سوال نمبر - ۱
آرٹی فیشیل (مصنوعی) زیورات کے استعمال اور اس کی خرید وفروخت کا شرعی حکم
سیم وزر کی بڑھتی قیمت کے سبب خالص زیورات اب مالدار اور رئیس خاندان کی خواتین کے ساتھ مخصوص ہوتے جارہے ہیں اور غریب عوام تو دور رہے، متوسط طبقے کی خواتین کے لیے بھی سونے چاندی کے زیورات خواب بن کر رہ گئے ہیں۔ لہٰذا زیب وزینت کی خاطر آج کل عورتوں میں آرٹی فیشیل زیورات یعنی پیتل ، تانبا، کانسہ، جست، اسٹیل ودیگر دھاتوں کے زیورات کی خرید وفروخت اور اس کے استعمال کا رواج بڑھتا جارہا ہے۔ شہروں ، قصبوں اور دیہاتوں میں مسلم وغیر مسلم عورتیں آرٹی فیشیل زیورات خریدتی اور پہنتی ہیں۔ عالمی اور ملکی بازاروں میں اس کی بڑی بڑی دکانیں پائی جارہی ہیں، ان زیورات کی دکانیں سجانے اور تجارت کرنے والوں میں ایک خاصی تعداد مسلمانوں کی بھی ہے جنھوںنے اس تجارت کو اپنا ذریعہ معاش بنا رکھا ہے۔ جب کہ سونے اور چاندی کے علاوہ دوسری دھاتوں کے زیورات کا استعمال عورتوں کے لیے بھی ممنوع وناجائز ہے۔ مندرجہ ذیل فقہی عبارات اس پر شاہد ہیں۔
تنویر الابصار میںہے : ولایتختم بغیرہا کحجر وذہب وحدید وصفر ورصاص وزجاج وغیرہا۔
رد المحتار میںہے: وفی الجوہرۃ النیرۃ : والتختم بالحدید والصفر والنحاس والرصاص مکروہ للرجال وللنساء۔ (ج۹ص۵۱۸)
فتاویٰ رضویہ میںہے:
تانبا ، پیتل، کانسا، لوہاتو عورت کو بھی ممنوع ہے، اور اس سے نماز ان کی بھی مکروہ ہے۔ (ج ۹ نصف آخر ص۲۷۹ رضا اکیڈمی بمبئی)
بہارشریعت میںہے :
انگوٹھی صرف چاندی ہی کی پہنی جاسکتی ہے۔ دوسری دھاتوں کی انگوٹھی پہننا حرام ہے، مثلاً لوہا، پیتل ، تانبا ، جست وغیرہا، ان دھاتوں کی انگوٹھیاں مردو عورت دونوں کے لیے ناجائز ہیں۔ (ج۱۶ص۶۲ قادری کتاب گھر بریلی شریف)
فتاوی رضویہ میں اس سوال کے جواب میں کہ ’’کانسہ جو بشکل پیتل ہوتا ہے اس کا استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟ ‘‘اعلیٰ حضرت تحریر فرماتے ہیں:
الجواب : کانسہ کے برتن میں حرج نہیں، اور اس کا زیور پہننا مکروہ ۔ (ج۹ص۱۳۳)
اور جب اس کااستعمال ناجائز ومکروہ ہے تو اس کابنانا ، بنوانا ، ڈھالنا، پگھلانا، اسی طرح اس کی بیع وشراء بھی ناجائز ہے۔
درمختار میںہے: فاذا ثبت کراہۃ لبسہا للتختم ثبت کراہۃ بیعہا وصیغہا لما فیہ من الاعانۃ علی مالایجوز ، وکل ما أدّی الی ما لایجوز لایجوز۔ (ج۹ص۵۱۸)
ماضی قریب کے عظیم ونامور فقیہ ومحدث ومجدد امام احمد رضا خاں علیہ الرحمۃ والرضوان سے ایسے ہی زیورات کی بیع کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے اس کے بیچنے پر مکروہ تحریمی کا حکم صادر فرمایا۔ فتاویٰ رضویہ میںہے:
مسئلہ: ایک شخص لوہے اور پیتل کا زیور بیچتا ہے ، اور ہندومسلم سب خریدتے ہیں، اور ہر قوم کے ہاتھ وہ بیچتا ہے ، غرضیکہ یہ وہ جانتا ہے کہ جب مسلمان خریدکریںگے تو اس کو پہنیںگے تو ایسی چیزوں کا فروخت کرنا مسلمان کے ہاتھ جائز ہے یا نہیں؟
الجواب : مسلمان کے ہاتھ بیچنا مکروہ تحریمی ہے۔ (ج۹نصف آخر ص۱۳۳ رضا اکیڈمی ممبئی)
فقہ حنفی کی معتمد ومستند کتاب بہارشریعت میںہے:
جب ان چیزوں کی انگوٹھیاں مردو عورت دونوں کے لیے ناجائز ہیں تو ان کا بنانا اور بیچنا بھی ممنوع ہوا، کہ یہ ناجائز کام پر اعانت ہے۔ (ج۱۶ ص۶۲ قادری کتاب گھر بریلی شریف)
اور اسی میںہے: لوہے پیتل وغیرہ کی انگوٹھی جس کا پہننا مردو وعورت کے لیے ناجائز ہے اس کابیچنا مکروہ ہے۔ (ایضاً ص۱۰۶)
مذکورہ فقہی عبارات سے واضح ہوگیا کہ آرٹی فیشیل زیورات کی بیع اور اس کااستعمال دونوں ناجائز ہے، لیکن دونوں کے عدم جواز کا حکم یکساں نہیں، بلکہ اس کے بیچنے میںجوممانعت وکراہت کا حکم ہے وہ اس کے استعمال کی بنسبت خفیف ہے۔
ردالمحتار میںہے: قال ابن الشحنۃ : الا أن المنع في البیع أخف منہ في اللبس ، اذ یمکن الانتفاع بہا في غیر ذلک ویمکن سبکہا وتغییرہیئتہا۔ (ج۹ص۵۱۹ مکتبہ زکریا)
بہارشریعت میںہے: ہاں بیچنے کی ممانعت ویسی نہیںجیسے پہننے کی ممانعت ہے۔ (ج۱۶ص۶۳)
بلکہ اگر اس قسم کے زیورات پر سونے یا چاندی کاپانی یا اس کا خول چڑھا دیاجائے تو اس کے استعمال میںکوئی حرج نہیں۔ اور جب اس صورت میں اس کا استعمال جائز ہے تو اس کی خرید وفروخت بھی جائز ہوگی۔
فتاویٰ تاتارخانیہ میںہے: لاباس بان یتخذ خاتم حدید قدلوی علیہ أو البس بفضۃ حتی لایری۔ (ج۹ ص۵۱۹مکتبہ زکریا)
درج ذیل عبارتوں سے بھی اس سلسلے میں کچھ استفادہ کیاجاسکتاہے :
فتاویٰ ہندیہ میںہے: ولاباس بتمویہ السلاح بالذہب والفضۃ کذا فی السراجیۃ ، ولاباس بالانتفاع بالاواني المموّہۃ بالذہب والفضۃ بالاجماع ، کذا فی الاختیار شرح المختار۔ (ج ۵ ص۴۵۳مکتبہ زکریا)
ہدایہ میںہے: ویجوز الشرب في الاناء المفضض عند أبي حنیفۃ (ج۴ ص۴۵۳)
اما م احمد رضا خان علیہ الرحمۃ والرضوان سے سیم وزر کے ایک ایسے چراغ کی بابت سوال کیاگیا جس سے روشنی لینا مقصود نہ تھا، بلکہ قوتِ عمل وسرعت اثر وتنبیہ مؤکلات مقصود تھا، تو آپ نے جواب ارقام فرمایا: استصباح چراغ خانہ سے مقصود ہوتاہے، یہ چراغ اس غرض کے لیے بنتا ہی نہیں۔ اور جس غرض کے لیے بنتا ہے اس میں استعمال قطعاً متحقق ، تو استعمل فیما صنع لہ موجود ہے اور حکم تحریم سے مفر مفقود ، ہاں اگر سونے کا ملمع یاچاندی کی قلعی کرلیں تو کچھ حرج نہیں۔ علامہ عینی فرماتے ہیں: اما التمویہ الذی لایخلص فلاباس بہ بالاجماع ، لانہ مستہلک فلاعبرۃ ببقائہ لونا۔ (ج۹ نصف اول ص۶)
بہر حال آرٹی فیشیل زیورات کے استعمال کا دائرہ بڑھتا جارہا ہے، اور اس کاروبار میںمسلم وغیرمسلم دونوں شریک ہیں، مسلمان ویسے ہی تجارت وکاروبار میں پچھڑے ہوئے ہیں، عدم جواز کی صورت میںوہ حرج ومشقت میںمبتلا ہوںگے۔ لیکن آیت کریمہ : ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا ویرزقہ من حیث لایحتسب۔پر اللہ ورسول عزوجل وصلی اللہ علیہ وسلم کے چاہنے والوں کا ایمان ہوتا ہے، تاہم حرج ومشقت کا خیال رکھنا بھی ہماری شریعت کا ایک حصہ ہے۔
نیز موجودہ دور میں جب کہ سونے چاندی کی قیمت آسمان سے باتیں کررہی ہے ۔ غریب اور متوسط طبقہ تو دور کی بات ہے خوشحال طبقہ بھی زیورات خریدنے کے لیے بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہونے لگاہے۔ اگر مصنوعی زیورات سے بالکل منع کردیاجائے اور اصلی زیورات عام لوگوں کی قوتِ خرید سے باہر ہیں، تو زیورات کے باب میں ان خواتین کے احساس محرومی کاکیا عالم ہوگا؟ خصوصاً جس بہو بیٹی نے ازدواجی زندگی شروع کی ہو۔ کیا یہ محرومی ازدواجی زندگی میں مسرت وشادمانی کے بجائے حسرت ویاس کا زہر نہ گھول دے گی، دیکھنے والوں کے طعن وتشنیع کو وہ کیوں کر برداشت کرسکے گی۔ان حالات میں کچھ شروط وقیود کے ساتھ ایسے زیورات کی اگر اجازت دی جائے تو کیا شرعاً کوئی حرج لازم آئے گا۔
اسی تناظر میں ارباب ِ فقہ وافتا کی بارگاہ میں چند سوالات حاضر ہیں، امید کہ اپنے علمی وتحقیقی جوابات سے بروقت قوم مسلم کی رہنمائی فرمائیںگے، اور عنداللہ ماجور ومثاب ہوں گے۔
:
سوالات
(۱)مصنوعی زیورات جن پر سونے یا چاندی کاپانی نہ چڑھا یا گیا ہو خواتین کے لیے اس کا استعمال جائز ہے یا حرام یا مکروہ ؟ اور اگر سونے یا چاندی کاپانی یا خول چڑھا دیاجائے تو اب اس کے استعمال کا کیا حکم ہوگا؟
