شرعی کونسل آف انڈیا، بریلی شریف کا نواں فقہی سیمنار- ۲۰۱۲ء

سوالات
سوال نمبر ۱
مدارس میں فیس کی شرعی حیثیت:۔

اسکولوں، کالجوں،یونیورسٹیوں و دیگر دنیاوی اداروں میں ایڈمیشن، تعلیم و تدریس، طعام و قیام، لائبریری و کمپیوٹر و دیگر چیزوں کے عوض فیس لینے کا رواج بہت پہلے سے چلا آرہا ہے، دینی تعلیمی اداروںمیں آج سے چند سال پہلے تک ان چیزوں پر فیس لینے کا کوئی تصور نہیں تھا، ہمارے مشائخ و اکابر نے مدارس و ادارے قائم کیے، طلبہ کے قیام و طعام اور ان کی تعلیم و تربیت کا معقول انتظام کیا، انہوں نے سارے اخراجات عوامی چندیسے پورے کیے، اور عوامی اخراجات سے پورے نہ ہونے کی صورت میں،انہوں نے اپنا مال تک خرچ کر دیا، لیکن کبھی بھی ان طلبہ دین سے کسی قسم کی کوئی فیس وصول نہیں کی،ان کے زمانے میں چندے کی فراہمی کا مسئلہ بھی آج کی بنسبت کا فی دشوار تھا،اکثر مدارس مالی زبوں حالی کے شکار تھے،آج جب کہ مدارس کی مالی حالات کا فی بہتر ہو چکے ہیں، فطرہ و زکوۃ، صدقات و عطیات کی تحصیل کا دائرہ بھی خاصاوسیع ہواہے، اس باوجود مدارس ودینی اداروں کے ذمہ داران و منتظمین دینی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ سے کئی قسم کی فیس وصول کررہے ہیں،فیس وصول کرنے والے بعض مدارس میں طلبہ کے مستطیع و غیر مستطیع ہونے کا بھی لحاظ نہیں کیا جاتا۔ دنیاوی تعلیم گاہوں کے ذمہ داروں کو تو اس سے کوئی غرض ہی نہیں ہوتی کہ کیا جائز ہے اور کیا ناجائز، لیکن ہمارے مذہبی ادارے کیونکہ علوم دینیہ کے امین و محافظ ہیں، یہاں حلت و حرمت کے اسباق پڑھائے جاتے ہیں، اس لیے ہمارے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہم تمام معاملات کے بارے میں شریعت کا نقطہ نظر معلوم کریں اور پھر آئندہ کے لیے اسی روشنی میں لائحہ عمل تیار کریں۔ راقم الحروف پہلے مدارس میں لی جانے والی ان تمام فیسوں کا تذکرہ کرتا ہے،تا کہ اس کی روشنی میں مسئلہ مبحوث عنہا کے ہر ہر پہلوکا حکم شرعی تلاش کیا جاسکے، اور امت مسلمہ کی صحیح رہنمائی کی جاسکے۔ {فارم فیس برائے داخلہ}:۔یہ وہ مخصوص رقم ہے جو فارم دیکر ہر نئے طالب علم امیدوارداخلہ سے وصول کی جاتی ہے۔ {داخلہ فیس}:۔ہرامیدوار داخلہ کا اولا امتحان لیا جاتا ہے، کامیاب ہونے کی صورت میں وہ داخلے کا مجاز ہوجاتا ہے اور پھر اس سے بنام داخلہ فیس ایک مخصوص رقم وصول کی جاتی ہے۔ {تجدید داخلہ فیس}:۔فیس کی یہ رقم ہر قدیم طالب علم سے لی جاتی ہے، در حقیقت یہ رقم سابقہ داخلے کی برقراری کی توثیق ہوتی ہے۔ {مطبخ فیس}:۔جن طلبہ کے قیام و طعام کا انتظام ادارے کے جاب سے کیا جاتا ہے ان ے بنام مطبخ فیس ایک خاصی رقم وصول کی جاتی ہے، بعض مدارس میں یہ رقم داخلہ فیس کے ساتھ یک مشت وصول کر لی جاتی ہے، جب کہ بعض دوسرے مدارس میں یہ رقم ماہ بماہ لی جاتی ہے۔ {سند فیس}:۔ متعلقہ درجات(حفظ، قرأت، فضیلت) کی تعلیم سے فراغت حاصل کر نے والے طلبہ کو ادارہ کی جانب سے سند و مارکشیٹ دی جاتی ہے،اور اس کے عوض ان سے ایک مخصوص رقم لی جاتی ہے۔ {لائبریری فیس}:۔ دینی و دنیوی، ملکی و عالمی معلومات حاصل کرنے کے لیے،بعض مدارس میں ایک لائبریری ہوتی ہے، جس کی ترقی و فروغ کے لیے ہر طالب علم سے سالانہ کچھ رقم لی جاتی ہے، اور اس سے کتابیں، رسالے اور اخبار وغیرہ وغیرہ خریدے جاتے ہیں۔ {امتحان فیس}:۔ سہ ماہی، ششماہی اور سالانہ امتحان کے لیے طلبہ سے برائے امتحان کچھ رقم وصول کیے جاتے ہیں۔یہ رقم امتحان فیس کہلاتی ہے۔ {فاروڈنگ فیس}:۔ عربی، فارسی بورڈ کے امتحانات ،منشی، مولوی، عالم، کامل، اور فاضل میں شامل ہونے کے لیے ہر پرائیوٹ امیدوار سے ایک مخصوص رقم وصول کی جاتی۔جو بورڈ کی مقررہ فیس سے خاصی زائد ہوتی ہے۔اس کے بعد ہی بھرے ہوئے فارم کی توثیق ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں بعض مدارس میں ایک مخصوص رقم ان طلبہ سے بھی وصول کی جاتی ہے جو اپنی مطلوبہ منظور شدہ رخصت گذار کر بغیر کسی اطلاع کے تاخیر سے مدرسہ پہنچتے ہیں۔ {نوٹ}:۔ فیس وصول کرنے والے بعض مدارس میں طلبہ کے مستطیع اور غیر مستطیع ہونے کا بھی لحاظ نہیں کیا جاتا، دونوں قسم کے طلبہ سے فیس وضل کی جاتی ہے۔ ان تفصیلات کے بعد ارباب فقہ و افتا کی خدمات جلیلہ میں مندرجہ ذیل سوالات پیش کیے جا رہے ہیں،امیدہے کہ ان کا تسلی بخش جواب قلم بند فرما کر قوم و ملت کی بروقت رہنمائی فرمائیں گے، اور عند اللہ ماجور و مثاب ہوں گے۔
: سوالات
