باسمہ
تعالیٰ
شرعی
کونسل آف
انڈیا بریلی
شریف کا
گیارہواں سہ
روزہ فقہی
سمینار
منعقدہ
: ۱۹، ۲۰، ۲۱؍جمادی
الاولیٰ ۱۴۳۵ھ / ۲۱،۲۲،۲۳؍
مارچ ۲۰۱۴ء
بروز جمعہ،
ہفتہ، اتوار
بمقام:
رضا منزل ،
تاجدار
اہلسنت ہال ،
دارالعلوم
نوری ۔
کھجرانہ،
اندور )ایم
، پی(
فیصلہ مجلس
اول: منعقدہ ۱۹؍جمادی
الاولیٰ ۱۴۳۵ھ/
۲۱؍مارچ
۲۰۱۴ء
بروز جمعہ
عنوان: آپریشن
سے ولادت کا
شرعی حکم
سوالات:
(۱) محض
درد زہ کی
پریشانی سے
بچنے کے لئے
بذریعہ آپریشن
بچے کی ولادت
کا کیا حکم
ہے؟
(۲) عام
حالات میں
ڈاکٹر حضرات
کے دبائو میں
آکر آپریشن کرانا
جب کہ صورت
حال بہت زیادہ
سنگین نہ ہو کیسا
ہے؟
(۳) سنگین
صورت میں کیسے
ڈاکٹروں پر
اعتماد کر کے آپریشن
کرایا جائے
اور بہر صورت
آپریشن کا کیا
حکم ہے ؟
(۴) تین
بار آپریشن
سے بچہ پیدا
ہونے کے بعد
اطباء ضبط
تولیدکی
تاکید کرتے
ہیں اور ضبط
تولیدنہ کرنے کی
صورت میں
ہلاکت جان کا
خوف دلاتے ہیں
۔ ایسی صورت
میں ڈاکٹروں
کے مشورے پر
عمل کرنا شرعاً
کیسا ہے؟
جوابات:
(۱) باتفاق
مندوبین طے
ہوا کہ محض
دردزہ سے بچنے
کے لئے برائے
ولادت
آپریشن
کرانا
جائزنہیں ہے
اور حالات کے
تجربہ سے
معلوم ہوتا ہے
کہ خواتین بھی
ایسے آپریشن
کو ناپسند
کرتی ہیں۔بے
ضرورت اجنبیہ
عورت کے ستر
کا کھولنا،
دیکھنا،
چھونا ان سب
کی حرمت کتاب
و سنت میں
مصرح ہے۔ بے
ضرورت اعضائے
انسانی کی قطع
و برید، اس کے
لئے اضاعت مال
یہ سب چیزیں
اللہ تعالیٰ
کی امانتیں
ہیں جن میں
خیانت حرام ہے۔
’’ولا یحل مس
وجہہا و کفہا
وان امن
الشہوۃ لانہ
اغلظ ولذا
یثبت بہ حرمۃ
المصاہرۃ‘‘
[حاشیۃ
الطحطاوی
علیٰ الدر المختار،
ج۴،
ص۱۸۴]۔
اور در مختار
میں ہے: ’’لا
یرخص قتلہ أو
سببہ أو قطع
عضوہ وما لا
یستباح بہ
اختیار‘‘[درمختار،
ج۹،
ص۱۸۷،
کتاب
الاکراہ]۔واللہ
تعالیٰ اعلم
(۲،۳) تمام
مندوبین اس
امر پر متفق
ہیں کہ اگر
تجربہ کار ڈاکٹرمسلم
خواہ غیر مسلم
الٹرا سائونڈ
وغیرہ دیگر
آلات طبیہ کی
رپورٹ کی
بنیاد پر
آپریشن
کرانے کا
مشورہ دیں اور
مبتلٰی بہا کی
ظاہری حالت سے
مریضہ اور اس
کے تیماردار
آپریشن کے
علاوہ کوئی
صورت نہ پاتے
ہوں تو آپریشن
کرانے کی
اجازت ہے اور
اگر ڈاکٹر کا
مشورہ آلات
طبیہ کی رپورٹ
کے مطابق نہ
ہو یا مریضہ کی
ظاہری حالت سے
آپریشن
ضروری معلوم
نہ ہوتا ہو تو
آپریشن کی
اجازت نہیں
اور اس تمام
معاملہ میں
مسلم خاتون
ڈاکٹر کو
ترجیح دی جائے
۔قاعدہ شرعیہ
ہے:
’’الضرورات
تبیح المحظورات‘‘اور
الاشباہ میں
ہے: ’’لان
مباشرۃ
الحرام لا
تجوز الا
بالضرورۃ‘‘[الاشباہ، ج۱، ص۲۶۱، قاعدہ
خامسہ]
اور فتاویٰ
ہندیہ میں ہے: ’’لا
بأس بشق
المثانۃ اذا
کانت فیہا
حصاۃ‘‘[ج۴، ص۱۵۰]اور
محیط برہانی
میں ہے: ’’ومن
ذلک عند
الولادۃ
والمرأۃ
تنظر الیٰ موضع
الفرج من المرأۃ
وغیرہ لانہ لا
بد من قابلۃ
تقبل الولد
وتعالجہ
وبدونہا تخاف
الہلاک علیٰ
الولد‘‘[المحیط
البرہانی، ج۵، ص۱۷۹]اور
فتاویٰ
عالمگیریہ
میں ہے: ’’امرأۃ
حامل ماتت
وعلم أن مافی
بطنہا حی فانہ
یشق بطنہا من
الشق الأیسر
وکذا کان اکبر
رأیہم أنہ
حی یشق بطنہا‘‘[فتاویٰ
عالمگیریہ، ج۴، ص۱۱۴، کتاب
الکراہیۃ]۔واللہ
تعالیٰ اعلم
(۴) تین
بار آپریشن
کے بعد اگر
اطبائے حذاق
ضبط تولید کا
حکم دیں تو
ضبط تولید کے
وہ طریقے استعمال
میں لائے
جائیں جن میں
نسبندی و نل
بندی جیسے
آپریشن اور