(۲) ممانعت کی صورت میں موجودہ حالات میں اس حکم میں کیا کچھ تخفیف ہوسکتی ہے؟
(۳)مصنوعی زیورات جن پر سونے چاندی کی ملمع سازی کی گئی ہویا نہ کی گئی ہوبہر صورت اس کی خریدوفروخت کا کیا حکم ہے؟اس سے حاصل شدہ مال مالِ طیب ہے یا مال خبیث؟ کیا ایسے زیورات کو بیچ کر حاصل کیا گیا مال اپنی ضروریات میںخرچ کرنا جائز ہے؟
(۴) اگر کوئی مسلمان اس قسم کے زیورات غیرمسلم سے بنوائے اور غیر مسلم ہی کے ہاتھ فروخت کرے، یا اپنی دکان میںغیر مسلم نوکر سے فروخت کرائے تو کیا اس کا ایسا کرنا شرعاً جائز ہے؟
(۵) اس تجارت کے جائز ہونے کا اگر کوئی شرعی حیلہ ہوتو اسے بھی تحریر فرمائیں! جزاکم اللہ خیرالجزاء۔
محمد رفیق عالم رضوی
استاذ جامعہ نوریہ رضویہ بریلی شریف
سوال نمبر - ۲
ممالک بعیدہ میں عشا وفجر کے اوقات کا شرعی حکم
اللہ تعالیٰ نے معراج کی شب مسلمانوں پر ہر شب وروز پانچ نمازیں فرض کیں اور انھیں اوقات کے ساتھ مشروط فرمادیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّ الصَّلوٰۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُوْمِنِیْنَ کِتَاباً مَّوْقُوْتاً۔چنانچہ اسی روز حضرت جبریل امین علیہ الصلاۃ والتسلیم نماز کے اوقات لے کر بارگاہ رسالت میںحاضر ہوئے۔ اور دودن نماز پنج گانہ کی امامت کی ۔ پہلے دن اول وقت میں،اور دوسرے دن آخر وقت میں،پھر عرض کی: ہذا وقت الانبیاء من قبلک، والوقت فیما بین ہذین الوقتین۔
نماز کی فرضیت کی علت حکم ربانی ہے ۔ اور اس کی فرضیت کا سبب اس کے مختلف اوقات ہیں۔ یعنی ان نمازوں کی فرضیت اس وقت ذمہ میں آئے گی جب کہ ان کا وقت آجائے۔ وقت سے پہلے کسی نماز کی فرضیت ذمہ میںنہیں آتی ۔
اس سے لازم کہ اگر کوئی ایسا خطہ ہو جہاں ایک یا چند نمازوں کاوقت ہی نہ آئے تو وہ نماز بھی ذمہ میں فرض نہ ہوگی۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ نماز کی فرضیت کی اصل علت تو حکم ربانی ہے اور وہ متحقق ہے ، اور یہ بھی ضروریات دین سے ہے کہ ایک شب وروز میں کل پانچ نمازیں فرض ہیں۔ لہٰذا غورطلب یہ ہے کہ کوئی ایسا خطہ جہاں پورے چوبیس گھنٹے میں ایک یا چند نمازوں کا وقت بالکل ہی نہ آئے تو وہ نماز ذمہ میں فرض ہوگی یا نہیں؟ علت فرضیت متحقق ہونے کی وجہ سے فرضیت کاحکم ہونا چاہیے، اور شرط مفقود ہونے کی بناپر فرضیت کاحکم نہیںہونا چاہیے۔ اسی بنا پر اس مسئلے میں فقہائے حنفیہ کے مابین اختلاف ہوگیا۔ اس اختلاف کو علامہ شامی نے رد المحتار میں پوری تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ امام بقالی اور امام شمس الائمہ حلوانی نے عدم وجوب کا حکم دیا ۔ اور امام برہان کبیرنے وجوب کا۔اور جولوگ وجوب کے قائل ہیں ان کے نزدیک وجوب علی سبیل القضا ہے ، نہ کہ وجو ب علی سبیل الاداء ۔ لیکن وجوب کے لیے لازم کہ سبب (وقت)موجود ہو، اور وہ یہاں معدوم ، لہٰذا سبب کو مقدر ماناجائے گا۔
چنانچہ تنویر الابصار میں فرمایا : ’’وفاقد وقتہما مکلف بہما فیقدر لہما‘‘ یعنی جنھیں عشا ووتر کا وقت نہیں ملتا وہ ان کے مکلف ہیں تو ان دونوں نمازوں کے لیے وقت مقدر ماناجائے گا۔یہ اس لیے تاکہ سبب وجوب جو معدوم ہے اس کو موجود فرض کیاجائے تاکہ وجوب بلاسبب نہ ہو۔
رہی ’’تقدیروقت ‘‘کی صورت ! تو وہ یہ ہے کہ اگر چہ حقیقتاً عشا کا وقت ان دنوں نہیں پایاجاتا لیکن عشا کاوقت مقدر مان لیاجائے، یعنی (غروب شفق احمر اور طلوع فجر کے مابین ) وقت عشا کا وجود فرض کرلیاجائے۔ اس کا حاصل یہ ہوگا کہ نماز کا سبب وجوب حقیقتاً پایاجائے یا تقدیراً دونوں صورتوں میں نماز فرض ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ’’تقدیر وقت‘‘ کی صورتیں جو بیان کی گئیں معقول نہیں۔ مثلاً اقرب بلاد کے وقت کا اعتبار کیاجائے۔ یا یہ کہ طلوع صبح صادق کو فجر کا وقت نہ مان کر عشا کا وقت ماناجائے۔ یا یہ کہ طلوع فجر کا وقت وہ مانا جائے جب کہ اقرب بلاد میں طلوع فجر ہوتی ہے تو ایسی صورت میں یہاں عشا اور فجر کا وقت متحد ہوجائے گا۔ یا طلوع فجر سے صرف عشا کا وقت مانا جائے تو عشا رات کی نماز کے بجائے دن کی نماز ہوجائے گی ۔ اور لازم آئے گا کہ فجر کا وقت آفتاب طلوع ہونے کے بعد ہوگا۔ وغیرہ۔ یہ سب غیر معقول صورتیںہیں۔ لہٰذا تقدیر وقت کا وہی معنی متعین ہیں جو ہم نے ذکرکیا۔
اس مقام پر علامہ شامی نے امام کمال بن ہمام (جنھوں نے وجوب کے قول پر استدلال کیا ہے) اور علامہ برہان الحلبی اور شرنبلالی (جنھوں نے عدم وجوب پر استدلال کیا ہے) دونوں کے دلائل اور طرفین کے جواب کو اس مقام پر تفصیل سے ذکرکیا ہے پھر آخر میں علامہ کمال ابن ہمام کے دلائل کی تائید اور مخالف دلائل کے جوابات دیے ہیں۔ اورآخر میں فرمایا: ہذا وقد أقر ما ذکرہ المحقق تلمیذاہ العلامتان المحققان ابن امیر الحاج والشیخ قاسم والحاصل انہما قولان مصححان ویتأید القول بالوجوب بانہ قال بہ امام مجتہد وہو الامام الشافعي کما نقلہ فی الحلیۃ عن المتولی عنہ۔ (ردالمحتار جلد ا صفحہ ۲۶۸ کراچی)
یوہیں ان علاقوں میں روزے کے بارے میں کیا حکم ہے: اس پر علامہ شامی فرماتے ہیں:
تتمۃ: لم أر من تعرض عندنا لحکم صومہم فیما اذا کان یطلع الفجر عندہم کما تغیب الشمس أو بعدہ بزمان لایقدر فیہ الصائم علی اکل ما یقیم بنیتہ ولایمکن أن یقال بوبوجب موالاۃ الصوم علیہم لانہ یؤدي الی الہلاک فان قلنا بوجوب الصوم یلزم القول بالتقدیر وہل یقدر لیلہم باقرب البلاد کما قالہ الشافعیۃ ہنا ایضاً أم یقدر لہم بما یسع الاکل والشرب أم یجب علیہم القضاء فقط دون الاداء ، کل محتمل فلیتأمل ولایمکن القول ہنا بعدم الوجوب أصلاً کالعشاء عند القائل بہ فیہا لان علۃ عدم الوجوب فیہا عند القائل بہ عدم السبب وفی الصوم قد وجد السبب وہو شہود جزء من الشہر وطلوع فجر کل یوم ہذا ما ظہر لی واللہ تعالیٰ اعلم۔ (ردالمحتار ۱؍۲۶۹)
یہاں تک تو بحث وجوب اور عدم وجوب کی تھی ۔ اور ظاہر کہ وجوب کا قول ہی مرجح اور مفتیٰ بہ ہے۔
چنانچہ بہارشریعت میںہے:
جن شہروں میں عشا کاوقت ہی نہ آئے کہ شفق ڈوبتے ہی یا ڈوبنے سے پہلے فجر طلوع کر آئے(جیسے بلغاریہ ولندن کہ ان جگہوں میںہرسال چالیس راتیں ایسی ہوتی ہیں کہ عشا کا وقت آتا ہی نہیں، اور بعض دنوں میں سکنڈوں اور منٹوں کے لیے ہوتا ہے) تو وہاں والوں کوچاہیے کہ ان دنوں کی عشا و وتر کی قضا پڑھیں۔ (بہارشریعت سوم صفحہ ۱۶)
اب سوال یہ ہے کہ جب وہاں عشا کا وقت ہوتا ہی نہیں توعشا کا وقت مقدر مان کر کس وقت عشا کی نمازپڑھی جائے گی ؟ شفق احمر کے غروب کے بعد ؟ یا شفق ابیض کی موجودگی میں؟ یا پھر طلوع صبح صادق کے بعد؟نیز یہ کہ عشا کی نماز بہ نیت ادا پڑھیں گے یا بہ نیت قضا؟
امام ابوحنیفہ کے نزدیک عشا کا وقت شفق ابیض کے غروب سے شروع ہوتا ہے اور طلوع فجر تک رہتا ہے۔ یہی قول امام اور ظاہر الروایہ ہے، اور عامہ متون مذہب کا اسی پر اتفاق ہے۔ قول امام ہی اصل مذہب ہے اور اس کی موجودگی میں سارے اقوال مرجوح ہیں۔ لہٰذا شفق ابیض کے غروب سے پہلے نماز عشا قطعاً فرض نہ ہوگی، اور کسی نے اس سے پہلے نماز عشا اداکرلی تو نماز نہ ہوئی اور فرض ذمہ میں باقی رہے گا۔ لہٰذا ان خطوں میں بھی شفق احمر کے غروب کے بعد یا شفق ابیض کی موجودگی میں نماز عشا پڑھ لینے سے فرض ادا نہ ہوگا۔ کہ ابھی عشا کا وقت ہی نہ ہوا۔
