گذشتہ کئی سالوں سے عازمین حج وزیارت کی تعداد گورنمنٹ کے مقررہ کوٹے سے تجاوز کر جانے کی وجہ سے حکومت ہندقرعہ کے ذریعہ حج میں جانے والوں کا انتخاب کر رہی ہے ، قرعہ میں جن کا نام آجاتا ہے وہی حج و زیارت کے مستحق قرار دیئے جاتے ہیں ، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بہت سے عازمین حج کودو یا تین یا کئی سالوں تک اپنے نمبر کے آنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے ، جس کی وجہ سے حج کی ادئیگی میں غیر معمولی تاخیر ہوجاتی ہے ، اس دوران کچھ عازمین حج مرض یا حادثہ یا مالی بحران کا شکار ہوکر حج کرنے کے لائق نہیں رہتے ، اور کچھ اسی انتظار میں دنیا سے چل بستے ہیں ، ان میں خاصی تعداد ایسے عازمین کی بھی ہوتی ہے جو پرائیوٹ ٹورز سے حج میں جانے کی استطاعت رکھتے ہیں،لیکن حج کمیٹی کی بہ نسبت ان میں خرچہ زیادہ آتا ہے ، اس لئے مزید خرچے سے بچنے کے لئے وہ حج کمیٹی ہی سے جانے کے لئے اپنے نمبر کے آنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں، جب کہ حکم شرعی یہ ہے کہ حج کے شرائط وجوب پائے جانے کے بعد فوراً اس کی ادئیگی نہ کرنا گناہ اور سوء خاتمہ کا اندیشہ ہے ۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں !
’’من ملک زادا او راحلۃ تبلغہ الی بیت اللہ الحرام فلم یحج فلا علیہ ان یموت یہودیا او نصرانیا۔ اخرجہ الدارمی فی سننہ بہذا اللفظ عن یزید بن ہارون عن شریک عن لیث عن عبد الرحمن بن سابط عن ابی امامۃ مرفوعا۔‘‘
(بدائع الصنائع للکاسانی ج۲ص۲۹۱مکتبہ زکریا)
فتاوی عالمگیری میں ہے :
’’وہو فرض علی الفور وہو الاصح فلا یباح لہ التاخیر بقدر الامکان الی العام الثانی۔کذا فی خزانۃ المفتین۔‘‘
(ج۱ ص۲۱۶ مکتبہ زکریا)
بلکہ کئی سالوں تک اس کو مؤخر کرنے والا آدمی فاسق اور مردود الشہادۃ ہو جاتا ہے ۔
در مختار میں ہے :
’’علی الفور فی العام الاول عند الثانی واصح الروایتین عن الامام ومالک و احمد۔ فیفسق ترد شہادتہ بتاخیرہ ای سنینا‘‘
(ج۲ ص ۴۵۴ مکتبہ زکریا)
البحر الرائق میں ہے :
’’ویاثم باالتاخیر لترک الواجب ۔ وثمرۃالاختلاف تظہر فیما اذا اخرہ فعلی الصحیح یأثم ویصیر فاسقا مردودالشہادۃ وعلی قول محمد،لا۔ ‘‘ (ج ۲ ص ۵۴۲ مکتبہ زکریا)
قرعہ میں نام آنے کے لئے کچھ لوگ رشوت بھی دیتے ہیں ، جب کہ رشوت دینے اور لینے پر حدیث شریف میں سخت وعید آئی ہے ۔
ارشاد نبوی ہے : ’’الراشی والمرتشی کلاہما فی النار ‘‘
فتاوی قاضی خان میں ہے :
’’ومن الشرائط امن الطریق حتی قال ابو القاسم الصفار رحمہ اللہ تعالیٰ لا اری الحج فرضا منذ عشرین سنۃ خرجت القرامطہ ۔وہکذا قال ابو بکر الاسکاف رحمہ اللہ تعالی فی سنۃ ست و عشرین وثلٰث مأۃ قیل انما کان ذلک لان الحاج لا یتوصل الی الحج الابالرشوۃ للقرامطہ وغیرہا فتکون الطاعۃ سببا عۃ للمعصیۃ ۔والطاعۃاذا صارت سببا للمعصیۃ ترتفع الطاعۃ ‘‘(ج ۱ ص ۲۸۳ مکتبہ زکریا)
لیکن البحر الرائق میں اس کے بر خلاف یہ کہا گیا ہے کہ فرض ادا کیا جائے گا اگر چہ اس کی ادئیگی میں کسی معصیت کا ارتکاب کیوں نہ کرنا پڑے ۔
اس کی عبارت مندرجہ ذیل ہے :
’’وما قال الصفار من انی لا اری الحج فرضا من حین خرجت القرامطہ وما علل بہفی الفتاوی الظہیریۃ بان الحاج لا یتوصل الی الحج الا بالرشوۃلقرامطۃوغیرہا ۔فتکون الطاعۃ سببا للمعصیۃ مردود بان ہذا لم یکن من شانہم لانہم طائفۃ من الخوارج کانوا یستحلون قتل المسلمین واخذ مالہم وکانوا یغلبون علی اماکن ویترصدون للحاج۔ وعلی تقدیر اخذہم الرِشوۃ فالا ثمفی مثلہ علی الآخذ لا المعطی ۔۔۔۔۔ولا یترک الفرض لمعصیۃ عاص۔‘‘ (ج۲ ص ۵۵۰مکتبہ زکریا)