بے جا کشف ستر
کی نوبت نہ آئے
۔ بے آپریشن و
بے کشف ستر
ضرورت پوری
ہوتی ہے تو
اجازت نہیں۔
رد المحتار
میں ہے: ’’(قولہ
وینبغی) کذا
اطلقہ فی
الہدایۃ
والخانیۃ
وقال فی
الجوہرۃ اذا
کان المرض فی
سائر بدنہا
غیر الفرج
یجوز النظر
الیہ عند
الدواء لأنہ
موضع الضرورۃ
وان کان فی
موضع الفرج
ینبغی ان یعلم
امرأۃ تداویہا
وان لم توجد و
خافوا علیہا
ان تہلک او یصیبہا
وجع لا تحتملہ
یستروا منہا
کل شیٔ الا موضع
العلۃ ثم
یداویہا
الرجل ویغض
بصرہ ما استطاع
الاموضع
الجرح-انتہیٰ‘‘[رد
المحتار، ج۴، ص۲۳۷]
واللہ
تعالیٰ اعلم
(اس
فیصلہ پر
ارکان فیصل
بورڈ کے ساتھ
جملہ مندوبین
کرام کے دستخط
ثبت ہیں)
باسمہ
تعالیٰ
شرعی
کونسل آف
انڈیا بریلی
شریف کا
گیارہواں سہ
روزہ فقہی
سمینار
منعقدہ
: ۱۹،
۲۰، ۲۱؍جمادی
الاولیٰ ۱۴۳۵ھ
/ ۲۱،۲۲،۲۳؍
مارچ ۲۰۱۴ء
بروز جمعہ،
ہفتہ، اتوار
بمقام:
رضا منزل ،
تاجدار
اہلسنت ہال ،
دارالعلوم
نوری ۔
کھجرانہ،
اندور )ایم
، پی(
فیصلہ مجلس
دوم: منعقدہ ۲۰؍جمادی
الاولیٰ ۱۴۳۵ھ/
۲۲؍مارچ
۲۰۱۴ء
عنوان: قربانی
اور اس کی
ٹھیکہ داری کا
شرعی حکم
سوال:
(۱) : قربانی
کے لئے بینک
قائم کرنے اور
اس کے لئے ٹھیکیداری
کا شرعی حکم
کیا ہے؟
جواب:
قربانی
بینک والے اور
ٹھیکے
دارجانوروں
کے خریدنے اور
قربانی کرنے
میں قربانی
کرنے والے کے
وکیل ہوتے
ہیں۔ اور ایسی
وکالت شرعاً
جائز ہے
بشرطیکہ
قربانی کے
تمام شرکا و
ذابح سنی صحیح
العقیدہ ہوں۔
در مختار میں
ہے ’’ التوکیل
صحیح بالکتاب
والسنۃ وہو
اقامۃ الغیر
مقام نفسہ فی
تصرف جائز
معلوم ‘‘(جلد۸
صفحہ ۲۴۱)بعض
صورتوں میں یہ
اجارہ پر بھی
مشتمل ہوتی ہے
کالسمسرۃ۔ اس
ضمن میں دو
شقیں یہ سامنے
آئیں کہ
ٹھیکہ دار
جانور کو کبھی
شرکا (شریک
معین) کی طرف
سے خرید لیتا
ہے اور کبھی
ٹھیکیدار
پہلے ہی سے
جانور خرید کر
رکھ لیتا ہے
بعد میں شرکا
تلاش کر کے
قربانی کرتا
ہے۔ان دو صورتوں
کا فیصلہ یہ
ہوا کہ اگر
ٹھیکیدار نے
متعین جانور
کسی کیلئے
خریدا اور اس
کے حکم سے قربانی
کرائی تو
بالاتفاق وہ
قربانی صحیح
ہوئی۔ اور اگر
ٹھیکیدار
جانور پہلے سے
خریدے تو وہ
ٹھیکیدار ہی
اس کامالک ہے
اب تاوقتیکہ جن
کے نام سے
قربانی کرنی
ہے وہ خود
متعین جانور
اس سے نہ
خریدیں ،
قربانی نہ
ہوگی۔یا یہ کہ
قربانی والا
(مضحی) کسی کو
وکیل شرا
بنائے یا ٹھیکہ
دار قربانی
کرنے والے کے
حکم سے کسی کو
وکیل شرا مقرر
کرے ۔ اور وہ
وکیل شرا
متعین جانور
کو خرید کر
قربانی کرے یا
قربانی کا حکم
دے تو قربانی
صحیح ہوگی
ورنہ نہیں ۔(
اس مسئلے کے
فقہی جزئیات
جواب نمبر۷ میں
آئیں گے)
سوال
(۲) قربانی
کے لئے رقم کی
مقدار مقرر کر
کے ٹھیکہ دینے
لینے کا شرعاً
کیا حکم ہے؟
جواب:
قربانی
کے لئے رقم کی
مقدار مقرر کر
کے ٹھیکہ لینا
، دینا جائز
ہے ، اگر قربانی
پرمقررہ رقم
سے زائدخرچ
ہوا تو مضحی
(قربانی کرنے
والا) اسے ادا
کرے۔ اوراگر
کچھ رقم قربانی
اور اس کے
مصارف سے بچ
گئی تو اگر
وہاں کا عرف
واپسی کا ہے
تو مضحی ( جس کی
طرف سے قربانی
ہوئی ہے) کو
واپس کرنا
لازم ہے ۔ ہاں
اگر مضحی کسی
خاص یا عام
مصرف خیر میں
خرچ کرنے کی
اجازت دے تو
اس کے مطابق
خرچ کیا جائے۔اگر
یہ عرف ہے کہ
باقی ماندہ
رقم واپس نہیں
کی جاتی ہے تو
ٹھیکیدار لے
سکتا ہے ۔
لیکن اگر عرف
کے خلاف پہلے
ہی سے مضحی نے
باقی رقم واپس