فتاویٰ قاضی خاں میںہے: أول وقت العشاء حین یغیب الشفق لاخلاف فیہ وانما اختلفوا فی الشفق قال ابویوسف ومحمد والشافعی ہی الحمرۃ وقال ابوحنیفۃ رحمہ اللہ ہو البیاض الذی یلی الحمرۃ حتی لو صلی العشاء بعد ما غاب الحمرۃ ولم یغیب البیاض الذی یکون بعد الحمرۃ لاتجوز عندہ ۔( فتاویٰ قاضی خاں ۱؍۳۶)
لیکن صاحبین کے نزدیک عشا کا وقت شفق احمر کے غروب سے ہی شروع ہوجاتا ہے، جیسا کہ عام کتب فقہیہ میںہے۔چنانچہ درمختار میںہے: ووقت المغرب منہ الی غروب الشفق وہو الحمرۃ عندہما، وبہ قالت الثلاثۃ۔ (درمختار ۱؍۲۶۵)
اس کے مطابق شفق احمر کے غروب کے بعد اور شفق ابیض کی موجودگی میں عشا کی نماز پڑھ لینے سے نماز ادا ہوجائے گی۔ ان علاقوں میں جہاں قول اما م کے مطابق عشا کا وقت ہوتا ہی نہیںتو عشا کا وقت مقدر مان کر طلوع صبح صادق کے بعد نماز عشا پڑھی جائے تو اس قدر دیر تک انتظار کرنے میں حرج بھی ہے اور بہت ممکن کہ لوگ نماز عشا چھوڑنے کے عادی ہوجائیں جیسا کہ فجر کی نماز میں سستی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس لیے اس نازک صورت حال میں قو ل صاحبین پر عمل کرنے میں عشا کا وقت مل جاتا ہے اور نماز عشا آسانی سے پڑھی جاسکتی ہے۔ تو کیا ان بلاد کے لیے قول صاحبین پر فتویٰ دیاجاسکتاہے؟۔ اس طرح نماز ِعشا کی فرضیت اور عدم فرضیت کے اختلاف مذکور سے بھی چھٹکارا ہوگا۔ اور یوں عشا کا وقت موجود ہوگا نہ کہ موہوم ومفروض۔
دنیا کے ایسے علاقے جہاں سال کے کچھ ایام میں عشا کا وقت یا تو بالکل ہوتا ہی نہیں یا اتنا مختصر ہوتا ہے کہ فرض کی ادائیگی کے لیے کافی نہیں۔ایسے وہ تمام علاقے ہیں جن کا عرض البلد ۴۸ یا اس سے زائدہو۔ مثلاً : England, Holland, Norway, Finland, Alaska، وغیرہ۔ انھیں بلاد میں بلغار نامی شہر بھی ہے جو متاخرین فقہا کے درمیان اس مسئلہ کے حوالے سے مشہور ہے۔
آج کل ان خطوں میں بڑی تعداد میں مسلمان بستے ہیں۔ اور وہاں ان ایام میں عشا کی نماز کے لیے مختلف مذاہب فقہ اور مکاتب فکر کے علما نے نماز عشا کی ادائیگی کے لیے مختلف صورتیں بیان کی ہیں۔ مثلاً
(۱)کچھ علما نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ صاحبین کے قول پر عمل کیا جائے ۔ اور اسی کے مطابق شفق احمر کے غروب سے ہی عشا کا وقت مان کر اوقات صلاۃ کا کیلنڈر تیارکرلیاجائے۔
(۲)دوسرا موقف یہ ہے کہ عموماً ان خطوں میں مغرب کا وقت جتنی دیر تک رہتا ہے اتنا وقت مغرب کا قرار دے کر اس کے بعد عشا کا وقت مان لیا جائے اور عشا پڑھ لی جائے ۔ لیکن اس میں بھی چند اقوال سامنے آئے ۔ (۱) مغرب کے ابتدائی وقت سے دیڑھ گھنٹے کے بعد عشا پڑھ لی جائے۔ (۲) مغرب کے ابتدائی وقت سے ایک گھنٹہ پینتالیس منٹ کے بعد عشا پڑھ لی جائے ۔ (۳) مغرب کے ابتدائی وقت سے دو گھنٹے کے بعد عشا پڑھ لی جائے ۔ شیخ عثیمین نے یہ فتویٰ دیا کہ چونکہ مغرب کا وقت زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ بتیس منٹ ہوتا ہے لہٰذا مغرب کے ۹۰ منٹ کے بعد عشا پڑھ لیں۔
(۳)تیسرا موقف یہ ہے کہ اقربِ بلاد کے وقت ِعشا کی موافقت کی جائے ۔ یعنی ان بلاد سے قریب تر ایسا خطہ جہاں عشا کا وقت ہوتا ہواسی قت یہاں بھی نماز عشا پڑھ لی جائے۔ اور جو لوگ کسی مجبوری کی وجہ سے اصل وقت میں نہیں پڑھ سکتے وہ جمع بین الصلاتین کرلیں۔
نیز کریمہ انسٹی ٹیوٹ ناٹنگھم کی طرف سے ایک فتویٰ جاری کیا گیا ہے جس میں مشہور عالم دین اور ماہر فلکیات مولانا یعقوب قاسم کے حوالے سے اس کا حل پیش کیا گیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جن خطوں میں وقت عشا اور سحور کے معاملہ میں کچھ ایام ایام حرج مانے جاتے ہیں وہاں متقدمین اور متاخرین فقہائے کرام کے اقوال کی روشنی میں چار طریقے اختیار کیے گئے ہیں، جو تحقیقی نہ سہی تقریبی ضرورہیں۔ اور چونکہ ہمیں نصوص میں اس سلسلے میں واضح رہنمائی نہیںملتی کہ کون سا طریقہ کار اختیار کیاجائے اس لیے ہمیں اختیار ہے کہ ان چار صورتوں میں سے جو صورت چاہیں اختیارکریں۔ وہ چار طریقے درج ذیل ہیں:
(۱)اقرب الایام : یعنی جن ایام میں وقت عشا نہیںہوتا ان سے قریب ترین ایام جن میں وقت عشا ہوتا ہے ان کااعتبار کرکے اسی وقت نماز عشا پڑھ لی جائے۔ یہ حنفی طریقہ ہے۔
(۲) اقرب البلاد:یعنی جن مقامات پر وقت عشا نہیںہوتا ان سے قریب ترین خطہ جہاں ان ایام میں وقت عشا ہوتا ہے ان کے وقت پر نماز عشا پڑھ لی جائے ۔ یہ شافعی طریقہ ہے۔
(۳) نصف اللیل : غروب آفتاب اور طلوع آفتاب کا درمیانی وقت نکال کر اس کی تنصیف کرلی جائے اور نصف سے پہلے پہلے نماز عشا پڑھ لی جائے اور سحری کرلی جائے۔
(۴) سبع اللیل : غروب آفتاب اور طلوع آفتاب کی درمیانی مدت کو سات برابر حصوں میں تقسیم کیاجائے ۔ سُبع اول کے بعد عشا پڑھ لی جائے ۔ اور سُبع آخر سے پہلے پہلے سحری کرلی جائے۔ (یہ طریقہ موجودہ فقہاکاہے۔)
آخر میں ناٹنگھم کے ان ایام میں ان چاروں طریقوں کو جاری کرکے ایک حساب پیش کیا گیا ہے جس کے مطابق پہلا اور تیسرا طریقہ جاری کیا جائے تو روزہ تقریباً بیس گھنٹوں کاہوتا ہے اور دوسرا اور چوتھا طریقہ عمل میںلائیں توروزہ ۱۷ گھنٹے ۲۰ منٹ کا ہوتاہے اس لیے جس میںلوگوں کے لیے یسر اور آسانی ہو وہ صورت اختیار کی گئی ہے۔ (نوٹ : یہ فتویٰ انگلش میںہے جس کی تلخیص پیش کی گئی ۔)
مسئلہ دائرہ میں اہل سنت کے متاخرین فقہا اور موجودہ علماکے مختلف فتاویٰ
اس سلسلے میںہم نے اپنی استطاعت کے مطابق تلاش وجستجو کی تو درج ذیل مفتیان کرام اور علمائے اہل سنت کے موقف سامنے آئے جو یا تو فتوے کی شکل میںہیں یا مضمون کی شکل میں یا محض بطور تائید :
حضور اعلیٰ حضرت امام احمدرضا قدس سرہ ، حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمہ، مفتی افضل حسین صاحب مونگیری علیہ الرحمہ، فقیہ العصر مفتی شریف الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ ، فقیہ ملت مفتی جلال الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ ، تاج الشریعہ حضور ازہری صاحب قبلہ، محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفیٰ صاحب قبلہ ، خواہ مظفر حسین صاحب فیض آباد،مفتی عبدالواجد صاحب ،مفتی نظام الدین صاحب رضوی ، مفتی شمس الہدیٰ مصباحی، مفتی آل مصطفیٰ مصباحی، قاضی شہید عالم صاحب، مفتی عالمگیر صاحب رضوی، مفتی شیر محمد خاں رضوی ، مولانا نظام الدین مصباحی انگلینڈ، مولانا زاہد حسین امجدی انگلینڈ۔
ان تمام فتاویٰ اور آرا کو اس مختصرسوال نامے میں پیش کرنا تقاضائے اختصار کے خلاف ہے اس لیے ان کے مطالعہ سے جو دومختلف موقف سامنے آتے ہیں ہم ان کا خلاصہ مع دلائل پیش کرتے ہیں۔دومختلف موقف یہ ہیں:
(۱) صاحبین کے قول پر عمل کرتے ہوئے شفق احمر کے غروب کے بعد نمازِ عشا بہ نیت ادا پڑھیں۔
(۲) عشا کا وقت مقدر مان کر طلوعِ فجر کے بعد عشا کی نماز بہ نیت قضا پڑھیں۔
مذکورہ دونوں موقف کے دلائل کا خلاصہ یہ ہے
پہلا موقف :قول صاحبین کے مطابق شفق احمر کے غروب کے بعد نماز عشا اداکریں۔