نمبر{۱} داخلہ فارم کی لین دین کا معاملہ کس عقدشرعی کے تحت آتا ہے، بیع ہے یا اجارہ یا کچھ اور؟اگر بیع ہے تو یہاں مبیع کیاہے؟ اس کی بیع صحیح ہے یا فاسد یا باطل؟؟ {۲} داخلہ فیس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اجارہ ہے یا تبرع؟ اگر یہ اجرت ہے تو یہ کس کی اجرت ہے؟ بہ ہر صورت یہ جائز ہے یا ناجا ئز؟ {۳} بنام مطبخ فیس طلبہ دین سے جو رقم وصول کی جاتی ہے،شرعاً اس کی حیثیت کیا ہے؟یہ رقم کھانے کی قیمت ہے یا قیام و طعام کی اجرت؟ اس کی بیع و اجارہ صحیح ہے یا فاسد؟، بہر حال طلبہ علوم دینیہ سے اس کی اجرت و قیمت لینا کیا جائز ہے؟جب کہ مدارس میں عموماً طلبہ کے قیام و طعام کا انتظام عوامی چندے سے کیا جاتا ہے۔ {۴} تجدید داخلہ فیس کس کا عوض ہے؟ یہ معاملہ عقود شرعیہ میں سے کس کے تحت آتا ہے؟؟ {۵} سند و مارکشیٹ مال ہے یا وثیقہ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ {۶} امتحان فیس یوں ہی فاروڈنگ فیس لینے دینے کا معاملہ کس عقد شرعی میں داخل ہے؟بیع ہے، اجارہ، تبرع ہے یا کچھ اور؟ بہر حال اس کا لینا کیسا ہے؟ {۷} رخصت گذار کر بلا اطلاع تاخیر سے مدرسہ پہنچنے والے طلبہ سے جو رقم لی جاتی ہے شرعی پر وہ رقم جرمانہ ہے یا کچھ اور،پھر کیا اس کا لینا جائزہے؟ {۸} ان تمام معاملات میں مستطیع و غیر مستطیع دونوں قسم کے طلبہ سے فیس وصول کرنے کا حکم یکساں ہوگا یا الگ الگ؟ {۹} فقہا متاخرین نے دینی امور کے تحفظ و بقا کے لیے تعلیم قرآن، امامت و اذان وغیرہ پر اجرت لینے کو جائز قرار دیا ہے،اسی طرح سے نظام تعلیم کو منظم و مستحکم کرنے کے لیے کیا مذکورہ فیس لینے کی اجازت ہو گی؟ عدم جواز کے صورت میں ان معاملات سے حاصل شدہ رقوم کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟ {۱۰}کیا مدارس کی استطاعت مالی کم یا مفقود ہونے کی صورت میں احکام میں فرق ہوگا یا نہیں؟ {۱۱} مذکورہ معاملات میں کل یا بعض کے عدم جواز کی صورت میں اگر اس کے جواز کا کوئی حیلہ ہو تو اسے بھی قلم بند فرمائیں۔
: جزئیات
مندرجہ ذیل فقہی عبارات ان مسائل کے حل کے لیے معاون ثابت ہو سکتے ہیں ۔ ٭اما تعریفہ (ای البیع) فمبادَلۃ المال بالمال بالتراضی ، کذا فی الکافی (فتاوی ہندیہ ج۳ ص۲) ٭ و منہا (ای من شرائط الانعقاد) فی البدلین و ہو قیام المالیۃ حتی لا ینعقد عند المالیۃ ہکذا فی محیط السرخسی (عالمگیری ج۳ص۲) ٭ ما تفسیرہا (ای الاجارۃ) شرعاً فہی عقد علی المنافع بعوض (ہدایہ ج۳ ص۲۷۷) ٭ و اما شرائط لصحۃ فمنہا رضا المتعاقدین (عالم گیری ج۴ ص ۴۱۱) ٭ و منہا (ای شرائط الصحۃ) ان لا یکون المستاجر لہ فرضاً و لا واجباً علی الاجیر قیل لا اجارۃ، فان کان فرضاً او واجباً قبلہا لم یصح (ایضاً)۔ ٭ و منہا (ای شرائط الانعقاد) الملک و الولایۃ فلا تنفذ اجارۃ الفضولی لعدم الملک و الولایۃ (ایضاً)۔ ٭ المال عین یمکن احرازہا و امساکہا (فتح القدیر ج ۶ ص ۶۴) فتاوی رضویہ میں بحوالہ ہندیہ ہے۔ لا یجوز بیع الکلا او اجارۃ و ان کان فی ارض مملوکۃ اذا نبتت بنفسہ فاذا کان سقی الارض و اعدہا بلا نبات فنبتت ففی الذخیرۃ و المحیط و النوازل یجوز بیعہ لانہ ملکہ و ہو مختار الصدر الشہید (ج۸ص۱۳۸) ٭ و بعض مشائخنا استحسنوا الاستیجار علی تعلیم القرآن الیوم لانہ ظہر التوانی فی الامور الدینیہ ففی الامتناع عنہ یضیع حفظ القرآن و علیہ الفتوی (ہدایہ ج؍ص ۲۸۷) ٭ فتاوی رضویہ میں ہے۔فان ائمتنا لا یقولون التعزیر بالمالوو علی القول بہ فذاک للامام دون العوام (ج۹؍ نصف اول ص ۴۳)۔اسی میںہے: ولاجبر علی المتبوع۔ (۸؍۲۵۱) شامی میں ہے:۔ معنی التعزیر باخذ المال علی القول بہ امساک شی من مالہ عند مدۃ لینزجر ثم یعیدہ الحاکم الیہ لا ان یاخذ الحاکم لنفسہ او لبیت المال کما یتوہمہ الظلمۃ اذ لا یجوز لاحد من المسلمین اخذ مال احد بغیر سبب شرعی ۔ شرح معانی الاثار امام طحاوی پھر مجتبی ابن عابدین میںہے۔’’التعزیر بالمال کان فی ابتداء الاسلام ثم نسخ ‘‘ (فتاوی رضویہ ج ۸ ص۱۷۰) ماضی قریب کے عظیم اور نامور فقیہ و محدث امام احمدرضا خان علیہ الرحمۃ الرضوان۔سرکاری اسٹامپ پیپرکی خرید و فروخت کے تعلق سے کئے گئے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں: ’’یہ تجارت اکثرصورتوں میں خالی از خباثت نہیں، اللہ عزوجل نے جواز تجارت کے لیے تراضی باہمی شرط فرمائی ، قال اللہ تعالیٰ یا ایہا الذین امنوا لا تاکلو ا اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ عن تراضی منکم جناب سید عالم فرماتے ہیں: ’’لا یحل مال امری مسلم الا بطیب نفسہ‘‘ ۔ (اور فرماتے ہیں) ’’لا یعل لمسلم ان یاخذعصا اخیہ بغیر طیب نفس منہ ۔ قال ذالک لشدۃ ما حرم اللہ من مال المسلم علی المسلم۔ظاہر ہے کہ آدمی نالش اپنے استخراج حق کے لیے کرتا ہے جب کہ خود اس کی تحصیل پر قادر نہیں ہوتا۔ یہ معنی اگر چہ منافی اختیار نہیں کہ کسی نے اس پر اپنے حق لینے کا جبر نہ کیا تھا، اسے اختیار تھا کہ بالکل خاموش رہتا، تو یہ صرف نہ پڑتا، مگر مفسد رضا بے شک ہے کہ اگر بے اس کے اگر وصول ممکن جانتا ہرگز اختیار نہ کرتا، اختیار رضا میں زمین آسمان کا فرق ہے، اور عقود بیع و شراء و ہبہ و امثالہا صرف بے اختیاری سے ہی فاسد نہیں ہوتے۔ بلکہ عدم رضا بھی ان کے فسادکو بس ہے، کما مر فی قولہ تعالیٰ : ’’عن تراضی منکم‘‘ ، و فی الحدیث ’’الا بطیب نفسہ‘‘درمختار میں ہے: ’’الاکرہ الملجی و غیر الملجی یعدمان الرضا و الرضا شرط لصحۃ ہذہ العقود‘‘یہ خریداری ہر گز بطیب خاطر نہیں ہوتی، اور جو روپیہ اس کے بدلے نذر فروشندگان ہوتا ہے، زنہار رضائے قلب سے نہیں لیا جاتا، تو بحکم قرآن و حدیث اسے مال حلال و طیب نہیں کہہ سکتے، اس کا سہل سا ایک امتحان یہ ہے کہ مثلاً اس کاغذ ہی کی نسبت ریاست کا حکم ہوجائے کہ ضروری نہیں سادے پر بھی دعوی سن لیں گے، پھر دیکھئے کتنے خریدنے جاتے ہیں، حاشا کلا، کوئی پا س بھی نہ پھٹکے گا، کہ بلا وجہ اپنا خرچ کسے بھاتا ہے، تو قطعاً عدم رضا دائمی و ابدی ہے، اور یہ شرائے مکرہ کی حالت میں ہے، و بعد اللتیا و اللتی عدم رضا وہ فقدان طیب نفس میں کلام نہیںاور اسی قدر انعدام حلت میں کافی، بالجملۃ فقیر غفر لہ جہان تک نظر کرتا ہے اس تجارت کے مطلقاً حلال و طیب ہونے کی راہ نہیں پاتا۔ (فتاوی رضویہ مع حذف ج۷؍ ص ۲۸؍۲۹؍۳۰ رضا اکیڈمی ممبئی)۔