لینے کی شرط
کردی ہو تو
ٹھیکیدار پر
واپسی لازم ہے۔
فان المعروف
کالمشروط
وَاِنّ
الصریح یفوق
الدلالۃ۔واللہ
تعالیٰ اعلم
سوال
(۳) قربانی
کی کھال کے
عوض ٹھیکہ
دینے یا گوشت
کٹوانے کا
شرعی حکم کیا
ہے؟
جواب
قربانی
کی کھال کے
عوض ٹھیکہ
دینا یا گوشت
کٹوانا شرعاً
ممنوع و
ناجائز ہے کہ
یہ تمول کے
لئے معنی بیع
میں ہے در
مختار میں ہے ’’ لا
یعطٰی اجر
الجزار منہا
لانہ کبیع
واستفیدت من
قولہ علیہ
الصلاۃ
والسلام من
باع جلد
اضحیتہ فلا اضحیۃ
لہ ‘‘ رد
المحتار میں
ہے ’’
لان کلا منہا
معاوضۃ لانہ
انما یعطی
الجزار بمقابلۃ
جزرہ والبیع
مکروہ فکذا ما
فی معناہ کفایۃ ‘‘(ج۹ ص۴۷۵ کتاب
الاضحیۃ) ہدایہ
میں ہے ’’
ولا یعطی اجر
الجزار من
الاضحیۃ
لقولہ علیہ
الصلاۃ
والسلام لعلی
رضی اللہ عنہ
تصدق بجلالہا
و خطامہا ولا
تعط اجر
الجزار منہا
شیئا والنہی عنہ
نہی عن البیع
ایضا لانہ فی
معنی البیع‘‘ (ہدایہ ج ۴ ص ۴۵۰
کتاب الاضحیۃ)
ایسا ہی
فتاویٰ رضویہ
جلد ۸
صفحہ ۴۷۹
مطبع سنی
دارالاشاعت
میں ہے۔
واللہ تعالیٰ
اعلم
سوال
(۴) قربانی
بینک میں یا
ٹھیکیدار کو
رقم جمع کر دینے
سے صاحب نصاب
قربانی نیز حج
تمتع و قران
میں واجب
قربانی سے بری
الذمہ ہوگا یا
نہیں؟
جواب
قربانی
بینک میں یا
ٹھیکیدار کو
رقم جمع کردینے
سے موجودہ
حالات میں
صاحب نصاب کا
اپنی واجب
قربانی سے ،
اسی طرح حج
تمتع و قران
میں حاجی کا
واجب قربانی
سے بری الذمہ
ہونا محض
محتمل ہے ،
مظنون و متیقن
نہیں کیوں کہ
رقم جمع کرنے
والے کو یہ
معلوم نہیں ہو
پاتا کہ اس کی
قربانی متعین
وقت پر ہوئی
یا نہیں یا یہ
کہ سرے سے
قربانی ہی
نہیں ہوئی ۔
اسی طرح یہ
پتہ نہیں چل
پاتا کہ رمی
قربانی سے
پہلے کر لی
ہے، نہ ہی
معلوم ہوپاتا
ہے کہ حلق یا
قصر سے پہلے
قربانی ہو چکی
ہے خصوصا
سعودی قربانی
بینکوں میں ہر
گز قربانی کی
رقم نہ دی
جائے کہ وہ
بالعموم
وہابیہ سے ذبح
کراتے ہیں جو
اپنے مذہب کے
مطابق افعال
حج و دیگر
عبادات کو انجام
دینے کے سلسلے
میں حجاج پر
جبر بھی کرتے ہیں
۔ جبکہ حج
تمتع و قران
والے حاجی پر
واجب ہے کہ
قربانی سے
پہلے رمی کرے
پھر قربانی
کرے پھر حلق
یا قصر کرے ۔
ہاں اگر کوئی
ایسی تنظیم یا
ادارہ یا ایسا
فرد ہو جو
لائق اعتماد
ہو اور قربانی
کی رقم جمع
کرنے والے کو
بھی اس کے
حالات کے پیش
نظر ذاتی طور
پر اطمینان کافی
ہو اور وہ
قربانی ہو
جانے کی اطلاع
دیدے تو یہ
صورت اب
احتمال سے ظن
غالب ملحق
بالیقین کے
درجہ میں داخل
ہو گی، اور
حاجی یا
قربانی کرنے
والے کو شرعاً
بری الذمہ
قرار دیا جائے
گا ۔پھر بھی
اگر بعد میں
معلوم ہوا کہ قربانی
افعال حج میں
ترتیب کے خلاف
ہوئی ہے تو دم
واجب ہوگا۔
ہدایہ میں ہے
’’ فیبتدی
بجمرۃ العقبۃ
فیرمیہا من
بطن الوادی
بسبع حصیات
مثل حصی الخذف
لان النبی
علیہ السلام
لما اَتی منیٰ
لم یعرج علیٰ
شی ٔ حتی رمیٰ
جمرۃ العقبۃ ۔
ثم یذبح ان
احب ثم یحلق
او یقصر لما
روی عن رسول
اللہ صلی اللہ
تعالیٰ علیہ
وسلم انہ قال
انّ اوّل
نسکنا فی
یومنا ہٰذا ان
نرمی ثم نذبح
ثم نحلق، ولان
الحلق من
اسباب التحلل
وکذا الذبح
حتی یتحلل بہ
المحصر فیقدم الرمی
علیہما ثم
الحلق من
محظورات
الاحرام فیقدم
علیہ الذبح
وانما علق
الذبح
بالمحبۃ لان
الدم الذی یاْ
تی بہ المفرِد
تطوع والکلام
فی المفرد‘‘ (ہدایہ
اولین ص ۲۲۹؍۲۳۰) ردالمحتار