لہذا ان مسائل کے حل کے لئے ارباب فقہ و افتا کی خدمات جلیلہ میں مندرجہ ذیل سوالات پیش کئے جا رہے ہیں ،امید کہ اپنے علمی و تحقیقی جوابات قلمبند فرماکرامت مسلمہ کی رہنمائی فرمائیں گے ۔
سوال(۱)وہ عازمین حج و زیارت جو قرعہ میں نام آنے کے انتظار کے دوران مرض یا حادثہ یا مالی بحران کا شکار ہو کر حج ادا نہ کر سکے یا تاخیر سے ادا کرے یا اسی درمیان اس کا انتقال ہو جائے ، ایسے عازمین حج کے لئے کیا حکم شرعی ہے ؟
سوال(۲) وہ عازمین حج جنہیں پرائیویٹ ٹورز سے حج میں جانے کی استطاعت ہوتی ہے مگر زیادہ خرچے سے پچنے کے لئے حج کمیٹی ہی سے جانا چاہتے ہیں، اور اپنے نمبر کے آنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں ، ایسے عازمین حج کے لئے شریعت کا کیا حکم ہے ؟
سوال(۳) پھر اگر یہ عازمین اسی انتظار کے دوران اگر فوت ہو جائیں یا کسی مرض یا حادثہ یا مالی بحران کا شکار ہو کر حج ادا نہ کر پائیں یا تاخیر سے ادا کریں ،تو کیا ان پر بالقصد ترک حج یا تاخیر حج کا الزام آئے گا ، اور وہ گنہ گار ہوں گے ؟
سوال(۴)کیا قرعہ میں نمبر آنے کے لئے رشوت دینا جائز ہے ؟ جب کہ اس کا لینا دینا دونوں حرام ہیں ؟ کیا سبب معصیت کے وقت طاعت ، طاعت نہیں رہتی؟
سوال(۵)اسی کے ساتھ یہ بھی واضح فرمائیں کہ تصویر کھنچوانا حرام ہے جب کہ آج کے دور میں تصویر کے بغیر حج کی ادائیگی کا تصور نہیں کیا جا سکتا ، تو آج کے ان بدلتے ہوئے حالات میں کیا حاجت شرعیہ، دفع حرجاور تعامل جیسے اسباب تخفیف کے سہارے اس کے حکم میں کچھ تبدیلی ہوگی ؟
سوال(۶)اس حرمت سے بچنے کے لئے اگر کوئی صاحب استطاعت حج نہ کرے ، تو اس کا کیا حکم ہے ؟
سوال(۷)اس تعلق سے حج فرض و نفل یوں ہی عمرہ و حج بدل سب کا حکم یکساں ہوگا یا اس میں کچھ تبدیلی ہوگی؟
سوال(۸)کیا فرضیت حج کے لئے استطاعت مالی میں ٹور کے مصارف کا اعتبار ہوگا یا حج کمیٹی کے مصارف کا ؟یا غنا کے اعتبار سے کسی کے لئے یہ اور کسی کے لئے وہ؟
اس ضمن میں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے
(۱)پرائیویٹ ٹور والے زیادہ سے زیادہ افراد کو اکٹھا کرنے کے لئے مختلف تدبیریں اور اسکیمیں اپناتے ہیں چنانچہ ایک اسکیم یہ بناتے ہیں کہ حج و عمرہ کا خرچ مثلا عام طور سے دو لاکھ روپے ہوتا ہے تو وہ اعلان کرتے ہیں کہ جو شخص فلاں تاریخ سے پہلے کل رقم جمع کردے تو اسے ہم اپنے ٹور سے بجائے دو لاکھ کے ڈیڑھ لاکھ میں حج و عمرہ کے لئے لے جائیں گے اور اگر فلاں تاریخ کے بعد جمع کرے گا تو دو لاکھ میں ہی لے جائیں گے تو ان کا ایسا کرنا اور مسلمانوں کا اس طرح کی اسکیم کے تحت کم خرچ دے کر جانا کیسا ہے ؟
محمد رفیق عالم رضوی
استاذ جامعہ نوریہ رضویہ باقر گنج بریلی شریف
سوال نمبر ۲
میموری کارڈ ،سی ڈی اورکمپیوٹرمیں آیات قرآنیہ و دینی معلومات وغیرہ کے محفوظ کرنے اور ایسی سی ڈی وغیرہ کا حکم
:۔
قرآن کریم اللہ رب العزت کی وہ مقدس کتاب ہدایت ہے جو ایمان کی اصل اور دین کی اساس ہے جس کی حفاظت اللہ رب العزت نے اپنے ذمہ کرم پر فرما لیا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحٰفظون‘‘ (پارہ ۱۴رکوع۱)