ان دِنوں میں قول صاحبین پر عمل کرتے ہوئے نماز عشا ووتر شفق احمر کے غروب کے بعد ادا کرلیں،کہ جو بلادخط استوا سے اتنی دوری پر واقع ہیں کہ وہاں بعض ایام میںقول امام کے مطابق عشا کی ادائے گی اتنی تاخیر سے کرنی پڑے کہ اس میں ضیق وحرج اور مشقت ہو، عام لوگ اس کا انتظار نہ کریں اور اس سے تقلیل جماعت لازم آئے ان بلاد میں ان مخصوص ایام میں بربنائے مشقت وحرج امام اعظم کے قول ظاہر الروایۃ سے امام کی اس روایت کی طرف جو اسد بن عمرو سے مروی ہے اور صاحبین کا قول ہے عدول کرنے کی ضروررخصت ہوگی۔
صبح صادق کے بعد نماز عشا ووتر کی قضا کا حکم دینے میں مشقت وحرج ہے۔ کیونکہ تہائی رات یا آدھی رات تک نماز عشا موخر کرنے میں مشقت نص سے ثابت ہے ۔ حدیث میںہے :عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لو لا أن أشق علی أمتي لأمرتہم أن یوخروا العشاء الی ثلث اللیل أو نصفہ۔ أخرجہ الترمذي عن أبي ہریرۃ رضي اللہ عنہ۔ اور دفع حرج ومشقت کے لیے قول امام سے صاحبین کے قول کی طرف رجوع کرنا درست ہے۔
دوسرا موقف: نماز عشا قضا پڑھیںاور قول امام سے عدول کی حاجت نہیں۔
ان دنوں بوقت فجر نمازِ عشا ووترکی قضا پڑھیں۔ کہ شفق ابیض کی موجودگی میں اگر عشا بطور ادا پڑھیں تو قول صاحبین پر تو ہوجائے گی لیکن قول امام پر نہ ہوگی اور پڑھی بے پڑھی برابر ہوگی۔ اور بعد میں پڑھنے سے سب کے نزدیک متفقہ طور پر ہوجائے گی۔ پھر ائمہ حنفیہ میں کسی امام سے یہ منقول نہیںکہ بلغاریہ اور لندن وغیرہ میں جب کہ شفق ابیض غروب نہ ہوتو صاحبین کے قول پرعمل کرتے ہوئے اسی وقت نماز عشا پڑھ لی جائے۔ لہٰذا حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مذہب جو احتیاط پر مبنی ہے اسی کو اختیارکیاجائے، جیسا کہ درمختار وردالمحتار کے حوالے سے حضرت صدرالشریعہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے قول امام کواختیار کرتے ہوئے عشا ووترکی قضا پڑھنے کا حکم دیا۔
قول امام سے بے ضرورت عدول جائز نہیںاور ضرورت مفقود ۔کہ ان خطوں میں نماز عشا کو قضا ہونے سے بچانے کاعذرضرورت شرعیہ نہیںجس کے سبب امام اعظم کے مذہب مہذب سے عدول جائز ہوحالانکہ وہی من حیث الدلیل اقویٰ ہے ۔ اس لیے کہ وہی احوط ہے۔ اور اس سے عدول میں مقتضائے احتیاط کاخلاف لازم آتاہے، اور وقت سے پہلے عشا پڑھ لینے کا شبہہ قویہ موجودہے، جس سے بچنے کی ضرورت ہے۔ تو ثابت ہوا کہ ضرورت بھی امام اعظم کے قول پر عمل کی طرف داعی ہے۔ علاوہ ازیں اس مسئلہ میں جب امام حلوانی اما م بقالی اور امام برہان کبیر رحمہم اللہ سے سوال ہوا تو ان حضرات کے درمیان عشا کی فرضیت اور عدم فرضیت کااختلاف توہوا مگر کسی نے یہ نہ فرمایا کہ اس پیچیدہ صورت میںقول صاحبین پر عمل کیاجائے۔
ان حضرات کے بعد کے مشائخ میں بھی کسی سے یہ منقول نہیں ہے کہ جب قول امام پر وقت آتا ہی نہیںہے توفرض ساقط کرنے یا قضا پڑھنے کے بالمقابل راجح یہ ہے کہ قول صاحبین کے مطابق شفق احمر غروب ہوتے ہی عشا ووتر پڑھ لی جائے۔ معرض بیان میں قول صاحبین کاعدم ذکر اس امرکی دلیل ہے کہ مسئلہ شفق میں قول امام ہی معتمد اور معول علیہ ہے۔ جہاں تک دفع حرج اوریسر وسہولت کی بات ہے تو جہاں قول امام پر عشا کا وقت آتا ہی نہیں وہاں عشا وفجر دونوں نمازیں دومختلف وقت میں پڑھنے میں یسر نہیں ، بلکہ دونوں ایک ہی وقت میں(وقت فجر میں) پڑھنے میں یسر ہے۔
تفصیلات کے لیے درج ذیل کتب کی طرف رجوع کریں:
(۱)درمختار مع رد المحتار جلد اول مطلب فی فاقد وقت العشاء کاہل بلغار۔(۲) جد الممتارثانی :مطلب فی فاقد وقت العشاء کاہل بلغار۔ (۳)فتاویٰ رضویہ ۱۰؍۶۲۳ مطبع برکات رضا پوربندر۔(۴)بہارشریعت سوم صفحہ ۱۶۔ (۵)فتاویٰ فیض الرسول جلد اول صفحہ ۱۷۹۔(۶)فتاویٰ یورپ ۱۷۸۔(۷)صبح وشفق کی تحقیق ص۱۲۵،۵۰،۴۸،۴۷۔(۸)فتویٰ حضور محدث کبیر مخطوطہ۔ (۹)فتویٰ مفتی شمس الہدیٰ صاحب مخطوطہ۔
ان تفصیلات کے پیش نظر مفتیان کرام کی بارگاہ میں درج ذیل سوالات حاضر ہیں۔ امید کہ محقق اور مفصل جوابِ باصواب عطا فرماکر عنداللہ ماجور ہوں گے۔
سوالات
(۱) جن بلاد میں شفق ابیض غروب ہونے سے پہلے صبح صادق طلوع ہوجاتی ہے اور عشا کا وقت نہیں آتا وہاں کے مسلمانوں پر نماز عشا فرض ہوگی یا نہیں؟
(۲) اگر فرض ہوگی تو انھیں کس وقت ادا کیاجائے شفق احمر کے غروب کے بعد یعنی شفق ابیض کی موجودگی میں یا طلوع صبح صادق کے بعد ؟
(۳) کیا ان بلاد میں مذکورہ ایام میں صاحبین کے قول پر عمل کرتے ہوئے شفق احمر کے غروب کے بعد نماز عشا پڑھنے کاحکم دیاجاسکتا ہے؟
(۴) اگر لوگوں نے ان مخصوص ایام میں شفق احمر کے غروب کے بعد عشا پڑھ لی تو ان کافرض ادا ہوا یانہیں؟
(۵) شفق ابیض کی موجودگی میں یا طلوع صبح صادق کے بعد عشا پڑھی جائے تو بہ نیت ادا پڑھنی ہوگی یا بہ نیت قضا؟
(۶) جن خطوں میں غروب آفتاب کے ساتھ ہی صبح صادق ہوجاتی ہے یا جہاں غروب شفق احمر کے بعد ایک دومنٹ یا اس سے کم وقفہ سے صبح صادق ہوجاتی ہے وہاں نماز عشا کی کیا صورت ہوگی؟
(۷)طلوع صبح صادق کے بعدعشا پڑھی جائے تو فجرکی نماز سے پہلے پڑھی جائے یا فجر کی نماز کے بعد؟
(۸)روزہ رکھنے والے کس وقت سحری کریں گے؟ شفق ابیض چمکنے سے پہلے یا صبح صادق طلوع ہونے سے پہلے؟۔
(۹)غروب شمس کے ساتھ صبح صادق طلوع ہوجائے ، یا غروب وصبح کے درمیان بہت قلیل وقفہ ہوتو سحری اور توالی صیام رمضان کی کوئی شرعی صورت ہے؟علامہ شامی علیہ الرحمہ نے تین صورتیں ذکر کی ہیں مگر اعلیٰ حضرت نے دو صورتوں کو رد کرکے صرف قضا کو تسلیم کیا ہے ۔ اس سلسلہ میں آپ کا تحقیقی جواب مطلوب ہے؟
(۱۰)چونکہ ان ایام میں شفق ابیض اور صبح صادق ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں لہٰذا وقت کے اعتبار سے ان میں تمییز کی صورت کیا ہوگی؟
(۱۱) آج کل ان علاقوں میں جو تین موقف اختیار کیے گئے جن کا ذکر اوپر ہوا وہ شرع کے موافق ہیں یا نہیں؟اگر نہیں تو اس کی کیاوجہ ہے؟
(۱۲) کریمہ انسٹی ٹیوٹ ناٹنگھم کے فتوے میں مذکور چاروں صورتوں کی صحت یا عدم صحت کو فقہ حنفی کی روشنی میں واضح فرمائیں۔
فیضان المصطفیٰ قادری
جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی
سوال نمبر - ۳
قصر صلوٰۃ کے جدید مسائل اور مسافت ِسفر کی تحقیق
اللہ رب العزت نے اپنے بندوں پر جوعبادتیں فرض کی ہیں ان میںسب سے اہم اور افضل واعلیٰ عبادت نماز ہے جس کی ادائیگی کا سخت تاکیدی حکم دیاگیا۔ او ر قصداً ایک وقت کی نماز چھوڑنے پر شدید وعیدیں وارد ہوئیں۔ مگر اسی کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حالت ِسفر میں قصر صلوٰۃ کا حکم دے کر اپنے بندوں پر حد درجہ آسانی پیدا فرمادی، ارشاد خداوندی ہے: وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلٰوۃِ اِنْ خِفْتُمْ أنْ یَّفْتِنَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا۔ (سورہ نساء آیت۱۰۱) اس آیت کریمہ میں ’’خوفِ فتنہ‘‘کی قید واقعی ہے ، احترازی نہیں۔ یعنی اُس دور میں عام طور پر سفر خوف فتنۂ کفار سے خالی نہ تھا، اس لیے یہ قید ذکر کی گئی۔ یہ مطلب نہیں کہ خوفِ فتنہ ہوتو قصر کیاجائے ورنہ نہیں۔ جیسا کہ متعدد احادیث صحیحہ سے ظاہرہے۔ مسلم شریف میںہے: عن یعلی بن امیۃ قال : قلت لعمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ انما قال اللہ عزوجل (لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوۃِ اِنْ خِفْتُمْ أنْ یَّفْتِنَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا) فقد أمن الناس فقال : اني عجبت مما عجبت منہ فسألت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال: صدقۃ تصدق اللہ بہا علیکم فاقبلوا صدقتہ‘‘۔ (مسلم شریف جلد اول صفحہ ۲۴۱ کتاب صلاۃ المسافر وقصرہامجلس برکات)