محمد رفیق عالم رضوی
استاذ جامعہ نوریہ رضویہ باقر گنج بریلی شریف
سوال نمبر ۲
شوال میں عمرہ کرنے والے پر استطاعت کے بغیر حج فرض ہونے کی شرعی حیثیت :۔
ہمارے زمانہ میں یہ مشہور ہے کہ جس شخص نے پہلے حج نہ کیا ہو، وہ اگر ماہ شوال میں عمرہ کرے تو اس پر حج فرض ہو جاتا ہے، خواہ اس کے پاس ایام حج تک وہاں ٹھہرنے کا اور کھانے پینے کی استطاعت نہ ہو، اور خواہ اس کے پاس وہاں ٹھہرنے کے لیے سعودی عرب کا ویزا نہ ہو، اگر وہ حج کیے بغیر واپس آگیا تو اس کے ذمہ حج فرض ہوگا، اور اس پر لازم ہے کہ وہ کسی سے قرض لے کر یا کسی بھی طرح حج کرے، اگر اس نے حج نہیں کیا اور مر گیا تو گنہگار ہوگا، جبکہ قرآن مجید میں ہے کہ ’’ وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلاً‘‘ اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا ہے جو اس تک چل سکے۔ (اٰل عمران ۹۷)۔ اس آیت کریمہ کے تحت حضور صدرالافاضل علامہ سید نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں :۔ ’’اس آیت میں حج کی فرضیت کا بیان ہے، اور اس کا کہ استطاعت شرط ہے۔ حدیث شریف میں کہ سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کی تفسیر زاد و راحلہ سے فرمائی ہے، زاد یعنی توشہ، کھانے پینے کا انتظام اس قدر ہونا چاہیے کہ جاکر واپس آنے تک کے لیے کافی ہو،اور یہ واپسی کے وقت تک اہل و عیال کے نفقہ کے علاوہ ہونا چاہیے، راہ کا امن بھی ضروری ہے، کیوں کہ بغیر اس کے استطاعت ثابت نہیں ہوتی‘‘۔ (خزائن العرفان ص ۱۰۰ مطبوعہ رضا اکیڈمی)۔ اس آیت سے واضح ہوگیا کہ استطاعت کے بغیر حج فرض نہیں ہوتا۔ استطاعت کی تفسیر و تشریح و توضیح میں فقیہ اعظم ہند حضور صدرالشریعہ علامہ مفتی محمد امجد علی قادری برکاتی رضوی علیہ الرحمۃ الرضوان رقمطراز ہیں : ’’سفر خرچ اور سواری پر قادر ہونے کے یہ معنی ہیں کہ یہ چیزیں اس کی حاجت سے فاضل ہوں، یعنی مکان و لباس و خادم اورسواری کا جانور۔ اور ہمیشہ کے اوزار اور خانہ داری کے سامان، اور دین سے اتنا زائد ہو کہ سواری پر مکہ معظمہ جائے، اور وہاں سے سواری پر واپس آئے، اور جانے سے واپسی تک عیال کا نفقہ اور مکان کی مرمت کے لیے کافی چھوڑ جائے، اور جانے آنے میں اپنے نفقہ اور گھر اہل و عیال کے نفقہ میں قدر متوسط کا اعتبار ہے، نہ کمی ہو نہ اسراف ، عیال سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا نفقہ اس پر واجب ہے، یہ ضروری نہیں کہ آنے کے بعد بھی وہاں اور یہاں کے خرچ کے بعد بھی کچھ بچے‘‘۔ (درمختار ، عالمگیری، بہار شریعت ج۱ ؍مطبوعہ فاروقیہ بکڈپو دہلی ص۱۰) فتاوی ہندیہ میں ہے:۔ ’’ ومنہا القدرۃ علی الزاد و الراحلۃ۔ و تفسیر ملک ، الزاد والراحلۃ ان یکون لہ مال فاضل عن حاجتہ و ہو ما سوی مسکنہ و لبسہ و خدمہ و اثاث بیتہ قدر ما یبلغہ الی مکۃ ذاہباً و جائیاً راکباً ، لا ماشیاً ، و سوی ما یقضی بہ دیونہ و یمسک لنفقۃ عیالہ و مرمۃ مسکنہ الی وقت انصرافہ کذا فی محیط السرخسی و یعتبر فی نفقتہ و نفقۃ عیالہ الوسط من غیر تبذیر و لا تقتیر ۔ کذا فی التبیین۔ و العیال من تلزمہ نفقتہ کذا فی البحر الرائق‘‘ ( جلد ۱ ص۲۱۷ مکتبہ زکریا دیوبند سہارنپور)۔ بہار شریعت اور فتاوی عالم گیری کی مذکورہ فقہی عبارت سے واضح ہو گیا کہ شوال میں عمرہ کرنے والے جس شخص کے پاس حج کرنے تک مکہ مکرمہ میں ٹھہرنے اور طعام کی استطاعت نہیں ہے تو اس پر حج فرض نہیں ہوناچاہیے، امام دارمی روایت کرتے ہیں :’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کو حج کرنے سے کوئی ظاہری حاجت (طعام، قیام اور سفر خرچ کی کمی) مانع نہ ہوئی نہ ظالم بادشاہ ، نہ کوئی ایسی بیماری جو حج سے مانع ہو، وہ شخص اس حال میں مرجائے کہ اس نے حج نہ کیا ہو تو خواہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر‘‘۔ اس حدیث کو حافظ منذری اور حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمۃ الرضوان نے بھی ذکر کیا ہے، حدیث پاک کے اصل الفاظ یہ ہیں ’’عن ابی امامہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم من لم یمنعہ من الحج حاجۃ ظاہرۃ او سلطان جائر او مرض حابس فمات و لم یحج فلیمت ان شاء یہودیاً و ان شاء نصرانیاً رواہ الدارمی (مشکوۃ شریف ج۱ ص۲۲۲، کتاب المناسک مطبع اصح المطابع، سنن دارمی ج۱ص۳۶۰) اس حدیث میں یہ تصریح ہے کہ ظالم بادشاہ کے منع کرنے سے بھی حج فرض نہیں ہوتا، اور جو شخص شوال میں واپسی کا ویزا لے کر عمرہ کرنے گیا ہے اس کو سعودی حکام حج کرنے سے منع کرتے ہیں، وہ لوگوں کی تلاشی لیتے رہتے ہیں اور جو پکڑا جائے اس کو پہلے گرفتار کر کے سزا دیتے ہیں، پھر واپس اس کے ملک بھیج دیتے ہیں، اس لیے شوال میں عمرہ کرنے والے پر حج فرض کہنا اس حدیث کے بھی خلاف ہے، نیز جو نادار آدمی کسی کی طرف سے حج بدل کرتا ہے، وہ حج کے ایام میں مکہ مکرمہ پہنچ جاتا ہے، اگر صرف حج کے ایام میں مکہ مکرمہ پہنچ جانے سے حج فرض ہوجاتا تو حج بدل کرنے والے نادارر پر بھی حج فرض ہونا چاہیے، حالانکہ اس کا کوئی قائل نہیںہے، نیز شوال حج کا مہینہ ہے، اور فقہا نے لکھا ہے کہ حج کے مہینوں میں صرف عمرہ کرنا جائز ہے، عالمگیری میں لکھا ہے کہ :’’ المفرد بالعمرۃ یحرم للعمرۃ من المیقات او قبل المیقات فی اشہر الحج او فی غیر اشہر الحج‘‘ صرف عمرہ کرنے والا میقات سے عمرہ کا احرام باندھے یا میقات سے پہلے حج کے مہینوں میں یا حج کے مہینوں کے علاوہ۔ (عالمگیری ج۱ص۲۳۷، مطبوعہ مطبع امیریہ کبریٰ بولاف مصر ۱۳۱۰ ؁ ھ)۔ اور اس جگہ یہ نہیں لکھا کہ جو شخص حج کے مہینوں میں صرف عمرہ کرے اس پر حج لازم ہوتا ہے،حالانکہ موضع بیان میں بیان کرنا لازم ہوتا ہے۔اس مسئلہ میں بعض فقہائے کرام نے فتوی دیا کہ شوال میں عمرہ کرنے پر حج فرض ہوجاتا ہے۔ اورتائید میں فتاوی ہندیہ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ :’’ مکہ مکرمہ اور اس کے اردگرد رہنے والوں پر حج فرض ہوجاتاہے، خواہ ان کو سواری پر قدرت نہ ہو، بہ شرطیکہ وہ خود چل سکتے ہوں۔ اول:۔ تو ہمارا کلام اس شخص کے بارے میں ہے جو یہاں سے عمرہ کے لیے جاتے ہیں، کیونکہ حج کرنے تک رہائش اور کھانے کی استطاعت اسی سے متعلق ہے، مکہ میں رہنے والوں کے لیے رہائش کی استطاعت کا مسئلہ نہیںہے۔ ثانیاً :۔ فتاوی ہندیہ کی پوری عبارت کچھ اس طرح ہے :’’و فی الینابیع یجب الحج علی اہل مکۃ و من حولہا ممن کان بینہ و بین مکۃ اقل من ثلاثۃ ایام اذا کانوا قادرین علی المشی و ان لم یقدروا علی الراحلۃ ولکن لابد ان یکون لہم من الطعام مقدار ما یکفیہم و عیالہم بالمعروف الی عودہم کذا فی السراج الوہاج‘‘ (فتاوی عالم گیری ج۱ص۲۱۷ مکتبہ زکریا سہارنپور دیوبند)۔ ینابیع میں مذکور ہے اہل مکہ اور تین دن کی مسافت سے کم اس کے گرد رہنے والوں پر حج کرنا واجب ہے، جبکہ وہ چلنے پر قوت رکھتے ہوں، خواہ ان کو سواری پر قدرت نہ ہو، لیکن یہ ضروری ہے کہ ان کے پاس دستور کے مطابق طعام کی اتنی مقدارہو جو ان کے اور ان کے اہل و عیال کے لیے واپس آنے تک کے لیے کافی ہو۔ غور فرمائیں جب اہل مکہ اور اس کے اردگرد رہنے والوں پر بھی واپس آنے تک طعام کی استطاعت کے بغیر حج فرض نہیں ہے، تو دوردراز کے علاقوں سے مکہ مکرمہ پہنچنے والوں پر رہائش اور طعام کی استطاعت کے بغیر حج کیسے فرض ہوگا، اس تفصیل سے ظاہر و عیاں ہو گیا کہ شوال میں عمرہ کرنے والے پر بغیر استطاعت کے حج فرض نہیں ہو نا چاہیے۔بہر حال تفصیل مذکور کے تناظر میں علمائے کرام و مفتیان عظام کی بارگاہ علم و فضل میں چند سوالات حاضر کیے جارہے ہیں۔ ان کے علمی و تحقیقی جوابات سے نوازکر شرعی کونسل آف انڈیا بریلی شریف کا علمی و فقہی تعاون فرمائیں ۔
سوالات
سوال {۱} جس شخص نے ابھی حج فرض ادا نہ کیا ہو وہ اگر ماہ شوال میں عمرہ کرے تو کیا اس پر حج فرض ہو جاتا ہے؟ جب کہ اس کے پاس ایام حج تک وہاں ٹھہرنے اور کھانے پینے کی استطاعت نہ ہو، اور اس کے پاس وہاں ٹھہرنے کے لیے سعودی عرب کا ویزا بھی نہ ہو۔ اگر وہ حج کیے بغیر واپس آگیا تو کیا اس کے ذمہ حج فرض ہوگا؟ کیا اس پر لازم ہے کہ وہ کسی سے قر ض لے کر یا کسی بھی طرح حج کرے؟ اگر اس نے حج نہیں کیا اور مر گیا تو کیا وہ شخص گنہگار ہوگا؟ {۲}شخص مذکور نے اگرماہ شوال میں عمرہ کیا ،اور اس کے پاس ایام حج تک وہاں ٹھہرنے کے لیے سعودی ویزا توہے مگر ایام حج تک اس کے خود کے کھانے پینے کی استطاعت نہیں، تو کیا ایسی صورت میں اس پر حج کرنا فرض ہو گا؟ {۳}شخص مذکور نے ماہ شوال میں عمرہ کیا ،اور ایام حج تک کا س کے پاس سعودی ویزا بھی ہو، اور اپنے کھانے پینے کی استطاعت بھی ہو، مگر اہل وعیال کے قدر متوسط نفقہ کی اس کے پاس استطاعت نہیں تو کیا ایسی صورت میں اس پر حج کرنا فرضـ ہوگا؟ {۴}حج بدل کرنے والے نادار فقیر پر کیا اپنا حج کرنا فرض ہے؟ کہ وہ مکہ مکرمہ میں سال بھر رکے، دوسرے سال حج ادا کرے؟۔ اور اگر واپس آگیا تو کیا دوسرے سال اس پر حج کے لیے جانا فرض ہوگا ؟ جب کہ وہ نادارو فقیر ہے؟ {۵}جوشخص رمضان شریف میں عمرہ کو گیا اور مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران ہی عیدالفطر کا چاند نظر آگیا تو کیا اس پر اس سال حج فرض ہوگیا؟ {۶}رمضان شریف میں عمرہ کو جانے والااگر ایام حج تک رکنے (ویزا) اور قیام وطعام کی استطاعت نہیں رکھتاتو کیا اس پر لازم ہے کہ یکم شوال سے پہلے حدود حرم یا میقات سے باہر ہوجائے؟

محمد عالمگیر رضوی مصباحی
دارالعلوم اسحاقیہ جودھپور راجستھان
سوال نمبر ۳
میڈیکل لیبا ریٹری اور اطباکے مابین کمیشن کا شرعی حکم:۔