نبی سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام نے اپنے مبارک سینوں میں اس عظیم و جلیل امانت کو محفوظ فرماکر اس کی حفاظت فرمائی ۔لکڑیوں ، پتیوں ، ہڈیوں ، چمڑوں اور کاغذ وغیرہ پر تحریر فرماکر اس کی حفاظت کو محکم فرمایا ۔ حفظ و جمع کے یہ راہ نما نقوش شارع امت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے عہد میمون سے آج تک دنیائے اسلام میں قائم و دائم ہیں ۔ جیسے جیسے تحقیقات و اکتشافات کا دائرہ وسیع ہوا ، آلات و اسباب نے عروج و ارتقا کی منزلیں طے کیں ، حفظ وجمع کا طریقہ بھی ترقی پذیر ہوا ، ایک دور آیا کہ مونو گرام کی پلیٹوں اور کیسٹوں کی ریلوں میں حفظ و جمع کا اہتمام ہوا اور انسانی عقل کے لئے حیرت انگیز ثابت ہوا ۔ آج ایک مختصر سی میموری میں وافر مواد اور معانی کو محفوظ کرلیا جاتا ہے اور اس میموری کو لیپ ٹاپ ، کمپیوٹر اور موبائل وغیرہ میں ڈال کر ان مواد و معانی کو دیکھا اور سنا جاتا ہے ۔ قرآن کریم جو اللہ رب العزت کا کلام معجز نظام ہے جس کی تعظیم واجبات دین سے ہے اور اہانت و استخفاف کفر ہے،اسے اس مختصر سی میموری میں محفوظ کر لیا جاتا ہے ،خوش الحان قاری کی قراء ت بھی محفوظ کر لی جاتی ہے ،قرآن کریم کا ترجمہ و تفسیر اور اسلامی ذخائر کے دفتر ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس مے میموری سے وہ سارے کام لئے جا سکتے ہیں جو مصحف شریف اور اس کے ترجمہ و تفسیر وغیرہ سے لئے جاتے ہیں، اس میموری میں دینی مضامین کے ساتھ میوزک کے ساتھ نعتیں، منقبتیں، غزلیں ، فلمی گانے ، قوالیاں ، فحش مناظر، مخرب اخلاق حکایات و واقعات اور ذی روح کی تصویریں بھی محفوظ کی جاتی ہیں ۔ جنہیں بنانا، بنوانا، موضع تعظیم و تکریم میں رکھنا اور نگاہ شوق سے دیکھنا سخت حرام ہے ، جن کی اہانت و ترک تعظیم پر شارع امت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے روشن نصوص وارد ہیں ۔ اس مقامپر غورطلب یہ ہے کہ جس میموری و سی ڈی میں اللہ عزوجل کا مقدس کلام محفوظ ہے ، جس کی تعظیم ایمان مومن ہے ، جسے ابتذال و استخفاف و اہانت سے بچانا واجبات دین اور فرائض ایمانیات سے ہے ، اس میں ان ساری چیزوں کو محفوظ کرنا اور اسکرین پر نگاہ شوق سے دیکھنا ،اس کے اوپر کسی چیز کو رکھنا ، اس کی طرف پشت و پائوں کرنا ، بے طہارت اسے چھونا ، کافر و مرتد کا اسے فروخت کرنا ،جہاں چاہے جس طرح رکھنا، اس میموری کے آلہ کو (جس میں ہے ) پیشاب خانہ و پا خانہ وغیرہ میں لے جانا اور اس میں لہو و لعب کو لانا کیس شرعی نقطہ نظر سے جائز و درست ہے ؟ہمارے فقہائے کرام رحمہم المتعال نے مصحف شریف کے بارے میں فرمایاکہ اس کے اوپر کسی چیز کو رکھنا، اس کی طرف پشت اور پائوں کرنا ،پائو ںکو اس سے اونچا کرنا ، بے طہارت اسے چھونا ،اس میں لہو و لعب لانا ، جس کاغذ پر اسم جلالت مکتوب ہو اس میں کوئی چیز رکھنا، قرآن کریم کے آداب کے خلاف ہے۔فقہائے کرام نے اس بارے میں صاف اور کھلی تصریحیں فرمائیں ۔
فقیہ اعظم حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوان فرماتے ہیں :
’’قرآن مجید جس صندوق میں ہو اس پر کپڑا وغیرہ نہ رکھا جائے ،اس کی طرف پیٹھ نہ کی جائے، نہ پائوں پھیلائے جائیں ،نہ پائوں کو اس سے اونچا کریں، نہ یہ کہ خود انچی جگہ پر ہو اور قرآن مجید نیچے ہو ‘‘(بہار شریعت ۱۶؍۱۱۸و۱۱۹)
نیز فرماتے ہیں :
’’ جس کاغذ پر اللہ کا نام لکھا ہو اس میں کوئی چیز رکھنا مکروہ ہے اور تھیلے پر اسمائے الٰہی لکھے ہوں اس میں روپیہ ،پیسہ رکھنا مکروہ نہیں ۔‘‘(بہار شریعت۱۶؍۱۱۹)
فقیہ اسلام مجدد اعظم سیدنا اعلیٰحضرت امام احمد رضا قدس سرہ فرماتے ہیں :