میں ہے ’’ویجب
(الذبح) علی
القارن
والمتمتع‘‘ (ج۳ص ۵۳۴ کتاب الحج )
واللہ تعالیٰ
اعلم
سوال
(۵) قربانی
بینک یا
ٹھیکیدار کی
طرف سے مقرر
کردہ وقت کے
بعد حلق یا
قصر کرنے نیز
احرام اتارنے کا
کیا حکم ہوگا؟
اور وقت مقرر
سے پہلے رمی
جمار نہ کر
سکا تو کیا
حکم ہوگا؟ دم
واجب ادا ہوگا
یا نہیں؟ رمی،
قربانی اور
حلق میں ترتیب
معلوم نہ ہونے
کی صورت میں
شرعاً کیا حکم
ہوگا؟
جواب
اگر وجوب
قربانی کی
ادائیگی سے
بری الذمہ ہونامحض
محتمل ہو تو
ٹھیکیدار کی
طرف سے مقرر
کردہ وقت کے
بعد متمتع ،
قارن و محصر
کو حلق یا قصر کرنے
نیز احرام
اتارنے کی
اجازت نہ ہوگی
۔ اور اگر ظن
غالب ہو تو
جائز ہوگا۔ ظن
غالب کی ایک صورت
مثلاً یہ ہے
کہ کسی قابل
اعتماد شخص نے
خبر دی یا ٹھیکیدار
پابند شرع ہے
اس نے معتبر
ذریعے سے خبر دیدی
کہ قربانی
ہوگئی ۔۔ جس
صورت میں بری
الذمہ ہونے کا
محض احتمال ہو
اس میں دم
واجب ہوگا اور
اگر ظن غالب
ہو تو دم واجب
نہ ہوگا ۔اور
حاجی (متمتع،
قارن، محصر)
بری الذمہ قرار
دیا جائے گا۔
واللہ تعالیٰ
اعلم
سوال
(۶) بڑے
جانوروں کے
شرکا اور ذبح
کرنے والوں کے
عقائد معلوم
نہ ہونے کی
صورت میں
قربانی کا کیا
حکم ہوگا؟
جواب
اس
کی چند صورتیں
ہیں :(۱)-جس
آبادی میں
سنی صحیح
العقیدہ لوگ
رہتے ہوں وہاں
قربانی صحیح
ہو جائے گی
اگر چہ شریک
یا ذابح کے
عقائد کی
تحقیق نہ ہو ۔
کہ ظاہر حال
سنی صحیح
العقیدہ ہونے
کا ہے۔
والحکم علی
الظاہرواللہ
یتولی
السرائر۔وہو
تعالیٰ اعلم(۲)- جس
آبادی میں
ایسے بد مذہب
بھی رہتے ہوں
جن کی بدمذہبی
حد کفر کو
پہنچی ہوئی ہے
خواہ کفر کلامی
ہو یا فقہی
مگر اکثریت و
غلبہ سنی صحیح
العقیدہ
لوگوں کا ہے
تو ظاہر حال
کے مطابق
قربانی کی صحت
کا حکم ہوگا
۔البتہ بہتر
یہ ہے کہ ذابح
یا شریک کے
عقائد کی
تحقیق کرلے۔
وہو تعالیٰ
اعلم(۳) -جس
آبادی میں
غلبہ بد مذہب
کا ہو تو وہاں
ذابح یا شریک
کی صحت عقائد
کی تحقیق کے
بغیر قربانی
جائز نہ ہوگی۔
وہو تعالیٰ
اعلم(۴)- اگر
قربانی کے بعد
یہ ظاہر ہوا
کہ مشترک
جانور میں
کوئی مذکورہ
بد مذہب شامل
ہوگیا یا اس
نے ذبح کیا ہے
تو قربانی
صحیح نہ ہوگی۔
اگر ایام قربانی
باقی ہیں تو
پھر سے قربانی
کرنا واجب ہے
ورنہ اتنی رقم
کا تصدق لازم۔
فتاویٰ رضویہ
میں ہے ’’
قادیانی صریح
مرتد ہیں ان
کا ذبیحہ قطعی
مردار ہے اور
غیر مقلد
وہابیہ پر
بوجوہ کثیرہ
الزام کفر ہے
۔ ان میں جو
منکر ضروریات
دین ہیں وہ تو
بالاجماع
کافر ہی ہیں
ورنہ فقہائے
کرام ان پر
حکم کفر
فرماتے ہیں
اور ذبیحہ کا
حلال ہونا نہ
ہونا حکم فقہی
ہے ۔۔۔ جمہور
فقہائے کرام
کے قول پر
حرام و مردار
کا کھانا
ہوگا‘‘(ج۸ ص ۳۳۳
سنی
دارالاشاعت
مبارکپور) درمختار
میں ہے ’’
ان کان شریک
الستۃ
نصرانیاً او
مرید اللحم لم
یجز عن واحد
منہم‘‘(ج۹ ،کتاب
الاضحیۃ)واللہ
تعالیٰ اعلم
سوال
(۷) خریدتے
وقت شرکا کی
تعیین نہ کرنے
کی صورت میں
شرعاً کیا حکم
ہوگا؟
جواب
شرکا کی
تعیین نہ کرنے
کی صورت میں
قربانی شرعاً
درست نہ ہوگی
۔ ان جانوروں
کا مالک وکیل
(ٹھیکیدار) ہو
جائیگا کیوں
کہ وکیل نے موکل
کی توکیل کی
شرط کے خلاف
خریداری کی۔
موکل نے قابل
قربانی ایک
پورے حصے کے
خریدنے کا وکیل
کیا تھا ، نہ
کہ بطور مشاع
تمام خریدے
ہوئے جانور
میں سبع (
ساتویں حصے)
سے کم کا ، اور
اپنی ملک کا
جانور دوسرے
کی طرف سے