یہ بھی واضح رہے کہ اس آیت میں ’’وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الاَرْضِ‘‘ سے مطلق سفر مراد نہیں، بلکہ وہ سفر مراد ہے جو موجب قصر ہوتا ہے۔ چنانچہ الجوہرۃ النیرۃ میںہے: (السفر الذی تتغیر بہ الاحکام ) أی الاحکام الواجبۃ علیہ وتغیرہا قصر الصلوٰۃ واباحۃ الفطر وامتداد مدۃ المسح الی ثلاثۃ أیام وسقوط الجمعۃ والعیدین والاضحیۃ وحرمۃ خروج المرأۃ بغیر محرم‘‘۔(الجوہرۃ النیرۃ جلد۱ صفحہ ۳۳۱ باب صلاۃ المسافر)
ہمارے فقہائے احناف نے اس سفر کی کم سے کم مدت تین دن بیان کی ہے۔ بدائع الصنائع میں ہے: وأقلہا غیر مقدر عند أصحاب الظواہر، وعند عامۃ العلماء مقدر، واختلفوا فی التقدیر قال أصحابنا : مسیرۃ ثلاثۃ ایام سیر الابل ومشي الاقدام، وہو المذکور فی ظاہر الروایۃ۔ (بدائع الصنائع جلد ۱ صفحہ ۴۰۰، بیان مایصیر بہ المقیم)
قدوری میںہے: السفر الذی تتغیر بہ الاحکام أن یقصد الانسان موضعاً بینہ وبین مصرہ مسیرۃ ثلاثۃ ایام فصاعداً۔ (قدوری صفحہ ۳۰ باب صلاۃ المسافر)
مبسوط للشیبانی میںہے: قلت: أرأیت المسافر ہل یقصر الصلاۃ في أقل من ثلاثۃ أیام ؟ قال : لا، قلت: فان سافر مسیرۃ ثلاثۃ ایام فصاعداً ؟ قال: یقصر الصلوٰۃ حین یخرج من مصرہ۔(المبسوط للشیباني جلد ۱صفحہ ۲۶۵، باب صلاۃ المسافر)
بہارشریعت میں ہے: ’’شرعاً مسافر وہ شخص ہے جو تین دن کی راہ تک جانے کے ارادے سے بستی سے باہر ہوا ‘‘ ۔ (حصہ چہارم ص۶۷)
مذکورہ بالا جزئیات سے واضح ہے کہ احناف کے نزدیک موجب قصر تین دن کا سفر ہے۔ جس کو پیدل چل کر یا اونٹ پر سوار ہوکر اپنی ضرورتوں اور حاجتوں کی تکمیل کے ساتھ پورا کیاجاسکے۔ متأخرین فقہائے کرام نے مسلمانوں کی سہولت کے لیے اس بات کا اندازہ لگایا کہ یہ مسافت کتنے فرسخ میں طے کی جاسکتی ہے تو اس میں اقوال مختلف ہوگئے۔ بعض فقہاء نے اس مسافت کو ۲۱؍فرسخ اور بعض نے ۱۵ ؍فرسخ قرار دیا،جب کہ بعض نے۱۸ ؍فرسخ کاقول کیا، اوریہی مفتی بہ ہے۔ (کفایہ مع فتح القدیرج۲ص۵)
رد المحتار میںہے: قال فی النہایۃ : أی التقدیر بثلاث مراحل قریب من التقدیر بثلاثۃ ایام لان المعتاد من السیر فی کل یوم مرحلۃ واحدۃ خصوصاً فی أقصر أیام السنۃ کذا فی المبسوط اھـ وکذا فی الفتح من أنہ قیل یقدّر بواحد وعشرین فرسخاً وقیل بثمانیۃ عشر وقیل بخمسۃ عشر، وکل من قدّر منہا اعتقد أنہ مسیرۃ ثلاثۃ أیام اھـ۔ ای بناء علی اختلاف البلدان فکلُّ قائل قدر ما فی بلدہ من أقصر الایام او بناء علی اعتبار اقصر الایام أو أطولہا او المعتدل منہا۔ وعلی کل فہو صریح بان المراد بالایام ما تقطع فیہا المراحل المعتادۃ فافہم۔ (رد المحتار ۲؍۱۲۳باب صلاۃ المسافر،مطبع کراچی)
اسی میں ہے: (قولہ ولا اعتبار بالفراسخ) الفرسخ ثلاثۃ أمیال والمیل أربعۃ آلاف ذراع علی ما تقدم فی باب التیمم(قولہ علی المذہب) لان المذکور فی ظاہر الروایۃ اعتبار ثلاثۃ ایام کما فی الحلیۃ وقال فی الہدایۃ : ہو الصحیح احترازاً عن قول عامۃ المشائخ من تقدیرہا بالفراسخ، ثم اختلفوا فقیل : واحد وعشرون وقیل ثمانیۃ عشر، وقیل خمسۃ عشر والفتویٰ علی الثانی لأنہ الاوسط۔ وفی المجتبیٰ فتوی ائمۃ خوارزم علی الثالث۔ وجہ الصحیح ان الفراسخ تختلف باختلاف الطریق فی السہل والجبل والبر والبحر بخلاف المراحل۔معراج (رد المحتار ۲؍۱۲۳ باب صلاۃ المسافر مطبع کراچی)
امام بدرالدین عینی فرماتے ہیں: عن محمد لم یریدوا بہ السیر لیلاً ونہاراً، لانہم جعلوا النہار للسیر واللیل للاستراحۃ۔ لوسلک طریقاً ہی مسیرۃ ثلاثۃ ایام وأمکنہ أن یصل الیہا فی یوم من طریق أخری قصر ثم قدّروا ذلک بالفراسخ أحد وعشرون فرسخاً وقیل ثمانیۃ عشر وعلیہ الفتویٰ وقیل خمسۃ عشر فرسخاً۔ والی ثلاثۃ ایام ذہب عثمان بن عفان وابن مسعود، وروایۃ عن عبداللہ بن عمر، (عمدۃ القاری ج۷ صفحہ ۱۱۹)
ابھی آپ نے رد المحتار کے حوالے سے پڑھا کہ فرسخ کا اعتبار نہیںکہ وہ پہاڑی ، ہموار زمین ، خشکی اور دریائی راستوں کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے، البتہ تین مراحل کی تقدیر تین دن کی مدت سے قریب تر ہے۔ یہی اعلیٰ حضرت امام احمدرضا قدس سرہ نے بھی تحریر فرمایا ہے۔ فتاویٰ رضویہ میںہے: ’’تین منزل پر قصرہے۔ (ج۳ ص۶۶۱)۔ نیز اسی میںہے: ’’عرف میں منزل بارہ کوس ہے اور ان بلاد میںہرکوس ۸۵ میل ہے۔ یعنی ایک میل اور میل کے تین خمس۔ اور تین میل کا ایک فرسنگ ، تو ایک منزل چھ فرسخ اور دوخمس فرسخ کی ہوئی‘‘۔ (فتاویٰ رضویہ ج۳ ص۶۶۱)
پھر زمانہ بدلا ، حالات بدلے، مسافتوں کے ناپنے کا پیمانہ بدلا تو علمائے کرام نے میل اور کلومیٹر سے مسافت سفر کی تحدید شروع کردی اور اس میں بھی اقوال مختلف ہوگئے۔ علامہ ابن حجر عسقلانی میل کی تحقیق فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:قال النووی المیل ستۃ آلاف ذراع والذراع اربعۃ وعشرون اصبعاً معترضۃ معتدلۃ والاصبع ست شعیرات معترضۃ معتدلۃ اھـ۔وہذا الذی قالہ ہو الاشہر، ومنہم من عبّر عن ذلک باثنی عشر ألف قدم بقدم الانسان، وقیل ہو أربعۃ آلاف ذراع، وقیل بل ثلاثۃ آلاف ذراع، نقلہ صاحب البیان، وقیل خمسمائۃ صحّحہ ابن عبدالبر، وقیل ہو ألفا ذراع۔ ومنہم من عبر عن ذلک بالف خطوۃ للجمل، ثم ان الذراع الذی ذکر النووی تحدیدہ قد حررہ غیرہ بذراع الحدید المستعمل الآن فی مصر والحجاز فی ہذہ الاعصار فوجدہ ینقص عن ذراع الحدید بقدر الثمن، فعلی ہذا فالمیل بذارع الحدید علی القول المشہور خمسۃ آلاف ذراع ومائتان وخمسون ذراعاً، وہذہ فائدۃ نفیسۃ قلّ من نبہ علیہا۔ (فتح الباری ج۲ ص۸۰۶کتاب تقصیر الصلاۃ)
مذکورہ بالا اقتباس سے یہ ظاہر ہوا کہ خود میل کی تعیین وتحدید میں شدید اختلاف ہے۔ اور پھر میل بھی دوطرح کا ہوتا ہے، میل شرعی اور میل انگریزی، شرعی میل انگریزی میل سے بڑا ہوتا ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ نے مسافت قصر کی تحدید ۵۷؍ ۵۸ میل سے کی ہے۔ فتاویٰ رضویہ میں ایک جگہ فرماتے ہیں:’’ اگر پندرہ راتوں کی نیت پوری یہیں ٹھہرنے کی تھی اگر چہ دن میں کہیں اور جانے اور واپس آنے کا خیال تھا تو اقامت صحیح ہوگئی نماز پوری پڑھی جائے گی جب کہ وہ دوسری جگہ الٰہ آباد سے چھتیس کوس یعنی ستاون ، اٹھاون میل کے فاصلے پر نہ ہو‘‘۔( فتاویٰ رضویہ ج۳ ص۰ ۶۷)
اسی میں دوسری جگہ ہے : ’’اگر اپنے مقام اقامت سے ۲ ۱ ۵۷(ساڑھے ستاون )میل کے فاصلے پر علی الاتصال جانا ہو کہ وہیں جانا مقصود ہے، بیچ میںجانا مقصود نہیںاور وہاں پندرہ دن کامل ٹھہرنے کا قصد نہ ہوتو قصر کریںگے۔ (ج۳ ص۶۹۰)