’’ جس انگوٹھی پر اللہ عزوجل یا اس کے حبیب پاک کا نام مکتوب ہو اس کو پہن کر بیت الخلا جانے کی ممانعت ہے ، اور شک نہیں کہ وقت استنجا اس انگشتری کا جس پر اللہ عزوجل یا نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا نام پاک ہو یا کوئی متبرک لفظ ہو اتار لینا صرف مستحب ہی نہیں قطعاً سنت اور اس کا ترک ضرور مکروہ ہے ، بلکہ اسا ء ت ہے ، بلکہ کچھ لکھا ہو حروف کا ادب چاہیے۔ردالمحتار میں ہے :’’نقلوا عندنا ان للحروف حرمۃ ولو مقطعۃ وذکر بعض القراء ان حروف الہجاء قرآن نزل علی ہود علیہ الصلاۃ والسلام ‘‘۔(فتاویٰ رضویہ ۱؍۱۷۱و۲؍۱۴۴)
نیز فرماتے ہیں :
’’غیر مسلم کو آیات قرآنی لکھ کر ہر گز نہ دی جائیں کہ اساء ت ادب کا مظنہ ہے بلکہ مطلقاً اسمائے الٰہیہ و نقوش مظہرہ نہ دیں کہ ان کی بھی تعظیم واجب، بلکہ دیں تو اعداد لکھ کر دیں‘‘۔(فتاویٰ رضویہ ۲۳؍۳۹۷)
فتاویٰ بزازیہ میں ہے :
’’وکرہ ان یجعل فی قرطاس کتب فیہ اسم اللہ تعالیٰ شیء کانت الکتابۃ فی ظاہرہ او باطنہ بخلاف الکیس لان الکیس یعظم والقرطاس یستہان ‘‘ (۶؍۳۵۴)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے :
’’واذا کان فی جیبہ دراہم مکتوب فیہا اسم اللہ تعالیٰ او شیء من القرآن فأدخلہا مع نفسہ المخرج یکرہ وان اتخذ لنفسہ مبالا طاہرا فی مکان طاہر لا یکرہ۔ وعلیٰ ہٰذا اذا کان علیہ خاتم وعلیہ شیء من القرآن مکتوب او کتب علیہ اسم اللہ تعالیٰ فدخل المخرج معہ یکرہ وان اتخذ لفسہ مبالا طاہرا فی مکان طاہر لا یکرہ‘‘۔
مراقی الفلاح میں ہے :
’’وکرہ الدخول للخلاء ومعہ شیء مکتوب فیہاسم اللہ ‘‘(مراقی الفلاح فصل فی الاستنجاء ص ۳۰)
فتح القدیر میں ہے :
’’ولو کانت رقیۃ فی غلاف متجاف لم یکرہ دخول الخلاء بہ والاحتراز عن مثلہ افضل ‘‘
(فتح القدیر کتاب الطہارات باب الحیض والاستحاضہ ۱؍۱۷۳مرکز اہل سنت برکات رضا پور بندر گجرات )
فتاویٰ رضویہ میں ہے :
’’گرامو فون سے قرآن مجید سننا ممنوع ہے کہ اسے لہو و لعب میں لانا بے ادبی ہے ‘‘۔(فتاویٰ رضویہ ۱۰؍۱۳۴نصف اخیر )
بہت سے موبائل ایسے ہوتے ہیں جن پر اسمائے مقدسہ، اسم جلالت ورسالت ، کلمات طیبہ اور مقامات مقدسہ کے نقوش و اشکال ثبت ہوتے ہیں اور گھنٹی کے مقام پر اذان و نعت پاک اور صلاۃ و سلام وغیرہ اذکار طیبہ کی سیٹنگ ہوتی ہے اور انہیں مواضع استنجا وغیرہ میں لے جاتے اور بسا اوقات گھنٹی کی جگہ یہ اذکار طیبہ وہیں شروع ہوجاتے ہیں ۔
سیدنا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ فرماتے ہیں :
’’ہمارے علما تصریح فرماتے ہیں کہ ! نفس حروف قابل ادب ہیں اگر چہ جدا جدا لکھے ہوں ، جیسے تختی یا مصلیٰ پر خواہ ان میں برا نام لکھا ہو جیسے فرعون ، ابو جہل وغیرہما تاہم حرفوں کی تعظیم کی جائے گی اگر چہ ان کافروں کا نام لائق اہانت و تذلیل ہے ۔فی الہندیۃ:’’اذا کتب اسم فرعون او کتب ابو جہل علی عض یکرہ ان یرموا الیہ لان لتلک الحروف حرمۃ کذا فی السراجیۃ ‘‘(فتاویٰ رضویہ ۹؍ ۲۵ نصف اول)
مزید فرماتے ہیں :
’’ قرآن عظیم ہی کے حکم میں اشعار حمد و نعت و منقبت و جملہ عبارات و کلمات معظمہ دینیہ کہ نہ ان کو نجس چیز میں لکھنا جائز یہ وجہ اول ہو ئی، نہ انہیں کھیل تماشہ بنانا جائز یہ وجہ دوم ہوئی ، نہ انہیں لہو و لغو بتانے کے جلسے میں شریک ہونا جائزاگرچہ اپنی نیت لعب کی نہ ہو یہ وجہ سوم ہوئی ، نہ ان کی خریداری و استعمال سے لہو بنانے والوں کی مدد جائز یہ وجہ چہارم ہوئی‘‘(فتاویٰ رضویہ ۱۰؍۲۶)