کرنے پر
قربانی صحیح
نہ ہوگی ۔ ہاں
اگر ایک ایک
جانور کو نام
بنام خریدے تو
قربانی درست
ہو جائے گی کہ
اس میں موکل
ہی مالک ہوگا
، اور وکیل نے
اس کی اجازت
سے قربانی کی
۔ لہٰذا واجب
ادا ہوگیا۔
فتاویٰ
قاضیخاں میں
ہے ’’
رجل ضحی بشاۃ
نفسہ عن غیرہ
لا یجوز ذالک
سواء کان
بامرہ او بغیر
امرہ لانہ لا
وجہ لتصحیح الاضحیۃ
عن الآمر
بدون ملک
الآمر
والملک للآمر
لا یثبت الا
بالقبض ولم
یوجد القبض لا
من الآمر ولا
من نائبہ ‘‘ (ج۳ص۳۵۲ کتاب
الاضحیۃ) فتاویٰ
عالمگیری میں ہے
’’ ذکر فی
فتاویٰ ابی
اللیث رحمہ
تعالیٰ اذا ضحی
بشاۃ نفسہ عن
غیرہ بامر
ذالک الغیر او
بغیرامرہ لا
تجوز لانہ لا
یمکن تجویز
التضحیۃ عن الغیر
الا باثبات
الملک لذالک
الغیر فی الشاۃولن
یثبت الملک لہ
فی الشاۃ الا
بالقبض ولم
یوجد قبض
الامر ہٰہنا
بنفسہ ولا
بنائبہ کذا فی
الذخیرۃ‘‘ (ج۵ ص۳۰۲ کتاب
الاضحیۃ )
واللہ تعالیٰ
اعلم
باسمہ
تعالیٰ
شرعی
کونسل آف
انڈیا بریلی
شریف کا
گیارہواں سہ
روزہ فقہی
سمینار
منعقدہ
: ۱۹،
۲۰، ۲۱؍جمادی
الاولیٰ ۱۴۳۵ھ
/ ۲۱،۲۲،۲۳؍
مارچ ۲۰۱۴ء
بروز جمعہ،
ہفتہ، اتوار
بمقام:
رضا منزل ،
تاجدار
اہلسنت ہال ،
دارالعلوم
نوری ۔
کھجرانہ،
اندور )ایم
، پی(
مجلس سوم:
منعقدہ ۲۰؍ جمادی
الاولیٰ ۱۴۳۵ھ/۲۲؍مارچ ۲۰۱۴ء بروز ہفتہ
عنوان:
مساجد میں
قائم مکتبوں
اور سماجی
خدمات کے نام
سے زکوٰۃ کی
تحصیل و
استعمال کا
شرعی حکم
سوال
(۱): اسپتالوں
، دینی و
دنیاوی مخلوط
تعلیم گاہوں اور
غریب لڑکیوں
کی شادی بیاہ
کے لئے فلاحی
تنظیموں کا
مال زکوٰۃ و
دیگر صدقات
وصول کرنا اور
ان پر خرچ
کرنا کیا جائز
ہے؟ اور کیا
اس سے زکوٰۃ
ادا ہو جائے
گی؟
جواب:
دینی اور
دنیوی تعلیم
گاہوں اور
لڑکیوں کی شادی
و بیاہ کیلئے
فلاحی
تنظیموں کا
زکوٰۃ وصول
کرنا اور اس
کو مذکورہ فنڈ
میں صرف کرنے
کے لئے حیلہ
شرعیہ
کرنامنع ہے کہ
اس میں ایجاب
زکوٰۃکی حکمتوں
کا یکسر ابطال
ہے ۔اگر کوئی
انفرادی طورپر
مال زکوٰۃ
محتاج بچیوں
کی شادی و
بیاہ پر بعدحیلہ
شرعیہ خرچ کرے
تو اس کی
اجازت ہے ۔یا
وہ مال زکوٰۃ
مزکی خود
مستحق بچیوں
کو دیدے۔واللہ
تعالیٰ اعلم
سوال(۲): مساجد
میں قائم وہ
مکاتب کہ جن
میں اہل محلہ
کے بچے قاعدے
و سیپارے
پڑھتے ہیں ان
کے لئے زکوٰۃ
وصول کرنا اور
ان پر خرچ
کرنے کے لئے
حیلہ شرعی
کرنا کیسا ہے؟
ایسا کرنے
والوں کے لئے
شریعت کا کیا
حکم ہے؟
جواب: جس جگہ
کے مسلمان
اپنے دیگر
اموال سے
مکاتب کی
ضروریات پوری
کرنے کی حیثیت
نہ رکھتے ہوں
وہاں تعلیم
قرآن کے لئے
بقدر حاجت
زکوٰۃ وصول کرنا
اور بعد حیلہ
شرعیہ خرچ
کرنا درست ہے ۔ واللہ
تعالیٰ اعلم
سوال
(۳):
حیلہ
شرعی ضرورت و
حاجت شرعیہ کے
وقت کیا جاتا
ہے تو کیا
مذکورہ چیزوں
پر مال زکوٰۃ
صرف کرنے کے
لئے ضرورت یا
حاجت شرعیہ کا
تحقق ہو چکا
ہے؟
جواب:
ضرورت و حاجت
کا تحقق کہاں
اور کس کے لئے
ہے یا نہیں اس
کا فیصلہ تحقق
ضرورت و حاجت
کے بعد ہی ہو
سکتا ہے ۔ اور
اس کے مراتب
کا بھی یہی
حال ہے ۔ علی
العموم تمام
جگہوں کے لئے
تحقق ضرورت کا
حکم نہیں لگایا
جا سکتا ہے۔ واللہ
تعالیٰ اعلم
سوال(۴): کیا
حربی کو صدقہ
نافلہ دیا جا
سکتا ہے؟
جواب:
حربی کافر کو
کسی قسم کا
صدقہ دینا
جائز نہیں ۔
البتہ مضرت
مظنون کے سد
باب کے لئے
اسے بے نیت
تصدق کچھ دے
سکتے ہیں۔ واللہ تعالیٰ
اعلم
سوال(۵): آج