مغرب کی تھوپی ہوئی بلائوں میں سے ایک بڑی بلا حرصِ زرو دنیا طلبی بھی ہے۔یہ ایسی طلب و تحصیل ہے جس میں شرعی قیودو حدود کا پاس ولحاظ نہیں ہوتا، دنیا کی رنگارنگی اور چمک دمک نے مسلمانوں کی نگاہوں کو بھی خیزہ کردیا ہے اور وہ نفس جس کو مقہور ومغلوب رکھنے کاحکم ہے۔ وہ ان رنگینیوں میں گم ہے،مغرب کاپیدا کردہ ماحول انسان کو اپنے دام فریب میں مبتلا کرکے عیش وعشرت کا دل دادہ بنا رہا ہے، اور یہی غیرشرعی،بے اعتدالی اور دنیا طلبی کی شاہ راہ ہے۔شریعت مطہرہ نے اسباب رزق کی تلاش اورمال و زر کی تحصیل سے منع نہیں فرمایا مگر شرط یہ رکھی کہ وہ طریقہ جائز ہو، رواہو۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: فاذا قُضیتِ الصلٰوۃ فانتشروافی الارض وابتغوا من فضل اللّٰہ (جمعہ،۱۰) یایھاالذین امنوا کلوامن طیبات مارزقناکم(بقرہ ،۷۲ا)ناجائز طریقے سے مال جمع کرنا ناجائز وحرام بھی ہے، اور استحقاقِ نار کا باعث بھی۔ ارشاد ہے۔یایھاالذین آمنوا لاتاکلوا اموالکم بینکم بالباطل (بقرہ،۱۸۸)غیر اسلامی ماحول وفکر نے کاروبار حیات میں ایسی وسعت وپھیلاؤ پیداکردی ہے۔ کہ اسلام سے وابستہ افراد بھی’ سوائے ان کے جنہیں اللہ عزوجل نے محفوظ رکھا ہے‘ اس وسعت میں کھوئے جارہے ہیں، اور طلب زرکی نحوست سے حلال وحرام کا امتیاز بھی مٹتا جارہا ہے، والعیاذباللہ تعالیٰ۔ تحصیل مال کے مروجہ طریقوں میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے، جس کا تعلق میڈیکل لیبا ریٹری اور اطبا(ڈاکٹر )سے ہے،پہلے زمانے میں مرض کی تشخیص قارورہ یا اس جیسی چیزوں کو دیکھ کر کی جاتی تھی اور اس طرح اطبا اپنے تجربہ کی بناپر مرض کی تشخیص پھر اس کے ازالہ کی خودہی تدبیر کرتے تھے۔ لیکن موجودہ دور سائنس وٹکنا لوجی کا دور ہے، اب مرض کی تشخیص کا تجربہ پر مبنی قدیم طریقہ متروک ہو چکا ہے اور اس کی جگہ لیبا ریٹری اور سائنسی آلات نے لے لی ہے، جن کامرض کے انکشاف میں کلیدی رول ہوتاہے، ڈاکٹر اہم بیماریوںکی تشخیص از خود نہیں کرپاتا بلکہ اس کے لئے لیبا ریٹری کی مدد لینا ناگریز سمجھتا ہے، ان لیبا ریٹری سائنسی آلات کے مختلف نام ہوتے ہیں، مثلاًایکسرے مشین، الٹرا ساؤنڈ،بلڈویورین،ٹسٹ مشین وغیرہ، ان مشینوں کے چلانے والے بالعموم وہ اطبا (ڈاکٹر) نہیں ہوتے جو دوا علاج کرتے ہیں،نسخہ لکھتے ہیں۔ بلکہ ان مشینوں سے متعلق علم وتجربہ رکھنے والے الگ ہوتے ہیں جنہیں پیھتولجسٹ(Pathologyst)وغیرہ کہاجاتا ہے، جب مریض کسی ڈاکٹر وطبیب کے پاس پہونچتا ہے، اور ڈاکٹر محض ظاہری علامات واحوال سے مرض کی تشخیص نہیں کرپاتا یا انہیں اپنی تشخیص پر اطمینان حاصل نہیں ہوتا تووہ ایک مخصوص کاغذ یاسادے کاغذ میں چیک اپ(Checkup)کے لئے کسی خاص لیب(Lab)کاپتہ دیتاہے، مریض وہیں جاتاہے اور الٹراسائونڈ، ایکسرے یا بلڈٹسٹ وغیرہ کراکے اس کی رپورٹ لے کر متعلقہ ڈاکٹر کے پاس پہنچتا ہے۔ اس قسم کے لیب چونکہ متعدد ہوتے ہیں اور رفاہی نہیں بلکہ کاروبار ی نوعیت کے ہوتے ہیں مریض جتنی تعداد میں جانچ کراتے ہیں میڈیکل لیبا ریٹری والوں کو اتنا فائدہ ہوتا ہے ۔ اس لئے ڈاکڑوں اور جانچ کرنے والوں میں ایک خفیہ معاہدہ ہوتا ہے، وہ ہے کمیشن کا معاہدہ جس میں جانچ فیس کے تناسب سے ڈاکٹر کو کمیشن ملتاہے، اور کمیشن کی مقدار باہم رضامندی سے طے ہوتی ہے، جب مریض الٹرا سائونڈ، ایکسرے، یاخون پیشاب وغیرہ کی رپورٹ لے کر ڈاکٹر کے پاس پہنچتے ہیں، توڈاکٹر طے شدہ کمیشن لیب والے سے لیتے ہیں۔ یہ کمیشن دلاّلی ہے یااجارہ یا کچھ اور؟ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ یہ معاملہ اجارہ کا ہو ، یعنی ڈاکٹر لیب والے کا اجیر ہوا ور طے شدہ کمیشن اس کی اجرت ، اس صورت میں بنیادی بات یہ طے کرنے کی ہے کہ ڈاکٹر کا وقت بک رہا ہے یا کام ؟ یعنی وہ اجیر مشترک ہے،یااجیر خاص؟۔ اجیر خاص کو اردو میں ملازم کہتے ہیں اور اجیر مشترک پیشہ ور کو۔ در مختار میں ہے:’’الاجرائُ علی ضربین مشترک وخاص فالاول من یعمل لا لواحد کالخیاط ونحوہ أو یعمل لہ عملاً غیر موقت کأن استاجرہ للخیاطۃ فی بیتہ غیر مقید ۃ بمدۃ کان أجیراً مشترکا وان لم یعمل لغیرہ او موقتا بلا تخصیص کأن استاجرہ لیرعی غنمہ شہراً بدرہم کان مشترکاً‘‘(ص۸۷ج ۹)اسی میں ہے: والثانی وھو الاجیر الخاص ویسمی أجیر واحد وھو من یعمل لواحد عملاً مؤقتا بالتخصیص ویستحق الأجر بتسلیم نفسہ فی المدۃ وان لم یعمل کمن استؤجرشہراً للخدمۃ أو شہراً لرعی الغنم المسمی بأجر مسمی‘‘(ص۹۱۹۴) فتاویٰ رضویہ میں ہے: ’’شرع میں اجیر ،اجیر خاص، واجیر مشترک، دونوں کو عام ہے، اجیر خاص کو اردو میں ملازم او رنوکر کہتے ہیں اجیر مشترک پیشہ ور کہ اجرت پر ہر شخص کا کام کرتے ہیں، کسی خاص کے نوکر نہیں، جیسے راج مزدور، بڑھئی درزی وغیرہم، ملازم کا اگر وقت معین کیاجائے مثلاً صبح سے شام تک یا رات کے نو بجے تک یا مدرسوں کی نوکری ہے مثلا ۶؍بجے سے ۱۲؍تک پھر ۲؍بجے سے ۵؍بجے تک تووہ اتنے ہی گھنٹوں کا ملازم ہے، مقررہ گھنٹوں کے علاوہ خود مختار ہے، کہ اس کا اتناہی وقت بکا ہے۔ ملازم جو کسی کار خاص پر ہو جیسے مدرس،اس سے وہی خاص کام لیاجائے گا دوسرے کام کو کہا جائے تو اس کا ماننا اس پر لازم نہیں،ہاں خدمتگار ہرگونہ خدمت کرے گا،مقید نہ ہونا صرف اجیر مشترک راج، بڑھئی ، اور ان کے امثال میں ہے، جن کاکام بکتا ہے، وقت نہیں بکتا،(ص۱۷۵؍ج۸) تو صورت مذکورہ میں کمیشن لینے والے ڈاکٹروں کو کس خانے میں رکھا جائے؟ اجیرمشترک میں یا اجیر خاص میں؟پھر یہ کہ یہ اجارہ صحیح ہے یا نہیں؟ یہ اجرت کس چیز کی ہے؟ وقت کی یا معین کام کی؟ دوسری صورت یہ ہے کہ یہ دلّالی (کمیشن ایجنٹی )ہو، دلّالی اگر صحیح ہے تو دلّال اجرت کا مستحق ہوتاہے، مگر اجرت مثل کا ،نہ کہ باہم جواجرت مقرر ہوئی ہے، پھر یہ اجرت مثل بھی اجرت مُسمّٰی سے زائد نہ ہوگی۔ الاشباہ والنظائر میں ہے:بعہ لی بکذاولک کذا فباع فلہ اجرالمثل۔غمز العیون میں ہے۔ای ولایتجاوز بہ ماسمی وکذا لو قال اشترلی کما فی البزازیہ وعلی قیاس ھذاالسماسرۃ والدلالین الواجب اجرالمثل کما فی الولوالجیۃ (ص۱۳۱الجزء الثالث ) قاضی خاں میں ہے:۔قال ابوالقاسم البلخی ان کان الدلال عرض وتعنی وذھب فی ذالک روزکارہ کان لہ اجرمثلہ بقدر عنائہ وعملہ (ج۲؍ص۳۲۶) اور اگر دلالی صحیح نہیں ہے تو دلال اجرت کا بالکل مستحق نہ ہوگا۔اشباہ لابن نجیم میں ہے: من دلّنی علی کذا فلہ کذا فہو باطل ولاأجرلمن دلہ (ج ۳؍ص۱۲۸) یوںہی دلال نے کام میں کوئی محنت اور کوشش نہ کی دوادوش نہ کی صرف گفتگو یا اشارے سے رہنمائی کی جب بھی اجرت کا مستحق نہیں۔ردالمحتار میں ہے: الدلالۃ والاشارۃ لیست بعمل یستحق بہ الاجروان قال علی سبیل الخصوص بأن قال لرجل بعینہ ان دللتنی علی کذا فلک کذا، ان مشی لہ فدلہ فلہ اجر المثل للمشی لأجلہ لان ذالک عمل یستحق بعقدا لاجارۃ الا انہ غیرمقدر بقدر فیجب اجرالمثل وان دلہ بغیر مشی فھووالاول سواء (ج۹؍ص۱۳۱) فتاویٰ رضویہ میںہے: ’’ اگر کارندہ نے اس بارہ میں جومحنت وکوشش کی وہ اپنے آقا کی طرف سے تھی، بائع کے لئے کوئی دوا دوش نہ کی اگرچہ بعض زبانی باتیں اس کی طرف سے بھی کی ہوں مثلاًآقا کو مشورہ دیاکہ یہ اچھی چیزہے، خرید لینی چاہئے یااس میں آپ کا نقصان نہیں، اور مجھے اتنے روپئے مل جائیں گے، اس نے خریدلی جب تو یہ شخص عمروبائع سے کسی اجرت کا مستحق نہیں کہ اجرت آنے جانے محنت کرنے کی ہوتی ہے، نہ بیٹھے بیٹھے دوچار باتیں کہنے، صلاح بتانے ،مشورہ دینے کی،اور اگر بائع کی طرف سے محنت وکوشش ودوادوش میں اپنا زمانہ صرف کیا اجر مثل کا مستحق ہوگا،یعنی ایسے کام میںاتنی سعی پر جو مزدوری ہوتی ہے اس سے زائد نہ پائے گا اگرچہ بائع سے قرار داد کتنے ہی زیادہ کاہو اور اگر قرار داد اجرمثل سے کم کا ہوتو کم ہی دلائیں گے کہ سقوط زیادت پر خودراضی ہوچکا۔(ملخصاً ص۱۴۶؍ج۸) اور اگر دلال محنت وکوشش کرے اور اجرت بطور کمیشن طے کرے کہ اتنے میں اتنا لوں گا یہ ناجائز وحرام ہے ۔ردالمحتار میں ہے: قال فی التاتار خانیہ فی الدلال والسمسار یجب اجرالمثل وماتواضعوا علیہ ان فی کل عشرۃ دنا نیر کذا فذلک حرام علیھم (ج ۹؍ص۸۷باب ضمان الأجیر) پھر اس صورت میں کئی مفسدے ہیں ایک تو اجرت مجہول ہوتی ہے، دوسرے قفیز طحان کی صورت بھی پائی جاتی ہے۔ فتاویٰ امجدیہ میں سفراء کے کمیشن کے تعلق سے ہے: سفرا کو جودیاجاتا ہے اگریہ بطور اجرت ہوتو ناجائز ہے کہ اولا یہ قفیز طحان کی صورت ہے اور مجہول بھی ہے،(ص۳۰۰ج۴) مذکورہ تفصیل کی روشنی میں چند سوالات آپ کی خدمت میں پیش ہیں ،اس امید پر کہ ان کے تحقیقی جوابات سے شرعی کونسل کوشاد کام فرمائیں گے۔
سوالات
سوال (۱) اطبا(ڈاکٹروں)کالیباریٹری سے یہ کمیشن لینا ایجنٹی ودلالی ہے یا اجارہ یا کچھ اور؟اور بہر صورت جائزہے یا ناجائز؟ اگرناجائزہے تو اس کے جواز کا کوئی حیلہ آپ کی نظر میں ہے یا نہیں۔ (۲)اسی ضمن میں یہ سوال بھی ہے کہ ڈاکٹر نسخہ لکھ کر مریض کو دیتے ہیں اورکسی مخصوص میڈیکل اسٹورکا پتہ بتاتے ہیں، جہاں سے ڈاکٹر کوکمیشن ملتاہے اس کی شرعی حیثیت کیاہے؟ اور وہ جائزہے یانہیں؟۔ بینواوتوجروا

آل مصطفیٰ مصباحی
جامعہ امجدیہ رضوی گھوسی
-----------------------------------------------------------------------------------------

جوابات/فیصلے
جواب نمبر ۱
مدارس میں فیس کی شرعی حیثیت:۔
جواب ۱- داخلہ فارم اگرچہ مال ہے مگر اس کی بیع دلالۃً عدم رضائے متعلم کی وجہ سے ناجائزہے جیسے مقدمہ کی نالش کے لئے اسٹامپ پیپر کی بیع ناجائز ہے۔ یہی حال داخلہ فارم کی بیع کا ہے ۔ واﷲ تعالیٰ اعلم (۲/۴)- داخلہ فیس اجازت تعلم کے لئے ہوتی ہے اور اذن تعلم بیع واجارہ کے قابل نہیں اس لئے داخلہ فیس لینا ناجائز ہے۔ یہی حکم تجدید داخلہ فیس کا بھی ہے۔واﷲ تعالیٰ اعلم (۳)- مطبخ فیس: جو طلبہ معاوضۂ خوراک کے نام پر روپئے مدرسہ میںجمع کرتے ہیں وہ ناظم کو اس رقم سے اپنے کھانا تیار کرنے کا وکیل عام بناتے ہیں کہ ناظم ان کے کھانے کا انتظام کرے خواہ وہ معاوضہ دینے والے اور معاوضہ نہ دینے والے کے کھانوں کا انتظام ایک ساتھ کرے یا الگ الگ کرے، بہر صورت وہ رقم لینا جائز ہے خواہ معاوضہ دینے والا طالب علم کھانا تیار ہونے کے بعد کھانا کھائے یا نہ کھائے البتہ اگر اس نے مدرسہ سے غیر حاضر رہنے کی رخصت لے لی ہو یا کھانے کی تیاری سے پہلے کھانا تیار کرنے سے منع کر دیا ہو یا کسی سبب سے اس کا کھانا کسی روز تیار نہ کیا گیا ہو تو ان دنوں کا معاوضۂ خوراک واپس کیا جائے یا آئندہ کے حساب طعام میں ضم کردیا جائے ۔ واﷲ تعالیٰ اعلم (۵)- سند ومار کشیٹ مالِ متقوم نہیں ہے بلکہ یہ ایک وثیقہ اور علمی لیاقت کی دستاویز ہے۔ البتہ سند سازی ایک عمل ہے اس کی اجرت لینا جائز ہے اس اعتبار سے سند سازی کی عرفاً جو اجرت ہوتی ہے طلبہ سے لیناجائز ہے۔ اور یہ تصریحاً یا دلالۃً عقد اجارہ ہے ۔ بہارشریعت میں ہے: ’’مفتی فتویٰ لکھنے کی یعنی تحریر و کتابت کی اجرت لے سکتا ہے نفسِ فتویٰ کی اجرت نہیں لے سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کاغذ پر اتنی عبارت کسی دوسرے سے لکھوائو تو جو کچھ اس کی اجرت عرفاً دی جاتی ہے وہ مفتی بھی لے سکتا ہے۔‘‘ (بہار شریعت ج۱۴ ص۱۶۷) تنویر الابصار و رد المحتار میں ہے:یستحق القاضی الأجر علی کتب الوثائق والمحا ضرو السجلات قدر ما یجوز لغیرہ کالمفتی فإنہ یستحق أجر المثل علی کتابۃ الفتوی لأن الواجب علیہ الجواب باللسان دون الکتابۃ بالبنان‘‘۔ واﷲ تعالیٰ اعلم(درمختار کتاب الإجارۃ باب فسخ الإجارۃ ج۹ ص۱۲۷ بیروت) (۶)- (الف) مدرسہ بورڈ کے امتحانات کے پرائیویٹ امیدواران کے فارم کو فارورڈ کرنا اگر صدر المدرسین کے واجبات ملازمت میں داخل ہے تو اس پر اجرت لینا جائز نہیں کہ اس کام کی اجرت اس کی تنخواہ میں محسوب ہے، اور اگر فارورڈ کرنا اس کی ذمہ داری میں داخل نہیں ہے تو صدر المدرسین فارورڈ کرنے پر متعارف اجرت طے کرے ورنہ اجر مثل کا مستحق ہے۔ واﷲ تعالیٰ اعلم (ب)مدرسہ کے اندرونی امتحانات لوازمات تعلیم سے ہیں جو مدرسے کے فرائض میں داخل ہیں اور اس کی فیس لینا ناجائز ہے۔ واﷲ تعالیٰ اعلم (۷)- جو طلبہ ختم رخصت کے بعددیر سے آتے ہیں ان سے لیٹ فیس کے نام پر لی جانے والی رقم ایک قسم کا مالی جرمانہ ہے اس کا لینا ناجائز ہے البتہ تادیبی کار روائی کے طور پر چند روز ان کا کھانا بند کردیں پھر اگر وہ مدرسہ میں کھانا چاہیںتو کھانے کا عوض لیا جا سکتا ہے، اور اگر طالب علم پہلے سے ہی معاوضۂ خوراک دے کر کھاتا تھا تو اس کے معاوضۂ خوراک میں اضافہ بھی کرسکتے ہیں یا کوئی دوسری تادیبی کارروائی کی جائے البتہ معاوضۂ خواراک لینے میں اس امر کا لحاظ ضروری ہوگا کہ معاوضۂ خوراک وہی لیا جائے جو واقع میں معاوضہ ہوتا ہو اس سے زائد نہ ہو۔ واﷲ تعالیٰ اعلم (۸)- فیس کے معاملہ میںجواز اور عدم جواز کا جو حکم مذکور ہوا وہ مستطیع اور غیر مستطیع طلبہ دونوں کے لئے یکساں ہے۔ واﷲ تعالیٰ اعلم (۹)- نظام تعلیم کو مستحکم و منظم کرنے کے لئے مذکورہ ناموں سے فیس لینے کے سلسلہ میں جن کا جواز مذکور ہوا وہ جائز ہیں اور جن کا عدم جواز بیان کیا جا چکا وہ ناجائز ہیں۔واﷲ تعالیٰ اعلم (۱۰)- مدارس کی استطاعت مالی کے کم یا مفقود ہونے سے احکام مذکورہ میں کوئی فرق نہ ہوگا۔ واﷲ تعالیٰ اعلم (۱۱)- حیلہ جوئی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ واﷲ تعالیٰ اعلم
جواب نمبر ۲
شوال میں عمرہ کرنے والوں پر حج کی شرعی حیثیت :۔
جواب (۱)- کسی شخص نے ماہ شوال میں عمرہ کیا اور اس کے پاس ایام حج تک وہاں ٹھہرنے اور کھانے پینے کی استطاعت نہ ہو تو اس پر حج فرض نہیں ، یونہی اہل و عیال کے نفقہ پر قدرت نہ ہو جب بھی حج فرض نہیں کہ استطاعت زاد اور نفقۂ عیال شرط وجوب ہے۔ فتاویٰ ہندیہ میں ہے:’’ومنہا القدرۃ علی الزاد والراحلۃ وتفسیر ملک الزاد والراحلۃ أن یکون لہ مال فاضل عن حاجتہ وہو ماسوی مسکنہ ولبسہ وخدمہ وأثاث بیتہ قدرما یبلغہ إلی مکۃ ذاہباً وجائیاً وراکباً لاما شیاً وسوی ما یقضی بہ دیونہ ویمسک لنفقۃ عیالہ ومرمۃ مسکنہ إلی وقت انصرافہ کذا فی محیط السرخسی ویعتبر فی نفقتہ ونفقۃ عیالہ الوسط من غیر تبذیر وتقتیر کذا فی التبیین، والعیال من تلزمہ نفقتہ کذا فی البحر الرائق۔ (فتاویٰ ہندیہ ج۱ ص۲۱۷) ’’ وفی الینابیع یجب الحج علی اہل مکۃ ومن حولہا ممن کان بینہ وبین مکۃ اقل من ثلثۃ أیام إذا کانوا قادرین علی المشی وإن لم یقدروا علی الراحلۃ ولکن لابد أن یکون لہم من الطعام مقدار ما یکفیہم وعیالہم بالمعروف إلی عودہم کذا فی السراج الوہاج‘‘۔ (بحوالۂ سابق) رد المحتار میں لباب سے ہے: ’’الفقیر الآفاقی إذا وصل إلی میقات فہو کالمکی‘‘(رد المحتار ج۳ص۴۵۹) یہاں بعض لوگوں کو خانیہ کی عبارت ’’ان المکی یلزمہ الحج ولو فقیراً لازادلہ‘‘ سے دھوکہ ہوا اور انہوں نے یہ سمجھا کہ مکی کے لئے زاد پر عدم قدرت کے باوجود حج فرض ہو جاتا ہے اور فقیر آفاقی مکی کے حکم میں ہے تو زاد پر قدرت شرط نہیں۔یہ خانیہ کی عبارت کو مطلق ماننے کا نتیجہ ہے ۔ حالانکہ وہ مقید ہے ۔ اس سلسلہ میں علامہ ابن ہمام نے نظر پیش فرمائی اور یہ بتایا کہ یہاں مکی سے مراد وہ ہے جس کے لئے راستے میں اکتساب زاد ممکن ہو اسی کو علامہ شامی نے نقل فرمایا اور برقرار رکھا: والحاصل أن الزاد لابد منہ ولو لمکی کما صرح بہ غیر واحد کصاحب الینا بیع والسراج وفی الخانیۃ والنہایۃ من أن المکی یلزمہ الحج ولو فقیرا لازادلہ، نظرفیہ ابن الہمام الا أن یراد ما إذا کان یمکنہ الاکتساب فی الطریق۔