ان حقائق کے روشن ہو جا نے کے بعد درج ذیل سوالات خاص توجہ کے طالب ہیں ۔ امید کہ جواب با صواب سے شاد کام فرماکرہمارے دست و بازوکو قوت ، عزم کو استحکام اور حوصلہ کو بلندی بخشیں گے اور امت مسلمہ کی راہ نمائی میں تعاون فرمائیں گے ۔
سوالات
سوال (۱) سی ڈی کی وضع گرامو فون کی طرح لہو و لعب محفوظ کرنے کے لئے ہے یا مطلقاً کسی قسم کی معلومات محفوظ کرنے کے لئے ہے ؟
سوال (۲)جس سی ڈی و میموری میں قرآن کریم محفوظ ہوتا ہے ، مرسوم ہوتا ہے یا غیر مرسوم بہر صورت اس کے آداب کیا ہیں ؟کیا اس کی تعظیم تقاضائے ایمان مومن ہے جسے بے طہارت چھونا ، غیر مسلم کے ہاتھوں فروخت کرنا اور اس پر غیر قرآن کریم کو رکھنا نا جائز ہے ؟
سوال (۳)جس سی ڈی و میموری میں قرآن کریم محفوظ ہے اس میں میوزک کے ساتھ نعتوں ، منقبتوں ، قصیدوں ، غزلوں، فلمی گانوں، فرضی حکایتوں، ذی روح کی تصویروں کو محفوظ کرنا تعظیم کے ساتھ ان کا دیکھنا اور ان سے تلاوت قرآن پاک و اذکار طیبہ سننا،اور اس کے نقوش سے وضو، بے وضو تلاوت قرآن کرنا ،دینی مضامین پڑھنا کیسا ہے ؟
سوال (۴)سی ڈی و میموری وغیرہ میں قرآن کریم اور اسلامی مضامین محفوظ کرنے پر مالی عوض لینا کون سا عقد شرعی ہے ؟ معقود علے از قبیل اعیان ہے یا اعراض ہے بہر حال یہ عقد اور اس کا عوض لینا کیسا ہے ؟
محمد عسجد رضا قادری
ناظم اعلیٰ : مرکز الدراسات الاسلامیہ جامعۃ الرضا
شرعی کونسل آف انڈیا ، سوداگران ، بریلی شریف
سوال نمبر ۳
کھانے کے بعد یا استنجاء کے لئے ٹشو پیپر کے استعمال کا حکم:۔
تہذیب جدید اور نئی روشنی جس کو نئی اندھیری کہنا زیادہ زیبا ہے، اس نے اقوام دنیا کے آئین ، تمدن و معاشرت اور اخلاق و اعمال، سیرت و صورت میں جو نظر فریب، مگر مہلک انقلاب پیدا کیاہے، اس کی تباہی و بربادی اہل بصیرت پر تو پہلے ہی سے واضح تھی، اور وہ لوگوں کو اس پر متنبہ بھی کرتے رہے، لیکن نو خیز طبائع پر ایک نیا نشر چڑھا ہوا تھا، جس نے نہ کوئی نصیحت سنی اور نہ سننے دی، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اس نئی تہذیب کو سرمایہ سعادت سمجھتے ہیں، اور اسی کی نقل اتار نے کو قوم کی فلاح و بہبود تصور کرتے ہیں ، مثلاً اسلامی طریقہ یہ ہے کہ انسان بیٹھ کر کھائے پیئے، اﷲ کے رسول ﷺ نے کھڑے ہوکر پانی پینے سے منع فرمایا، حضرت قتادہ کہتے ہیں، ہم نے کہا یا رسول اﷲ جب کھڑے ہوکر پینا منع ہے تو کھڑے ہوکر کھانے کا کیا حکم ہے؟ فرمایاـ: ’’ذلک اشد وأخبث‘‘ (مسلم) شرح معانی الاثار میں ہے: قال ابو جعفر فذھب قوم الی کراہۃ الشرب قائمأ واحتجوا فی ذالک بھذہ الآثار وخالفہم فی ذالک آخرون فلم یروا بالشرب قائما باسا‘‘ شرح معانی الآثار ج۵؍ص۳۹۸)۔
اس تعلق سے امام احمد رضا قدس سرہٗ رقمطراز ہیں:
سوائے زمزم شریف وبقیۂ وضو کھڑے ہوکر پینا مکروہ ہے اس کی حدیثیں وفقہی بحث کتب علماء میں موجود ہیں‘‘۔(فتاویٰ رضویہ ج دہم نصف آخر ص ۳۰۴)