ملک میں کثرت
سے مدارس
،مکاتب،
لائبریری،
دارالاشاعت
اور
دارالافتاء
وغیرہ پائے جاتے
ہیں ۔ کیا ہر
طرح کے دینی
اداروں کے لئے
زکوٰۃ و فطرہ
وصول کرنے اور
ان پر خرچ
کرنے کے لئے حیلہ
شرعی کی اجازت
ہوگی؟ یا ان
میں کچھ تفصیل
ہے؟ واضح
فرمائیں۔
جواب:
جن مقامات کے
حالات سے
معلوم ہو کہ
دعوت و تبلیغ
اور اشاعت دین
کی خاطر
دارالافتاء
اور لائبریری
کے لئے کتب کی
فراہمی بلا
زکوٰۃ نہیں ہو
سکتی ہے وہاں
بعد حیلہ خرچ
کی اجازت ہوگی ۔
سوال
(۶): ایک
خاص ادارہ کے
نام سے وصول
کی گئی زکوٰۃ
کسی دوسرے
ادارے یا کسی
نیک کام میں
صرف کرنا کیسا
ہے؟ کیا اس سے
زکوٰۃ دینے
والوں کی
زکوٰۃ ادا ہو
جائے گی؟ ایسا
کرنے والوں پر
شریعت کا کیا
حکم عائد ہوتا
ہے؟
جواب:
کسی خاص ادارہ
کے نام وصول
کی گئی زکوٰۃ
حیلہ شرعی سے
قبل کسی بھی
ادارہ یا کار
خیر میں صرف کرنا
جائز نہیں کہ
ادائیگی زکوٰۃ
کے لئے تملیک
فقیر شرط ہے
اور مزکی نے
جس ادارہ کے
نام سے زکوٰۃ
بھیجی ہے اسی
ادارہ کے لئے
حیلہ شرعیہ
کرایاجائے۔واللہ
تعالیٰ اعلم
سوال(۷): مال
زکوٰۃ سے
محتاجوں کو
تجارت کے لئے
قرض دینا اور
کاروبار چلنے
پر ان سے واپس
لے لینا کیا یہ
جائز ہے؟
جواب: کسی
تنظیم یا وصول
کنندہ کا مال
زکوٰۃ سے بغرض
تجارت محتاجوں
کو قرض دینا
جائز نہیں کہ
مال زکوٰۃ میں
خیانت کے ساتھ
بعض حالات میں
تاخیر ادائے
زکوٰۃ بھی
ہوگی۔ واللہ
تعالیٰ اعلم
)اس
پر ارکان فیصل
بورڈ کے ساتھ
جملہ مندوبین
کرام کے دستخط
ثبت ہیں۔(
شرعی
کونسل آف
انڈیا ،سہ
روزہ فقہی
سیمینار کے
شرکاء
مندرجہ
ذیل اکابر
مشائخ کرام نے
شرکت فرمائی۔
(۱) سراج
المفسرین ،
افقہ الفقہاء
فاتح عرب وعجم
، تاج الشریعہ
حضرت علامہ
مفتی محمد
اختر رضا قادری
ازہری، بانی
جامعہ
الرضا
ورکن فیصل
بورڈ شرعی
کونسل آف
انڈیا۔
(۲) ممتاز
الفقہاء محدث
کبیر حضرت
علامہ مفتی ضیاء
المصطفیٰ
قادری امجدی،
بانی جامعہ
امجدیہ ، رکن
فیصل بورڈ
شرعی کونسل
آف
انڈیا۔
(۳) حضرت
علامہ مفتی
محمد مجیب
اشرف رضوی،
جامعۃ الرضویہ
دار العلوم
امجدیہ
ناگپور۔
(۴) شہزادئہ
صدر الشریعہ
حضرت علامہ
بہاء المصطفیٰ
قادری، جامعۃ
الرضا ، بریلی
شریف۔
(۵) مفتی
باسنی حضرت
علامہ مفتی
ولی محمد
صاحب، مدرسہ
اسلامیہ
رحمانیہ
،باسنی
ناگور۔
(۶) مفتی
مالوہ حضرت
مفتی محمد
حبیب یار خان
صاحب ، صدر
دارالعلوم
نوری
اندور،ایم
پی۔
مندرجہ
ذیل حضرات نے
مقالات تحریر
فرمائے اورسیمینار
میں شرکت بھی
فرمائی:
(۱) حضرت
مفتی محمد
شہاب الدین
رضوی ، استاذ
ومفتی فیض
الرسول
برائوں شریف،
سدھارتھ
نگریوپی۔
(۲) حضرت
مفتی قاضی
شہید عالم
رضوی، استاذ
ومفتی جامعہ
نوریہ رضویہ
باقر گنج،
بریلی شریف۔
(۳) حضرت
مفتی محمد
رفیق عالم
رضوی،
استاذ ومفتی
جامعہ نوریہ رضویہ
باقر گنج،
بریلی شریف۔
(۴) حضرت
مفتی حکیم
محمد مظفر
حسین رضوی،
صدر مفتی
مرکزی
دارالافتاء ، ۸۲؍
سوداگران
بریلی شریف۔
(۵) حضرت
مفتی محمد آل
مصطفی
مصباحی،
استاذ ومفتی
جامعہ رضویہ
امجدیہ ،
گھوسی ، مئو۔
(۶) حضرت
مفتی محمد
شمشاد احمد
مصباحی،
استاذ ومفتی جامعہ
رضویہ امجدیہ
، گھوسی ،
مئو۔
(۷) حضرت
مفتی محمد ابو
الحسن رضوی،
استاذ ومفتی جامعہ
رضویہ امجدیہ
، گھوسی ،
مئو۔
(۸) حضرت
مفتی محمد
عاقل رضوی ،
صدر مدرس
جامعہ رضوی
منظر اسلام،
بریلی شریف۔
(۹) حضرت
مفتی محمد
شمشاد حسین
رضوی ،صدر