اسی میںہے : ’’جو مقیم ہو اور وہ دس دس بیس بیس تیس تیس کوس کے ارادے پر جائے کبھی مسافر نہ ہوگا، ہمیشہ پوری پڑھے گا اگر چہ اس طرح پوری دنیا بھر کا گشت کرآئے، جب تک ایک نیت سے پورے چھتیس کوس یعنی ساڑھے ستاون میل انگریزی کے ارادے سے نہ چلے۔ (ج۳ ص۶۹۱)
حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوان فرماتے ہیں: ’’کوس کا اعتبار نہیں کہ کوس کہیں چھوٹے ہوتے ہیں کہیں بڑے ، بلکہ اعتبار تین منزلوں کا ہے۔ اور خشکی میں میل کے حساب سے اس کی مقدار ۸ ۳ ۵۷ میل ہے‘‘ (بہارشریعت حصہ چہارم ص۶۷بحوالہ فتاویٰ رضویہ )۔
علمائے اہل سنت کی اکثریت نے فتاویٰ رضویہ اور بہار شریعت کے قول پر اعتماد کیا ،اور اسی کو موجب قصر قرار دیا۔ اور اسی پر بنا کرتے ہوئے ۹۲، ۱۲ ۹۲ (بانوے، ساڑھے بانوے )کلومیٹر سے مسافت سفر کی تحدید کی ۔ جب کہ مولانا غلام رسول سعیدی کی تحقیق اس کے برخلاف ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’فقہا نے ذکر کیا ہے کہ ایک فرسخ تین شرعی میل کا ہے اور ایک شرعی میل چار ہزار ذراع (انگلیوں سے کہنی تک) کا ہوتا ہے اور ایک متوسط ذراع ڈیڑھ فٹ یعنی نصف گز کا ہوتا ہے لہٰذا ایک شرعی میل دوہزار گز کا قرار پایا اور اکیس فرسخ ترسٹھ میل شرعی ہیں جو ایک لاکھ چوبیس ہزار گز یعنی اکہتر انگریزی میل چار فرلانگ ایک سو ساٹھ گزہیں۔ اور یہ ایک سو پندرہ اعشاریہ ایک آٹھ نو (۱۸۹ء ۱۱۵) کلومیٹر کے برابر ہیں۔ فقہا کا دوسرا قول پندرہ فرسخ ہے اور پندرہ فرسخ پینتالیس میل شرعی ہیںجو نوے ہزار گز یعنی اکیاون انگریزی میل ، ایک فرلانگ بیس گز ہیںجوبیاسی اعشاریہ دوچھ آٹھ (۲۶۸ء۸۲) کلومیٹر کے برابر ہیں۔ فقہا کا تیسرا قول جو مفتی بہ ہے وہ اٹھارہ فرسخ ہے،اور اٹھارہ فرسخ چون میل شرعی ہیںجو ایک لاکھ آٹھ ہزار گز یعنی اکسٹھ انگریزی میل دوفرلانگ بیس گز ہیں اور یہ اٹھانوے اعشاریہ سات تین چار(۷۳۴ء ۹۸) کلومیٹر کے برابر ہے۔ (شرح صحیح مسلم جلد دوم ص۳۷۱)
مذکورہ بالا تفصیلات کی روشنی میں درج ذیل سوالوں کے جوابات مطلوب ہیں:
سوالات
سوال (۱)میل شرعی اور میل انگریزی میںکیا فرق ہے ؟ اور میل شرعی میل انگریزی سے کتنا بڑا ہوتا ہے؟نیز اگر میل کو مروجہ کلومیٹر میں تبدیل کیاجائے تو ایک میل شرعی اور ایک میل انگریزی کے کتنے کلومیٹر بنیںگے؟
سوال (۲)کتنے میل شرعی اور کتنے میل انگریزی کا عزم سفر موجب قصر ہے؟
سوال (۳) امام اہل سنت اعلیٰ حضرت قدس سرہ اور حضور صدرالشریعہ نے جتنے انگریزی میل مسافت سفر بیان کی ہے اس کے مطابق موجودہ پیمانے میں کتنے کلومیٹر بنتے ہیں؟
سوال (۴)دلائل سے یہ واضح کیاجائے کہ اعلیٰ حضرت قدس سرہ اور حضور صدرالشریعہ نے انگریزی میل میں جو مسافت بیان کی ہے وہی حق وصوا ب اور لائق قبول واعتماد ہے۔!
سوال (۵) ہمارے فقہا ئے احناف نے جواز قصر کے لیے جو شرطیں بیان کی ہیں ان میں ایک شرط ’’آبادی سے باہرہوجانا بھی ہے ‘‘۔ بدائع الصنائع میںہے: وأما بیان ما یصیر بہ المقیم مسافراً فالذی یصیر بہ مسافراً نیۃ مدۃ السفر والخروج من عمران المصر فلا بد من اعتبار ثلاثۃ اشیاء۔
بہارشریعت میںہے: محض نیت سفر سے مسافر نہ ہوگا بلکہ مسافر کا حکم اس وقت سے ہے کہ بستی کی آبادی سے باہر ہوجائے ، شہر میں ہے تو شہر سے ، گاؤں میںہے تو گاؤں سے ، اور شہر والے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ شہر کے آس پاس جو آبادی شہر سے متصل ہے اس سے بھی باہر ہوجائے۔ (حصہ چہارم ص۶۸)
بمبئی ،کلکتہ ، مدراس ، بنگلور ، حیدرآباد جیسے بڑے بڑے شہروں کا حال زمانہ قدیم کے شہروں سے بہت مختلف ہے۔ کثرت آبادی کے سبب عمارتوں کا ایک لمبا تسلسل ہوتاہے۔ انسانوں کی بھیڑ بھاڑ اور ٹرافک کی کثرت کے سبب کئی گھنٹوں تک سفر کرنے کے بعد بھی آدمی آبادی سے باہر نہیںہوپاتا، تو ان شہرو ں سے مدت سفر کے لیے نکلنے والے مسافرین کب اور کہاں سے قصر کریںگے؟
سوال (۶)تمام فقہاء نے وطن اصلی میں’’توطن‘‘ کو بھی ذکرکیاہے اور اس کا معنی یہ بیان کیا کہ اس جگہ سکونت اختیار کرلی اور اس بات کا عزم کرلیا کہ اب یہاں سے نہ جائے گا۔ درمختار میںہے: الوطن الاصلی موطن ولادتہ او تأہلہ او توطنہ ، اس کے تحت شامی میںہے: قولہ : أو تأہلہ ای تزوجہ وقولہ او توطنہ ای عزم علی القرار فیہ وعد م الارتحال وان لم یتأہل ۔(شامی ج۱ ص۵۳۲)
بہارشریعت میںہے: وطن دوقسم ہے ، وطن اصلی وطن اقامت ، وطن اصلی وہ جگہ ہے جہاں اس کی پیدائش ہے یا اس کے گھر کے لوگ وہاں رہتے ہیں، یا وہاں سکونت کرلی، اور یہ وہ ہے کہ وہاں سے نہ جائے گا ۔ وطن اقامت وہ جگہ ہے کہ مسافر نے پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کا وہاں ارادہ کیا ہو۔ (حصہ چہارم ص۷۴)
اب سوال یہ ہے کہ وہ ملازمین جو اپنے وطن سے مسافت سفر یا اس سے دور کسی جگہ پر ملازمت کررہے ہیں اور وہاں زمین ، جائیداد ، راشن کارڈ، ووٹر آئی ڈی وغیرہ سب کچھ بنوالیا مگر ارادہ یہ ہے کہ ریٹائر منٹ کے بعد یہاں سے چلے جائیںگے یا کچھ بھی ارادہ نہیں، سب کچھ ریٹائرڈ ہونے کے بعد کے حالات پر موقوف ہے، تو ان کے حق میںوہ جگہ وطن اصلی ہے یا وطن اقامت؟ زمین ،جائداد، ووٹر آئی ڈی ، راشن کارڈ وغیرہ اس کے حق میں توطن میںموثر ہیںیا توطن کا مدار محض اس کے عزم وارادے پر ہے؟
سوال (۷) حاجی اگر عشرۂ ذی الحجہ میںمکہ مکرمہ حاضر ہوا تو مکہ میں اس کی اقامت کی نیت صحیح نہیں کیونکہ منیٰ ،عرفات کی طرف نکلنا ہے ۔ مکہ ، منیٰ ، عرفات ، مزدلفہ ، ہر جگہ قصر ہی کرے گا۔ لوٹ کر آنے کے بعد اگر مکہ مکرمہ میںمستقل پندرہ دن یا اس سے زائد ٹھہرنے کی نیت کرے تو مقیم ہوجائے گا ۔ اب تک ہمارے فقہائے کرام یہی فتویٰ دیتے رہے ۔
درمختار میں ہے: لو دخل الحاج مکۃ ایام العشر لم تصح نیتہ لانہ یخرج الی منی وعرفۃ (ج۲ص۱۰۷)
عالمگیری میں ہے: ان نوی الاقامۃ اقل من خمسہ عشر یوماً قصرہذا فی الہدایۃ (ج ۱ ص ۱۳۱)
بحرالرائق میںہے: ذکر فی کتاب المناسک : الحاج اذا دخل مکۃ فی ایام العشر ونوی الاقامۃ نصف شہر لایصح لانہ لابدلہ من الخروج الی عرفات فلایتحقق الشرط۔ (ج۲ ص۱۳۲)
بدائع الصنائع میںہے: ان الحاج اذا دخل مکۃ في أیام العشر ونوی الاقامۃ خمسۃ عشریوماً أودخل قبل ایام العشر لکن بقی الی یوم الترویۃ اقل من خمسۃ عشر یوماً ونوی الاقامۃ لایصح لابدلہ من الخروج الی عرفات فلا یتحقق نیۃ اقامتہ خمسۃ عشر یوماً فلایصح۔ (ج۱ص۹۸)
مگر اس حکم کا مدار اس پر ہے کہ منیٰ ، مکہ مکرمہ سے خارج ہے۔ مگر اب جب کہ مکہ مکرمہ کی آبادی اپنے چاروں اطراف میںکئی کئی کلومیٹر تک پھیل چکی ہے اور منیٰ تک متجاوز ہوچکی ہے تو کیا اب بھی وہی فتویٰ دیا جائے گا؟یا منیٰ کو مکہ میں شامل مان کر حکم میں تبدیلی ہوگی۔ اس سلسلے میں آپ کی اپنی تحقیق کیا ہے ؟ منیٰ مکہ میںداخل ہے یا خارج ؟ اور بہر صورت حاجی مذکور کے لیے حکم شرع کیاہے؟
کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کا مسئلہ
بہارشریعت میںہے:مسئلہ :کھڑے ہونے سے محض کچھ تکلیف ہونا عذر نہیںبلکہ قیام اس وقت ساقط ہوگا کہ کھڑا نہ ہوسکے یا سجدہ نہ کرسکے، یا کھڑے ہونے یا سجدہ کرنے میںزخم بہتا ہے یا کھڑے ہونے میں قطرہ آتا ہے یا چوتھائی ستر کھلتا ہے، یا قراء ت سے مجبور محض ہوجاتا ہے، یوہیں کھڑا ہوسکتا ہے مگر اس سے مرض میں زیادتی ہوتی ہے یا دیر میں اچھا ہوگایا ناقابل برداشت تکلیف ہوگی، توبیٹھ کر پڑھے۔مسئلہ : اگر عصا یا خادم یا دیوار پر ٹیک لگاکر کھڑا ہوسکتا ہے تو فرض ہے کہ کھڑا ہوکر پڑھے۔ مسئلہ: اگر کچھ دیر بھی کھڑا ہوسکتا ہے اگر چہ اتنا ہی کھڑا ہو کہ اللہ اکبر کہہ لے تو فرض ہے کہ کھڑا ہوکر اتنا کہہ لے پھر بیٹھ جائے۔ (بہارشریعت سوم ۵۸)