جب کہ آج شادی بیاہ کے موقع پر کھڑے ہوکر کھانے کو موڈرن تہذیب کا حصہ سمجھا جاتا ہے، ان بلاؤں کا شکار ایک تو وہ طبقہ ہے جس کو شریعت کی موفقت و مخالفت کی طرف کوئی التفات ہی نہیں لیکن ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو کچھ نہ کچھ اس کی فکر رکھتا ہے، مگر نا واقفیت یا غفلت کی وجہ سے اس میں مبتلا ہے ، ایسے لوگوں کے لئے ضرورت ہے کہ ان کو صحیح احکام سے آگاہ کیا جائے۔اسی تناظر میں کھانے کے بعد یا استنجا کے لئے ٹشو پیپر کے استعمال کا مسئلہ زیر بحث ہے، کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد ہاتھ دھونا سنت اور حدیث سے ثابت ہے، امام ترمذی نے سلمان فارسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہتے ہیں ’’ میں نے تو ریب میں پڑھا تھا کہ کھانے کے بعد رضو کرنا یعنی ہاتھ دھونا اور کلی کرنا برکت ہے، اس بات کو میں نبی کریم صلی سے ذکر کیا حضور نے ارشاد فرمایا’’برکۃ الطعام الوضو قبلہ و الوضو بعدہ‘‘ کھانے کی برکت اس سے پہلے ہاتھ دھونے کو سنت قرار دیتے ہیں، چنانچہ فقیہ اعظم حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ رقمطراز ہیں:
’’سنت یہ ہے کہ قبل طعام و بعد طعام دونوں ہاتھ گٹوں تک دھوئے جائیں بعض لوگ صرف ایک ہاتھ فقط انگلیاں دھولیتے ہیں بلکہ صرف چٹکی دھونے پر کفایت کرتے ہیں ، اس سے سنت ادا نہیں ہوتی‘‘ (بہار شریف ج۱۶؍ص۱۸)
عالمگیری میں ہے: ’’والسنۃ غسل الایدی قبل الطعام وبعدہ قال نجم الائمۃ البخاری وغیرہ غسل الید الوحدۃ او اصابع الیدین لایکفی لسنۃ گسل الیدین قبل الطعام لان المذکورۃ غسل الیدین وذالک الی الرسغ کذا فی القنیۃ (عالمگیری ج۵؍ص۴۱۰)
البحرائق میں ہے:’’ویتحب غسل الیدین قبل الطعام فان فیہ برکۃ وفی البرھانیۃ والسنۃ ان یغسل الایدی قبل الطعام وبعدہ‘‘ (البحرائق ج۸؍ص۷۳۷)
المحیط البرہانی میں ہے:’’ویستحب غسل الیدین قبل الطعام وبعدہ فان فیہ برکۃ‘‘۔ المحیط البرہانی ج۵؍ص۲۰۴)
ان فقہی جزئیات سے معلوم ہوا کہ کھانے کے بعد یا اس سے پہلے با قاعدہ گٹوں تک ہاتھ نہ دھونا بلکہ صرف انگلیوں کے دھونے پر اکتفاء کرنے سے سنت ادا نہیں ہوتی، ظاہر ہے کہ جہاں سے ہاتھ ہی نہ دھویا جائے، اور اس کی جگہ کاغذ استعمال کیا جائے اس سے سنت کیوں کر ادا ہوسکتی ہے، اس لئے فقہائے کرام اسے خلاف سنت اور مکروہ قرار دیتے ہیں، چنانچہ فتاویٰ عالم گیری میں ہے:’’حکی الحاکم عن الامام ان کان یکرہ استعمال الکواغذی فی ولیمۃ لیمسح بھا الاصابع وکان یشدد فیہ ویزجر عنہ زجراً بلیغاً کذافی المحیط‘‘۔ (عالمگیری ج۵؍ ص۴۸۸؍)
مجدد اعظم امام احمد رضا قدس سرہٗ رقم طراز ہیں: ’’کھانے کے بعد کاغذ سے ہاتھ نہ پونچھنا چائیے‘‘۔ (فتاویٰ رضویہ ج۱؍ص۳۰)
جب کاغذ سے ہاتھ صاف کرنا درست نہیں تو اس سے استنجاء حاصل کرنا کس قدر شنیع ہوگا، علما ء فرماتے ہیں کہ سادہ کاغذ بھی قابل احترام ہے، چنانچہ فتاویٰ رضویہ میں ہے: ’’کاغذ سے استنجا مکروہ و ممنوع و سنت نصاریٰ ہے ، کاغذ کی تعظیم کا حکم ہے، اگرچہ سادہ ہو، اور لکھا ہوا ہو تو بدرجۂ اولیٰ۔
درمختار میں ہے:’’کرہ تحریماً بشئی محرم‘‘۔ (فتاویٰ رضویہ ج۴؍ص۶۰۳)
ان حالات میں درجہ ذیل سوالات حل طلب ہیں امید کہ جواب دے کر شاد کام فرمائیں گے۔
سوال (۱) ٹشو پیپر ، کاغذ کی قسم سے ہے یا کوئی اور شئی، بہر صورت وہ قابل احترام ہے یا نہیں؟
سوال (۲) کھانے کے بعد ٹشو پیپر کے ذریعہ ہاتھ صاف کرنا یا اس سے استنجاء حاصل کرنا مکروہ ہے یا حرام، اگر مکروہ ہے تو تحریمی یا تنزیہی؟
سوال (۳) علت کراہت کاغذ کی حرمت کی پامالی ہے یا کچھ اور؟
سوال (۴) کیا آج کے زمانے میں کھانے کے بعد ہاتھ صاف کرنے کے لئے اس کے استعمال میں لوگوں کا ابتلایا تعامل متحقق ہے؟ اور اس میں کچھ گنجائش نکل سکتی ہے؟
قاضی فضل احمد مصباحی
مفتی ضیائ العلوم بنارس
-----------------------------------------------------------------------------------------
جوابات/فیصلے
جواب نمبر ۱