مدرس مدرسہ
شمس العلوم گھنٹہ
گھر، بدایوں۔
(۱۰) حضرت
مفتی محمد
اختر حسین
رضوی، استاذ
ومفتی دارالعلوم
علیمیہ جمدا
شاہی ، بستی۔
(۱۱) حضرت
مفتی محمد
حبیب اللہ
مصباحی،
استاذ ومفتی
دارالعلوم
فضل رحمانیہ
،پچپڑوا،
بلرامپور۔
(۱۲) حضرت
مفتی احمد رضا
رضوی، استاذ
ومفتی دار العلوم
اہل سنت تنویر
الاسلام،
امرڈوبھا ،
سنت کبیر نگر۔
(۱۳) حضرت
مفتی محمد
عالمگیر رضوی
مصباحی،
استاذ ومفتی
دارالعلوم
اسحافیہ،
جودھپور،
راجستھان۔
(۱۴) راقم
الحروف محمد
یونس رضا
اویسی، خادم
تدریس وافتا
جامعۃ الرضا ،
بریلی شریف۔
وہ
حضرات جن کے
مقالات موصول
ہوئے مگر وہ
کسی عذر کی
وجہ سے شریک
نہ ہوسکے۔:
(۱) حضرت
مفتی محمد
شفیق احمد
شریفی،
دارالعلوم غریب
نواز، الٰہ
آباد۔
(۲) حضرت
مفتی محمد
انور نظامی،
مدرسہ فیض
النبی کٹگھرا،
ہزاری باغ
،جھارکھنڈ۔
(۳) حضرت
مفتی قاضی فضل
احمد ، ضیاء
العلوم ، بنارس۔
(۴) حضرت
مفتی ناظر
اشرف ، ناگپور۔
(۵) حضرت
مفتی شیر محمد
خاں رضوی ،
استاذ ومفتی
دارالعلوم
اسحاقیہ ،
جودھپور۔
مذکورہ
بالا حضرات کے
علاوہ مندرجہ
ذیل حضرات
شریک سیمینار
رہے ان میں سے
بعض حضرات نے
اپنی زبانی
رائے سے
سیمینار کو
شاد کام کیا:
(۱) شہزادئہ
تاج الشریعہ
حضرت علامہ
عسجد رضا قادری
، ناظم اعلیٰ
شرعی کونسل
آف انڈیا
بریلی شریف۔
(۲) داماد
تاج الشریعہ
حضرت مفتی
محمد شعیب رضا
قادری، مفتی
مرکزی
دارالافتاء
بریلی شریف۔
(۳) حضرت
مفتی محمد
محمود اختر
رضوی، رضوی
امجدی دارالافتا
ممبئی۔
(۴) حضرت
مفتی محمد
انور علی
قادری، قادری
منزل سید فتح
شاہ ولی نگر
آنند نگر،
روڈ ہبلی
کرناٹک۔
(۵) حضرت
علامہ محمد
رضوان احمد
نوری شریفی ،
شیخ الادب شمس
العلوم
گھوسی، مئو۔
(۶) حضرت
علامہ محمد
حنیف خاں رضوی
، صدر المدرسین
جامعہ نوریہ
رضویہ ، باقر
گنج ، بریلی
شریف۔
(۷) حضرت
مفتی نور الحق
رضوی ، شیخ
الحدیث دارالعلوم
نوری ،
کھجرانہ
،اندور۔
(۸) حضرت
مولانا ڈاکٹر
غلام جابر
شمس، مرکز
برکات رضا ،
میرا روڈ
ممبئی۔
(۹) حضرت
مولانا محمد
علیم الدین
رضوی، صد ر
المدرسین
مدرسہ دینیات
تعلیم
القرآن ۔
(۱۰) حضرت
مولانا انوار
احمد قادری
امجدی ، مرکز
تربیت افتا ء،
اوجھاگنج۔
(۱۱) حضرت
مفتی محمد
منصور رضا ،
مدینہ عربی
یونیورسٹی ،
نانپارہ۔
(۱۲) حضرت
محمد رفیق
الاسلام
مصباحی،
جامعہ غوثیہ
غریب نواز ،
اندور۔
(۱۳) حضرت
مفتی محمد عبد
السلام
امجدی، جامعہ
غوثیہ غریب
نواز ، اندور۔
(۱۴) حضرت
مولانا محمد
حنیف خاں
قادری ، مدرسہ
نظام العلوم
شیرانی
آباد،
راجستھان۔
(۱۵) حضرت
مولانا محمد
عاشق حسین
کشمیری ،
جامعۃ الرضا ،
بریلی شریف۔
(۱۶) حضرت
مفتی محمد
شمشاد احمد
مصباحی ، جامع
مسجد
مناوردھاراایم
پی۔
(۱۷) حضرت
مفتی مقصود
اختر ،رضوی
امجدی
دارالافتاء
ممبئی۔
(۱۸) حضرت
مفتی
دلشاداحمد قادری،رضوی
امجدی
دارالافتاء
ممبئی۔
(۱۹) حضرت
مولانا محمد
فاروق مصباحی
، استاذ جامعہ
صابریہ ، پریم
نگر جھانسی۔
(۲۰) حضرت
قاری محمد
لیاقت رضا
نوری،
دارالعلوم رضویہ
غریب نواز ،
اجّین ایم پی۔
(۲۱) حضرت
مولانا سلیم
رضا مصباحی ،
دارالعلوم فیضان
غریب نواز ،
فتح آباد۔
(۲۲) حضرت
مولانا غلام
مصطفی قادری
برکاتی ، دارالعلوم
انوار رضا ،
نوساری
گجرات۔
(۲۳ ) حضرت
مولانا مجاہد
رضا مصباحی ،
دار العلوم نوری
، کھجرانہ ،
اندور۔
(۲۴) حضرت