(رد المحتار ج۳ ص۴۵۸) تو جو مکی راستہ میں اکتساب زاد پر قادر ہے اس پر حج فرض ہے واﷲ تعالیٰ اعلم (۲)- (الف)جو شخص کھانے پینے کی استطاعت نہ رکھتا ہواگرچہ اس کے پاس حج تک کا ویزا ہو اس پر حج فرض نہ ہوگا لعدم استطاعۃ الزاد۔ واﷲ تعالیٰ اعلم (ب)جو غنی مکہ مکرمہ میںہے اور ایام حج تک وہاں ٹھہرنے کا ویزا نہیں۔ اورشوال کا ہلال ہوچکا ہو ، تو شرائط وجوب ادا پائے جانے کی وجہ سے اس پر حج کی ادائے گی واجب ہو گی اور وہ حکم محصر میں ہوگا ، اور منع من السلطان کی وجہ سے وہ سال رواں حج نہ کرسکے تو گنہگار نہ ہوگا ۔ البتہ سال آئندہ ادائے گیٔ حج لاز م ہوگی اور اگرکسی عذر کی وجہ سے خود حج نہ کرسکے تو حج بدل یا وقت اخیر میں وصیت کرے۔ واﷲ تعالیٰ اعلم (۳)- حج بدل کرنے والا اگر غنی ہے اور اس نے ابھی اپنا حج فرض ادا نہیں کیا ہے تو اسے دوسرے کی طرف سے حج کرنا مکروہ تحریمی ہے ، لیکن اگر ا س نے دوسرے کی جانب سے حج کر لیا تو آمر کا حج ادا ہو جا ئے گا اور غنی ہونے کی وجہ سے خود اس پر بھی ادائے گئی حج لازم ہوگی اور از خود حج نہ کر پانے کی صورت میں حج بدل کرانا یا وقت اخیر میں وصیت کرنا واجب ہوگا ۔ واﷲ تعالیٰ اعلم (۴)- حج بدل کرنے والا اگر فقیر ہے اور اس نے دوسرے کی طرف سے حج کیا تو آمر کی جانب سے بلا کراہت حج فرض ادا ہو گیا۔ لیکن کیا ایسے فقیر پر مکہ مکرمہ میں آئندہ حج تک قیام کرنا یا سال آئندہ وطن سے واپس آکر حج کرنا واجب ہوگا اس پر بحث ہوئی اور طے ہوا کہ علامہ عبد الغنی نا بلسی قد س سرہٗ نے یہ فرمایا ہے کہ وہاں قیام کرنے کا حکم دینے میں سخت حرج و مشقت ہے کہ سال بھر تک گھر اور بال بچوں سے دور رہنے میں حرج عظیم ہے، اور واپس آکر حج کرنے کا حکم دینا تکلیف مالا یطاق ہے۔ لہٰذا اسے مکہ میں قیام کا یا واپس آکر حج کرنے کا حکم نہیں دیا جائے گا ، کیونکہ اس پر حج فرض نہیں۔ رد المحتار میں ہے: وأفتی سیدی عبد الغنی النا بلسی بخلافہ وألف فیہ رسالۃً لأنہ فی ہذا العام لایمکنہ الحج عن نفسہ لأن سفرہ بمال الآخر ویحرم عن الآمر ویحج عنہ وفی تکلیفہ بالإقامۃ بمکۃ إلی قابل لیحج عن نفسہ ویترک عیالہ ببلدہ حرج عظیم وکذا فی تکلیفہ بالعود وہو حرج عظیم ایضاً وما فی البدائع فإطلاقہ الکراہۃ المنصرفۃ إلی التحریم یقتضی أن کلامہ فی الصرورۃ الذی تحقق الوجوب علیہ من قبل کما یفیدہ مامر عن الفتح۔ (رد المحتار ج۴ ص۲۲ باب الحج عن الغیر) واﷲ تعالیٰ اعلم (۵/۶)- رمضان شریف میں کوئی شخص عمرہ کو گیا اور اس کے پاس ایام حج تک کا نہ ویزا ہے نہ اسے قیام و طعام کی استطاعت ہے تو اسے یہ حکم نہ دیا جائے گا کہ قبل شوال وہ حدود حرم یا میقات سے باہر آجائے کہ شرائط حج مفقود ہونے کی وجہ سے اس سے وجوب حج متعلق ہی نہیں۔ واﷲ تعالیٰ اعلم
جواب نمبر ۳
میڈیکل لیباریٹری اور اطبا کے مابین کمیشن کا شرعی حکم :۔
جواب (۱) - ڈاکٹر مریض کو کسی خاص لیب کا پتہ بتا کر لیب والوں سے کمیشن حاصل کرتے ہیں یہ ناجائز ہے کیوں کہ یہ کمیشن اجارۂ مطلقہ نہیں بلکہ دلالی ہے ۔ لیکن اس دلالی کے عوض ڈاکٹر کا کمیشن لینا درست نہیں کہ وہ کسی عمل کا بدل نہیں وہ محض ایک صلاح یا رہنمائی ہے جس پر وہ اجرت کا مستحق نہیں۔ رد المحتار میں ہے: الدلالۃ والاشارۃ لیست بعمل یستحق بہ الأجر۔ (ج۹ص ۱۳۱کتاب الاجارہ) فتاویٰ رضویہ میںہے:اگر کارندہ نے اس بارے میں جو محنت و کوشش کی وہ اپنے آقا کی طرف سے تھی، بائع کے لئے کوئی دوا دوش نہیں، اگرچہ بعض زبانی باتیں اس کی طرف سے بھی کی ہوں، مثلاً آقا کو مشورہ دیا کہ یہ اچھی چیز ہے، خرید لینی چاہئے یا اس میں آپ کا نقصان نہیں، اور مجھے اتنے روپئے مل جائیںگے اس نے خرید لی جب تو یہ شخص عمر و بائع سے کسی اجرت کا مستحق نہیں کہ اجرت آنے جانے محنت کرنے کی ہے ، نہ بیٹھے بیٹھے دو چار باتیں کہنے، صلاح بتانے، مشورہ دینے کی۔ (فتاویٰ رضویہ ج۸ص۱۴۶) خانیہ میں ہے: قال ابو القاسم البلخی ان کان الدلال عرض و تعنی وذہب فی ذلک دوزکارہ کان لہ اجر مثلہ بقدر عنائہ و عملہ۔واﷲ تعالیٰ اعلم(خانیہ ج۲ص۲۳۶) (۲)- ڈاکٹر نسخہ لکھ کر مریض کو دیتے اور کسی مخصوص میڈیکل اسٹور کا پتہ بتاتے ہیں جہاں سے ڈاکٹر کو کمیشن ملتا ہے۔ یہ بھی ناجائز ہے کہ ڈاکٹر نے میڈیکل اسٹور یا دوا سازکمپنی کے لئے کوئی عمل نہ کیا بلکہ صرف ایک خریدار کی رہنمائی کی جیسا کہ جواب نمبر ایک میں گزرا ۔ واﷲ تعالیٰ اعلم (۳)- اگر لیب و میڈیکل اسٹور والایا دوا ساز کمپنی غیر مسلمین زمانہ کی ہو تو ڈاکٹرکا ان کی رضا سے بلا غدر و بدعہدی ایسی رقم لینا جائز و مباح ہے۔ہدایہ میں ہے:فبای طریق اخذہ المسلم اخذمالا مباحاً اذالم یکن فیہ غدر۔ ہدایہ اخیرین باب الربا ص۷۰۔ واﷲ تعالیٰ اعلم
نوٹ:- اس گوشہ پر آئندہ سیمینار میں بحث کرلی جائے کہ اگر ڈاکٹر مریض کے ساتھ کسی کارندہ کو لیباریٹری بھیجے ،یا کوئی کارڈیا پرچہ لکھ کر مریض کو دے ،یا لیب والا بغیر کسی معاہدہ و مطالبہ کے خود سے ڈاکٹر کو روپیہ دے تو یہ صورتیں جائز ہیں یا نہیں؟
|  HOME  |