فیصلہ بابت مسائل حج:۔
جواب ۱۔ وہ عازمین حج فرض جو قرعہ میں نام آنے کے انتظار کے دوران مرض یا حادثہ یا مالی بحران کا شکار ہوکر حج ادا نہ کر سکیں تو وہ گنہگار نہیں کہ قرعہ اندازی میں نام نہ آنا عذر ہے ۔البتہ بعد صحت خود جانا اور عدم صحت یابی کی صورت میں حج بدل کرانا لازم ہے اور اگر حج بدل کرانے کے بعد خود صحت یاب ہو جائیں تواب خود جانا ضروری ہے اور مالی بحران کی صورت میں قرض لے کر حج کو جائیں، اور اگر موت کے آثار ظاہر ہوں تو وصیت کرنا لازم ہے ۔واللہ تعالیٰ اعلم۔
جواب ۲- وہ عازمین حج جنہیںپرائیویٹ ٹورز سے حج میں جانے کی استطاعت ہوتی ہے مگر زائد خرچ سے بچنے کے لیے حج کمیٹی ہی سے جانا چاہتے ہیں اور اپنے نمبر آنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں ایسے عازمین حج تاخیر کی وجہ سے گنہگار ہوتے ہیں ۔واللہ تعالیٰ اعلم۔
جواب ۳ - اگر یہ عازمین حج یونہی انتظار کرتے ہوئے فوت ہو جائیں تو ان پر ترک حج کا گناہ ہوگا۔مرض اور مالی بحران کی صورت میں فیصلہ نمبر (۱) میں مذکور عازمین حج کا حکم ان پر بھی نافذ ہوگا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
جواب ۴ - جو عازمین حج ٹور سے جانے کی استطاعت رکھتے ہیں ان کو حکم ہے کہ قرعہ میں نام آنے کے لیے رشوت دینے کے بجائے ٹور سے جائیں۔واللہ تعالیٰ اعلم۔
جواب ۷،۶،۵ - کے جوابات آئندہ سیمینار تک کے لیے زیر غور ہیں ۔
جواب ۸ - فرضیت حج کے لیے استطاعت مالی میں حج کمیٹی کے مصارف کا اعتبار ہے۔ اور پرائیویٹ ٹور والے جو کرایہ کے سلسلہ میں کم و بیش خرچ کا اعلان کرتے ہیں اور عازمین حج ان اسکیموں کے تحت روپیہ جمع کرتے اور حج کو جاتے ہیں تو یہ طریقہ شرعاً درست ہے ۔واللہ تعالیٰ اعلم۔
جواب نمبر ۲
سی ڈی وغیرہ کا بیان :۔
جواب (الف) میموری کارڈ اور سی ڈی، ہارڈ ڈسک گراموفون کی طرح لہو ولعب کے لئے مخصوص نہیں ہیں بلکہ ایسا آلہ ہے جس میں کسی قسم کی معلومات و آوازیں محفوظ کی جاسکتی ہیں اور کی جاتی ہیں۔وھوتعالیٰ اعلم۔
جواب (ب) مذکورہ با لاچیزوںکو جائز کاموں کے لئے استعمال کرنا جائز اور ناجائز کاموں کے لئے ناجائز ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم۔
جواب (ج) سی ڈی میں جو اصوات و نقوش اور کتابت محفوظ کئے جاتے ہیں وہ بعینہٖ سی ڈی میں محفوظ نہیں ہوتے بلکہ ان کے کچھ اعدادی کوڈ اشاراتی انداز میں جمع ہوتے ہیں، اصوات و نقوش و کتابت سے مخصوص سافٹ ویئر ان کو اخذ کرکے اسکرین یا اسپیکر پر اسی انداز میں ظاہر کرتا ہے جس انداز میں اسپیکر یا اسکرین میں بوقت جمع تھا، اس لئے سی ڈی و میموری کارڈ میں جو کچھ جمع ہوتا ہے وہ سب غیر مرسوم ہے تا وقتیکہ وہ اسکرین پر ظاہر نہ ہو۔واللہ تعالیٰ اعلم۔
جواب (د) میموری کارڈ یا سی ڈی جس میں قرآن کریم کی تلاوت محفوظ ہو یا نہ ہو اس میں میوزک یا کوئی ناجائز و حرام گانا اگرچہ میوزک کے ساتھ حمد و نعت ہی کیوں نہ ہو اسے جمع کرنے کا عمل ناجائز و حرام ہے ۔ ایک سی ڈی یا میموری کارڈ میں مختلف فائلس ہوتی ہیں اگر کسی فائل میں میوزک وغیرہ ہو اور کسی فائل میںقرآن عظیم کی تلاوت یا کوئی شرع کے مطابق تقریر و وعظ یا نعت بے مزامیر ہو تو اس سی ڈی سے تلاوت قرآن مجید، شرعی مضامین کا سننا اسی شخص کے لئے جائز ہے جو حرام مضمون کی فائل کھولنے سے قطعی اجتناب کے وصف کا حامل ہو ورنہ اس سی ڈی سے مکمل اجتناب و احتراز لازم ہے کہ جسے نفس پر قابو نہیں اس پر واجب ہے کہ مفضی الی المحرمات سے پر ہیز کرے۔واﷲ تعالیٰ اعلم