لیکن آج کل بڑے شہروں میں عام طور پر دیکھاجاتا ہے کہ کسی کوذرا گھٹنے میں درد ہوا یا کسی اور بیماری کی وجہ سے رکوع سجدہ کرنے میں معمولی پریشانی ہوئی تو کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا شروع کردیتے ہیں، اور اشارے سے رکوع سجدہ کرتے ہیں۔ حالانکہ نماز میں قیام بھی فرض ہے اور رکوع وسجود بھی فرض ہے۔ اور یہ فرضیت اسی وقت ساقط ہوسکتی ہے جب کہ کوئی شخص اس سے بالکل مجبور ہو یا ہلاکت یا ازدیادِ مرض کا صحیح اندیشہ ہو، اکثر دیکھا گیا ہے کہ مسجدوں میں کرسی کا انتظام ہوتا ہے ، کچھ لوگ کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتے ہیں اور اشارے سے ہی رکوع وسجود کرتے ہیں۔ حالانکہ مسجد سے باہر نکل کردیر تک کھڑے باتیں کرتے رہتے ہیں۔
سوال (۸):سوال یہ ہے کہ کیا ایسے لوگوں کا کرسی پر بیٹھ کر اشارے سے نماز پڑھنا درست ہے اور اس سے فرضیت ادا ہوجائے گی؟۔ اور یہ بھی واضح کیاجائے کہ اس طرح بیٹھ کر اشاروں سے نماز پڑھنا کن لوگوں کے لیے جائز ہے اور ان کا عذر کس درجہ کا ہونا چاہیے ؟۔
میل اور کیلومیٹر کی تحقیق کے لیے درج ذیل عبارتیں مفید ہوسکتی ہیں:
المعجم الوسیط میںہے:
المیل : منار یبنی للمسافر في الطریق یہتدی بہ ویدل علی المسافۃ ومسافۃ من الارض المتراخیۃ۔ ومقیاس للطول قُدِّر قدیماً بأربعۃ آلاف ذراع وہو المیل الہاشمي ، وہو برّي وبحري ، فالبري یقدر الآن بما یساوی ۱۶۰۹ من الأمتار، والبحري بما یساوي ۱۸۵۲ من الأمتار۔ (۸۹۴)
دی ورلڈ بک انسائیکلوپیڈیامیںہے:
The mile was first used by the Romans. The Roman Mile was about 5000 feet long and had 1000 paces, each 5 feet in length. The term Mile comes from milia passuum, the Latin words for a thousand paces, in the metric system, the unit used to measure land distance is the kilometer. One Mile equals 1.609 kilometers. (the world book Encyclopadia Vol. 13 Pg 542)
سب سے پہلے میل کا استعمال رومیوں نے کیا ۔ رومن میل تقریباً ۵۰۰۰ فٹ اور ۱۰۰۰ پیس peces(قدم ، ٹکڑے یا فٹ) کا ہوتاتھا، ہر پیک پانچ فٹ کا۔ میل کالفظ لاطینی لفظ ’’میلاپسّوم ‘‘ سے ماخوذ ہے، جو کہ نظام پیمائش میں ۱۰۰۰ پیس paces(قدم ، ٹکڑے یا فٹ ) کا ہوتاہے۔ مسافت زمین کی پیمائش کے لیے کیلومیٹر کا استعمال کیاجاتا ہے۔ اور ایک میل ۶۰۹ء۱ کیلومیٹر کا ہوتا ہے۔
شمشاد احمد مصباحی
جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی
-----------------------------------------------------------------------------------------
جوابات / فیصلے
جواب نمبر - ۱
آرٹی فیشیل (مصنوعی) زیورات کا شرعی فیصلہ
۱۔ سونے چاندی کے علاوہ دوسری دھاتوں کے زیورات کا استعمال ناجائز و مکروہ تحریمی ہے۔
رد المحتار میں ہے: ’’والتختم بالحدید والصفر والنحاس والرصاص مکروہ للرجال والنساء‘‘۔ [ج۹، ص۵۱۸، کتاب الحظر والاباحۃ، مکتبہ زکریا]
اور اگر ان زیورات پر سونے یا چاندی کا خول چڑھا دیا جائے تو جائز۔ فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے: ’’لابأس بأن یتخذ خاتم حدید قد لوی علیہ او البس بفضۃ حتیٰ لا یری‘‘۔ [ج۸، ص۱۲۷، مکتبہ زکریا]
اور اگر ان پر محض سونے یا چاندی کا پانی چڑھایا گیا ہو تو ان کا پہننا ناجائز۔ اس لئے کہ سونے کا پانی یا چاندی کی قلعی کردینے سے اصل شیٔ کا حکم نہیں بدلتا۔ تبیین الحقائق میں ہے: ’’اما التمویہ الذی لا یخلص فلا بأس بہ بالاجماع لأنہ مستھلک فلا عبرۃ ببقائہ لوناً‘‘۔ [ج۷، ص۲۶، پوربندر]
فتاویٰ رضویہ میں ہے:
سوال: وہ اشیاء جن پر سونے چاندی کا پانی چڑھا ہو جسے گلٹ کہتے ہیں مرد استعمال کرسکتا ہے یا نہیں؟
جواب:کرسکتا ہے، سونے یا چاندی کا پانی وجہ ممانعت نہیں، ہاں! اگر وہ شیٔ فی نفسہٖ ممنوع ہو تو دوسری بات ہے جیسے سونے کا ملمع کی ہوئی تانبے کی انگوٹھی۔ [ج۹، ص۱۳۴]
۲۔ زیورات کا استعمال مرتبۂ زینت میں ہے اور محض زینت کے لئے کسی ممنوع شرعی کی رخصت و تخفیف نہیں ہو سکتی اس لئے سونے چاندی کے علاوہ دوسری دھاتوں کے زیورات کا استعمال مکروہ تحریمی ہی رہے گا خواہ ان پر سونے یا چاندی کا پانی وقلعی چڑھائی گئی ہو یا نہ کی گئی ہو۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے:
’’زینت و فضول کے لئے کسی ممنوع شرعی کی اصلاً رخصت نہ ہو سکنا بھی ایضاح سے غنی، جس پر اصل اول بدرجۂ اولیٰ دلیل وافی ورنہ احکام معاذ اللہ ہوائے نفس کا بازیچہ ہو جائیں‘‘۔ [ج۹، ص۲۰۰]
۳۔ وہ زیورات جن پر سونے یا چاندی کی ملمع سازی کی گئی ہو یا نہ کی گئی ہو ان کی خرید و فروخت مکروہ تحریمی ہے۔ البتہ بیچنے کی ممانعت ویسی نہیں جیسے پہننے کی ممانعت ہے۔
درمختار میں ہے: ’’فاذا ثبت کراہۃ لبسھا للتختم ثبت کراھۃ بیعھا لما فیہ من الاعانۃ علیٰ ما لا یجوز۔ وکل ما ادی الیٰ مالایجوز لایجوز‘‘۔ [ج۹، ص۵۱۸، مکتبہ زکریا]
فتاویٰ رضویہ میں ہے:
مسئلہ: ایک شخص لوہے اور پیتل کا زیور بیچتا ہے اور ہندو مسلم سب خریدتے ہیں اور ہر قوم کے ہاتھ وہ بیچتا ہے غرض کہ یہ وہ جانتا ہے کہ جب مسلمان خرید کریںگے تو اس کو پہنیںگے تو ایسی چیزوں کا فروخت کرنا مسلمان کے ہاتھ جائز ہے یا نہیں؟
جواب: مسلمان کے ہاتھ بیچنا مکروہ تحریمی ہے۔ [ج۹، ص۱۳۳، نصف آخر]
قال ابن الشحنہ: ’’الا ان المنع فی البیع اخف منہ فی اللبس اذ یمکن الانتفاع بھا فی غیر ذالک ویمکن سبکھا وتغییر ھیئتھا‘‘۔ [رد المحتار، ج۹، ص۵۱۹، مکتبہ زکریا]
البتہ اس سے حاصل شدہ مال مال خبیث نہیں بلکہ مال طیب ہے اس پر زکوٰۃ واجب اور اسے کسی بھی جائز کام میں خرچ کیا جا سکتا ہے۔ اس کی نظیر بیع وقت اذان جمعہ ہے کہ ایسی بیع مکروہ ہے مگر مبیع و ثمن حلال ہیں۔
۴۔ جن زیورات کا پہننا مکروہ ہے ان کا بنانا اور بنوانا بھی مکروہ۔ در مختار میں ہے: ’’فاذا ثبت کراہۃ لبسھا للتختم ثبت کراھۃ بیعھا لما فیہ من الاعانۃ علیٰ ما لا یجوز۔ وکل ما ادی الیٰ مالایجوز لایجوز‘‘۔ [ج۹، ص۵۱۸، مکتبہ زکریا]
اور کافر نوکر سے مسلمان کے ہاتھ فروخت کرانا مکروہ و ناجائز لما فیہ من الاعانۃ علیٰ المعصیۃ کما مر۔ البتہ کفار کے ہاتھ بیچنے میں حرج نہیں ہے۔
۵۔ جن صورتوں میں ان زیورات کی خرید و فروخت اور ان کا استعمال جائز نہیں ہے ان کے جواز کا کوئی حیلہ تلاش کرنا بے سود ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
اس پر ارکان فیصل بورڈ کے ساتھ جملہ مندوبین کرام کے دستخط ثبت ہیں
جواب نمبر - ۲
ممالک بعیدہ میں عشا و فجر کے اوقات کا شرعی حکم
(۱) باتفاق مندوبین یہ طے پایا کہ دنیا کے جن علاقوں میں نماز عشا کا وقت نہیں ملتا وہاں کے مسلمانوں پر بھی نماز عشا فرض ہے۔
