراحۃً ہی ہو بلکہ دلالۃً یا عرفاً اذن بھی کافی ہے ۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ معطی کو اس عرف کا علم ہو۔

اموال زکوٰۃ و صدقات یا چند افراد کے اموال زکوٰۃ کو باہم مخلوط کرنا بھی بے اذن معطی جائز نہیں۔

مختلف لوگوں کے اموال زکوٰۃ کو خلط کرنا یا زکوٰۃ و عطیات کو خلط کرنا امانت میں تصرف ہے لیکن اس زمانے میں اس تصرف کا عرف قائم ہوچکا ہے ۔ لہٰذا اموال زکوٰۃ کا خلط یا زکوٰۃ وغیر زکوٰۃ کا خلط جائز ہے ۔ درمختار میں ہے ولوخلط زکوٰۃ مؤکلیہ ضمن وکان متبرعاً، الاّ اذا وکلہ الفقراء ۔ ردا لمحتار میں ہے: قولہ (ضمن وکان متبرعاً) لانہ ملکہ بالخلط وصار مؤدیا مال نفسہ، قال فی التاتار خانیۃ: الااذا وجد الاذن أواجاز المالکان اھ: أی أجاز قبل الدفع الی الفقیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ثم قال فی التاتار خانیۃ: أو وجدت دلالۃً الاذن بالخلط کما جرت العادۃ بالاذن من أرباب الحنطۃ بخلط ثمن الغلات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قلت: ومقتضاہ انہ لو وجد العرف فلاضمان لوجود الاذن حینئذ دلالۃ۔ والظاہر انہ لابد من علم المالک بہذا العرف لیکون اذنا منہ دلالۃ۔ مختصراً [رد المحتار ٣/١٨٨ زکریا بکڈپو]۔

اگر زکوٰۃ کا مذکورہ بالا محصل واقعۃً عسرت و تنگی میں پڑجائے تو وہ وصول شدہ رقم میں سے بقدر ضرورت بطور قرض لے سکتا ہے اگر متبادل سبیل نہ ہو اور اس پر واجب ہے کہ عند الطلب اتنا ہی مال ناظم ادارہ کو دے ۔اور چونکہ اسے صراحۃً یا عرفاً مال امانت میں حق تصرف حاصل ہے تو اس کا قرض لینا درست ہے ۔

مگر چونکہ اپنے اوپر خرچ کے لئے قرض لے رہا ہے اس لئے اس میں عسرت شرط ہے تو عسرت و تنگی جتنے سے دفع ہو سکتی ہے اتنا ہی لے اس سے زیادہ لینے کی اس کو اجازت نہیں ۔ واللّٰہ تعالیٰ اعلم

جواب نمبر ۳
ری سائیکل پانی و کاغذ وغیرہ کا شرعی حکم:۔
آج مورخہ ١٧/جولائی ٢٠٠٩ء بعد نماز مغرب ''شرعی کونسل آف انڈیا'' کا چھٹا سیمینار منعقد ہوا جس میں ناظم شرعی کونسل کے خطبہ استقبالیہ و سرپرست اعلیٰ حضور تاج الشریعہ مدظلہ کے خطبہئ صدارت و رکن فیصل بورڈ حضرت محدث کبیر مدظلہ کے خطبئہ تنقیح مسائل کے بعد مستعمل پانی و کاغذ اور پلاسٹک کی ری سائیکل شدہ سامانوں کی طہارت سے متعلق بحث ہوئی اور باتفاق رائے درج ذیل فیصلہ ہوا۔ ''ری سائیکل پانی و دیگر اشیا کے ری سائیکل شدہ سامانوں کا حکم''

۱۔ پانی کی ری سائیکلنگ۔

اَََُُُُلف) جو پانی گھروں میں سپلائی ہوتا ہے یا بسلیری وغیرہ کی بوتلوں میں دستیاب ہے وہ طاہر و مطہر ہے ، اس کے پینے اور دیگرحاجات و ضروریات میں استعمال کرنے میں کوئی کراہت نہیں تاوقتیکہ وہ الگ سے کسی نجاست سے آلودہ نہ ہو۔

ب) ری سائیکلنگ کے ٹینک کا پانی پاک ہے یا ناپاک؟ ا س سلسلہ میں اس پر نجاست کا حکم اس وقت تک عائد نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ یہ نہ ثابت ہوجائے کہ اس کا کوئی وصف نجاست ہی سے متغیر ہے۔

۲۔ ری سائیکل کئے ہوئے کاغذ اور پلاسٹک ، فائبر اور دیگر اشیا سے بنے ہوئے ظروف وغیرہ اپنی اصل کے مطابق پاک ہیں اور ان کا استعمال بلاکراہت جائز ہے۔ لان الاصل فی ہذہ الاشیاء ہی الطہارۃ فلایعدل عنہ الابدلیل مثلہ۔ واللّٰہ تعالیٰ اعلم

ایک اھم مسئلہ
ٹرینوں پر نماز کا مسئلہ:۔ پہلے سیمینارکا باقی جزء جس کا فیصلہ نہ ہو سکا تھا اس کی بحث:۔ ٹرینوں پر نماز کے جواز و عدم جواز سے متعلق بحثوں کے بعد طے ہوا کہ ٹرینوں کا روکنا و چلانا اختیار عبد میں ہے اس میں اعذار معتبرہ فی التیمم میں سے کوئی عذر متحقق نہیں ہے کہ چلتی ٹرینوں پر فرض و واجب ادا کرنے سے اسقاط فرض و واجب ہوسکے۔ لہٰذا وقت جارہا ہو تو جس طرح پڑھنا ممکن ہو پڑھ لے جب موقع ملے اسے دوبارہ پڑھے۔

اعلیٰ حضرت کے زمانے سے لیکر آج تک ٹرینوں کے چلنے، رکنے اور ٹرینوں سے اترنے اور اس پر چڑھنے وغیرہ کے حالات میں کوئی تغیر نہیں ہوا ہے اس لئے ان کے فتوے سے عدول کی کوئی وجہ معقول نہیں ہے ۔ واللّٰہ تعالیٰ اعلم

|  HOME  |