جواب (ہ) اسکرین پر جو مکتوب نظر آتا ہے وہ شعاعی نقوش قابل قرآت ہیں وہ مکتوب ہی ہیں اگرچہ کسی سبب سے وہ متبدل یا زائل ہو سکتے ہیں اس لئے جب تک وہ اسکرین پر نمایاں ہیںاگر آیات قرآنیہ ہیں ان کا بے وضو چھونا جائز نہیں کہ زجاجی رنگ کا غلاف اسکرین سے متصل ہے اور اسکرین کے عمل میں دخیل بھی ہے اور محدث کو بے چھوئے پڑھنے میں حرج نہیں کما ھو الحکم فی مسّ المکتوب فی المصحف،پرانے قسم کے کمپیوٹر میں کئی زجاجی غلاف ہوتے ہیں باہر والا شیشہ اسکرین سے منفصل ہوتا ہے اسکرین پر آیات قرآنیہ مکتوب ہوں تو باہر والے شیشہ کو محدث کو چھونا نہ چاہیے کہ بظاہر وہ آیتیں اسی بیرونی شیشہ پر نظر آتی ہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
جواب (و) کافی بحث و تمحیص کے بعد باتفاق رائے طے ہوا کہ سی ڈی میں جو کچھ جمع کیا جاتا ہے از قسم اعراض ہے مال نہیں اسی لئے اپنی سی ڈی سے دوسری سی ڈی میں پروگرام بنانے سے پہلی سی ڈی کا پروگرام نہ باہر ہوتا ہے نہ ضائع، مال ہوتا تو ضرور منتقل ہوتا پہلی سی ڈی میں نہ رہتا اس لئے بالاتفاق یہ طے ہوا کہ اپنی سی ڈی میں مال کے عوض کسی سے پروگرام محفوظ کرانا اجارہ ہے ہر گز بیع نہیں اور یہی حکم سی ڈی و میموری کارڈ میں نیا پروگرام ضبط کرانے کا ہے، اور محفوظ کرنے والے نے اگر اپنی ہی سی ڈی میں یہ عمل کرکے سی ڈی بعوض کسی کو دی تو یہ سی ڈی کی بیع ہے جس میں پروگرام کی بیع سی ڈی کے ضمن میں ہوئی۔واللہ تعالیٰ اعلم۔
جواب (ز)اسکرین پر جو کچھ کتابت و تصویریں نظر آتی ہیں وہ عکس نہیں ہیں بلکہ وہ بعینہٖ مکتوب و تصویرہیں عکس کو نگیٹیو(Negative) کہتے ہیں اور اسکرین پر جو نقوش، تصاویر ہیں وہ پوزیٹیو(Positive) ہیں شرعا ان کا حکم کاغذی تحریر و تصویر کا ہے۔ واﷲ تعالیٰ اعلم۔
جواب نمبر ۳
ٹشوپیپر کے متعلق احکام :۔
جواب (۱)- ٹشو پیپر کاغذ ہی کی ایک قسم ہے جیسا کہ اس کے نام سے بھی ظاہر ہے ۔واللہ تعالیٰ اعلم۔
(۲)ٹشو پیپر کا استعمال کھانے کے بعد مکروہ ہے ،’’بہار شریعت‘‘ میں ہے: ’’کھانے کے بعد انگلیوں کو کاغذ سے پوچھنا مکروہ ہے‘‘ (ج۱۶؍ص ۱۱۹)مطبوعہ قادری کتاب گھر بریلی۔
’’فتاویٰ رضویہ‘‘ میں ’’محیط‘‘ کی ’’عبارت‘‘ یکرہ استعمال الکاغذ فی ولیمۃ یمسح بہا الاصابع‘‘ پر مفتی اعظم نور اﷲ مرقدہ نے حاشیہ پر لکھا: ’’ کھانے کے بعد کاغذسے ہاتھ پوچھنا نہ چاہئے‘‘ (ج۱؍ص ۳۰؍ رضا اکیڈمی) ’’عالمگیری‘‘میں ہے :حکی الحاکم عن الامام أنہ کان یکرہ استعمال الکواغذ فی ولیمۃ یمسح بہا الأصابع وکان یشدد ویزجر عنہ زجرا بلیغا کذا فی المحیط (عالمگیری ج۵؍ص ۵۸۸ مکتبہ زکریا)واللہ تعالیٰ اعلم۔
(۳) ٹیشو پیپر سے استنجا مکروہ تحریمی ہے کہ استنجا کے لئے منصوص اشیاء کے علاوہ ہر متقوم و محترم شئی سے استنجامکروہ تحریمی ہے علاوہ ازیں سنت نصاریٰ ہے اور ترک سنت مؤکدہ کی عادت خود کراہت تحریم کی موجب ہے ’’درمختار‘‘ میں ہے: وکرہ تحریما بعظم وطعام و روث یا بس کعذرۃ یابسۃ وحجر استنجی بہ، الا بحرف آخر و آجر و خزف وزجاج وشئی محترم ، علامہ شامی قدس سرہٗ السامی تحریر فرماتے ہیں:(قولہ وشئی محترم) أی مالہ احترام واعتبار شرعا فید خل فیہ کل متقوم الاالماء کما قدمنا ہ والظاہر أنہ یصدق بما یساوی فلسا لکراہۃ اتلافہ کما مر (درمختار و ردالمحتار ج ۱؍ص ۵۵۱و ۵۵۲ زکریا)واللہ تعالیٰ اعلم۔
(۴)ٹیشو پیپر کے استعمال پر نہ تعامل ہے اور نہ اس میں عموم بلوی ہے ۔ واﷲ تعالیٰ اعلم