(۲-۳)اصل حکم یہ ہے کہ ان مقامات پر نماز عشا کی قضا کی جائے مگر تصریحات فقہاء میں اس کا ذکر نہیں کہ کب قضا کی جائے۔ مندوبین کرام نے بحث و تمحیص کے بعد یہ طے کیا کہ جو لوگ قول صاحبین کے مطابق بعد غروب شفق احمر نماز عشاپڑھ لیتے ہوںانہیں اصل حکم یعنی دربارۂ وقت عشا قول امام اعظم بتا دیا جائے اور اگر بتانے کے باوجود نہ مانے تو ان سے تعرض نہ کیا جائے۔
(۴) اگر لوگوں نے ان مقامات پر قول صاحبین پر عمل کرتے ہوئے نماز عشا پڑھ لی تو ان کے ذمہ سے قول صاحبین کے مطابق فرض ساقط ہو جائے گا اور اس نماز کے اعادہ کا حکم نہ ہوگا ۔
(۵) ان مقامات پر شفق ابیض یا طلوع صبح صادق کے بعد نماز عشا پڑھنے کے لئے قضا یا ادا کی نیت کرنے کی ضرورت نہیں، مطلق نیت کافی ہے۔
(۶،۷ اور ۱۰؍نمبر کے سوالات مزید تحقیق طلب ہیں۔
(۸) ان مقامات پر روزہ کے لئے سحری کھانے والے بہرحال طلوع صبح صادق سے قبل سحری سے فارغ ہو جائیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’کلوا واشربوا حتیٰ یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود‘‘۔ [سورۃ البقرۃ]
(۹) جن مقامات پر غروب شمس کے ساتھ ہی سورج طلوع ہو جائے وہاں ہر روزہ کی قضا ہے اور جن مقامات پر غروب وطلوع صبح صادق کے درمیان اتنا قلیل وقفہ ملتا ہو کہ بقدر بقائے صحت و قوت کھانا نہ کھاسکے تو جو شخص ناغہ کر کے روزہ رکھنے کی استطاعت رکھتا ہو تو جتنے دن روزہ رکھ سکے رکھے بقیہ کی قضا کرے اور جو شخص ناغہ کر کے روزہ نہ رکھ سکے تو سب روزوںکی قضا کرے۔
(۱۱) تینوں موقف میں پہلا موقف یعنی قول صاحبین پر عشا پڑھ لینے کی رائے کے متعلق جواب نمبر ۲؍ اور۳؍ ملاحظہ کریں۔ رہا دوسرا اور تیسرا موقف تو یہ فقہ حنفی کے مخالف ہیں لہٰذا یہ ناقابل قبول ہیں۔
(۱۲) کریمہ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق چاروں مذکورہ صورتیں فقہ حنفی کے مخالف ہونے کی بنا پر ناقابل قبول ہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
(اس پر ارکان فیصل بورڈ کے ساتھ جملہ مندوبین کرام کے دستخط ثبت ہیں)
ہوائی جہازو ٹرین پر نماز کا مسئلہ
شرعی کونسل آف انڈیا کے دسویں فقہی سیمینارمیںمندوبین کرام کے درمیان ہوائی جہاز اور ٹرین پر نماز کے مسئلے پر بحث ہوئی اور یہ طے پایا کہ شرعی کونسل کے پہلے اور چھٹے فقہی سیمینار میں جو فیصلہ کیا جا چکا ہے وہی فقہ حنفی میں صحیح و درست ہے، لہٰذا اسی فیصلے کو برقرار رکھا جاتا ہے، مسلمان حنفی مقلدین اسی حکم پر عمل کریں۔
(۱) فضاء میں اڑتے جہاز پر نماز پڑھنے کا یہی حکم ہے جو کشتی پر نماز پڑھنے کا ہے یعنی قبلہ رو ہو کر نماز پڑھے،رکوع و سجدہ کے ساتھ بیٹھ کر بھی پڑھنے کی اجازت ہے مگر افضل یہ ہے کہ کھڑے ہو کر پڑھے اوراعادہ واجب نہیں۔
(۲) ٹھہرے ہوئے جہاز پر نماز پڑھنے کا وہی حکم ہے جو تخت پر نماز پڑھنے کاہے۔
(۳) ٹرینوں پر نماز کے جواز و عدم جواز سے متعلق بحثوں کے بعد طے ہوا کہ ٹرینوں کا روکنا و چلانا اختیار عبد میںہے اس میں اعذار معتبرہ فی التیمم میں سے کوئی عذر متحقق نہیں ہے کہ چلتی ٹرینوں پر فرض و واجب ادا کرنے سے اسقاط فرض و واجب ہوسکے۔ لہٰذا وقت جارہا ہو تو جس طرح پڑھنا ممکن ہو پڑھ لے جب موقع ملے اسے دوبارہ پڑھے۔
اعلیٰ حضرت کے زمانے سے لیکر آج تک ٹرینوں کے چلنے، رکنے اور ٹرینوں سے اترنے اور اس پر چڑھنے وغیرہ کے حالات میں کوئی تغیر نہیں ہوا ہے اس لئے ان کے فتوے سے عدول کی کوئی وجہ معقول نہیں ہے ۔ واللّٰہ تعالیٰ اعلم
نوٹ: چلتی ٹرین پر فرض و واجب نمازوں کے عد م جواز کا فتویٰ زمانۂ اعلیٰ حضرت سے اب تک باتفاق علمائے اہلسنّت بلا انکارو اختلاف سب کے نزدیک مقبول و معمول رہا ہے اور بے وجہ شرعی اس کی مخالفت موجب تفریق و ہیجان ہونے کے ساتھ فساد نماز کا سبب بھی ہے ۔ اور ایک امر متفق علیہ کا خلاف بھی ہے۔
اس پر ارکان فیصل بورڈ کے ساتھ جملہ مندوبین کرام کے دستخط ثبت ہیں ۔
سوال نمبر – ۳
قصر صلوٰۃ کے متعلق فیصلہ جات
نوٹ: نمبر۔۱، ۲، ۴؍کے سوالات زیر تحقیق ہیں۔
۳۔ امام اہل سنت اور صدر الشریعہ علیہما الرحمہ نے مسافت سفر 57-3/5 ؍میل بیان فرمائی ہے موجودہ کلومیٹر کے مطابق باتفاق مندوبین اس کی مقدار 92.698؍کلومیٹر طے ہوئی جو 92-7/10؍کلومیٹر ہوئے۔
۵۔ سفر شرعی کا تحقق منتہائے آبادی سے نکلنے پر ہوگا۔ یوں ہی جس شہر میں داخل ہونا ہے اس کی آبادی میں داخل ہونا مراد ہے جائے قیام پر پہنچنے کا اعتبار نہیں۔
ہدایہ میں ہے:’’واذا فارق المسافر بیوت المصر صلیٰ رکعتین لأن الاقامۃ تتعلق بدخولھا فیتعلق السفر بالخروج عنہا فیہ الأثر عن علی رضی اللہ عنہ لو جاوزنا ھٰذا الخص لقصرنا‘‘۔ [ج۱، ص۱۴۶]
جد الممتار میں ہے:’’ویفیدہ ایضاً تصریحہم جمیعا بتحقق السفر بالخروج من عمران البلد‘‘۔ [ج۱، ص۳۵۹، مکتبہ عزیزیہ دکن]
۶۔ وطن اصلی کے علاوہ کسی اور مقام کے وطن اصلی ہونے کے لئے اس مقام پر اقامت کی نیت صادقہ یعنی عزم مصمم درکار ہے۔ محض مکان اور راشن کارڈ وغیرہ بنا لینا کافی نہیں یہ سب رہائشی سہولتوں کے لئے ہے۔
۷۔ باتفاق مندوبین یہ طے ہوا کہ منیٰ، مزدلفہ اور عرفات باب اقامت میں الگ الگ آبادی کا حکم رکھتے ہیں۔ کثرت آبادی کے باوجود منیٰ اور شہر مکہ کے مابین بقدر غلوہ پہاڑیوںکے حائل ہونے کی وجہ سے دونوں آبادیوں میں اتصال نہیں لہٰذا دونوں ایک شہر کے حکم میں نہیں ہوںگے۔ اس مسئلہ پر روشنی درج ذیل عبارت سے پڑتی ہے:
فتح القدیر میں ہے:’’وفی فتاویٰ قاضیخان فصل فی الفناء فقال اِن کان بینہ وبین المصر أقل من قدر غلوۃ ولم یکن بینھما مزرعۃ یعتبر مجاوزۃ الفناء أیضاً وان کان بینھما مزرعۃ أو کانت المسافۃ بینہ وبین المصر قدر غلوۃ یعتبر مجاوزۃ عمران المصر ھٰذا‘‘۔
[ج۲، ص۲۳]
۸۔ عذر شرعی کے بغیر بیٹھ کر نماز پڑھنے سے نماز نہیں ہوگی اور عذر شرعی کا مطلب بہار شریعت کی روشنی میں یہ ہے:
’’کھڑے ہونے سے محض کچھ تکلیف ہونا عذر نہیں بلکہ قیام اس وقت ساقط ہوگا کہ کھڑا نہ ہو سکے یا سجدہ نہ کر سکے یا کھڑے ہونے یا سجدہ کرنے میں زخم بہتا ہے یا کھڑے ہونے میں قطرہ آتا ہے یا چوتھائی ستر کھلتا ہے، یا قرأت سے مجبور محض ہو جاتا ہے۔ یونہی کھڑا ہو سکتا ہے مگر اس سے مرض میں زیادتی ہوتی ہے یا دیر میں اچھا ہوگا یا ناقابل برداشت تکلیف ہوگی تو بیٹھ کر پڑھے‘‘۔ [ج۳، ص۵۸]
اگر کسی سہارے سے کھڑا ہو سکتا ہے اگرچہ اللہ اکبر کہنے کی مقدار ہی سہی تو اتنی دیر کھڑا ہونا فرض ہے اس لئے مذکورہ حالات کے سوا زمین یا کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے سے نماز نہیں ہوگی اور قیام و رکوع وسجود پر قادر نہ ہو مگر زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہو تو کرسی پر بیٹھ کر نماز ہو جائے گی مگر ایسا ہرگز نہ کرے تاکہ شبہۂ تفاخر سے محفوظ رہے بلکہ زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھے اور اس صورت میں رکوع و سجود صرف سر کے اشارہ سے کرے اور اگر مسجد میںجماعت سے نماز پڑھنے میں کرسی استعمال کرنی ہی پڑے تو صفوں کے کنارے کرسی رکھی جائے تاکہ مصلیوں کے توحش کا سبب نہ بنے اور وسط صف میں زیادہ مکان نہ گھرے بلکہ اگر ممکن ہو تو کرسیوں کی قطار قائمین کی صفوں سے پیچھے رکھی جائے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
اس پر ارکان فیصل بورڈ کے ساتھ جملہ مندوبین کرام کے دستخط ثبت ہیں