مولانا توحید
ارشد مصباحی،
دار العلوم نوری
، کھجرانہ ،
اندور۔
(۲۵) حضرت
مولانا شریف الحق
،دار العلوم
نوری ،
کھجرانہ ،
اندور۔
(۲۶) حضرت
مولانا محمد
عبد العلیم
رضوی، دار
العلوم نوری ،
کھجرانہ ،
اندور۔
(۲۷) حضرت
مولانا نصیر
احمد
قادری،دار
العلوم نوری ،
کھجرانہ ،
اندور۔
(۲۸) حضرت
مولانا محمد
ہاشم رضا
مصباحی، دار
العلوم نوری ،
کھجرانہ ، اندور۔
(۲۹) حضرت
مولانا محمد
مصطفی
رضا،دار
العلوم نوری ،
کھجرانہ ،
اندور۔
(۳۰) حضرت
مولانا محمد
حنیف
نوری،دار
العلوم نوری ،
کھجرانہ ،
اندور۔
(۳۱) حضرت
مولانا محسن
عالم
رضوی،دار
العلوم نوری ،
کھجرانہ ،
اندور۔
(۳۲) حضرت
مولانا عاشق
علی، دار
العلوم نوری ،
کھجرانہ ،
اندور۔
(۳۳) حضرت
مولانا محمد
فیروز عالم
،دار العلوم
نوری ،
کھجرانہ ،
اندور۔
(۳۴) حضرت
مولانا محمد
کلیم
قادری،دار
العلوم نوری ،
کھجرانہ ،
اندور۔
(۳۵) حضرت
مولانا محمد
موسیٰ قادری،
دار العلوم نوری
، کھجرانہ ،
اندور۔
(۳۶) حضرت
مولانا محمد
عمران قادری،دار
العلوم نوری ،
کھجرانہ ،
اندور۔
(۳۷) حضرت
مولانا محمد
ہارون
رضوی،دار
العلوم نوری ،
کھجرانہ ،
اندور۔
(۳۸) حضرت
مولانا محمد
اسلم رضا،دار
العلوم نوری ،
کھجرانہ ،
اندور۔
(۳۹) حضرت
مولانا محمد
سکندر
قادری،دار
العلوم نوری ،
کھجرانہ ،
اندور۔
(۴۰) حضرت
مولانامحمد
شعیب
قادری،دار
العلوم نوری ،
کھجرانہ ،
اندور۔
(۴۱) حضرت
مولانا محمد
شاکر
القادری، دار
العلوم نوری ،
کھجرانہ ،
اندور۔
(۴۲) حضرت
مولانا سید
شاکر علی
بخاری،
اندور۔
(۴۳) حضرت
مولانا عبد
الحبیب رضوی،
ناگپور
(۴۴) حضرت
مولانا محمد
اعظم، اندور۔
(۴۵) حضرت
مولانا محمد
مقصور رضوی،
اندور۔
(۴۶) حضرت
مولانا محمد
افروز عالم
مصباحی،
اندور۔
(۴۷) حضرت
مولانامبارک
علی ، گھوسی۔
(۴۸) حضرت
مولاناغلام
سرور
رضوی،اندور۔
(۴۹) حضرت
مولانامحمد
اقبال احمد
رضوی، اندور۔
(۵۰) حضرت
مولانامحمد
حنیف نوری،
اندور۔
(۵۱) حضرت
مولانامحمد
محبوب عالم
رضوی، اجین۔
(۵۲) حضرت
مولانامحمد
آفاق حسین ،
اندور۔
(۵۳) حضرت
مولانامحمد
صابر رضوی،
ناگپور۔
(۵۴) حضرت
مولانا محمد
الیاس رضوی،
اندور۔
(۵۵) حضرت
مولاناعبد
الواجد رضوی،
آکولہ۔
(۵۶) حضرت
مولاناقاضی
سید شاہ نور
الدین
ذوالفقاری،
آکولہ۔
(۵۷) حضرت
مولاناثمیر
الحق قادری ،
رتلام۔
(۵۸) حضرت
مولاناعبد
الجباررضوی،
اندور۔
(۵۹) حضرت
مولانا محمد
خالد رضا،
اندور۔
(۶۰) حضرت
مولانامحمد
عظیم الدین
برکاتی،
اندور۔
(۶۱) حضرت
مولاناعبد
الستار
قادری،
اندور۔
(۶۲) حضرت
مولانامحمد
سلیم رضوی
مصباحی ،
اندور۔
مذکورہ
بالا حضرات کے
علاوہ قرب
وجوار کے
مدارس کے علماء
، ائمہ ٔ
مساجد بھی
شریک تھے۔
وہ
حضرات جنہیں
سیمینار میں
شرکت کی دعوت
دی گئی مگر وہ
کسی عذر کی
وجہ سے
سیمینار میں
شریک نہ ہوسکے:
(۱) شیخ
الاتقیاء
علامہ سید شاہ
اویس مصطفی
قادری واسطی،
سجادہ نشین
خانقاہ عالیہ
بلگرام شریف،
ہردوئی۔
(۲) حضرت
مفتی محمد
صالح رضوی،
شیخ الحدیث
جامعۃ الرضا
بریلی شریف۔
(۳) حضرت
مفتی عاشق
الرحمن ،
جامعہ حبیبیہ
الٰہ آباد۔
(۴) حضرت
مولانا مجاہد
حسین ،
دارالعلوم
غریب نواز
الٰہ آباد۔
(۵) حضرت
علامہ مفتی
عبد الشکور ،
شیخ الحدیث
جامعہ اشرفیہ مبارکپو۔
(۶) حضرت
مفتی محمد
معراج
القادری،
استاذ ومفتی جامعہ
اشرفیہ
مبارکپور۔
(۷) حضرت
مفتی محمد
ناظم علی،
استاذ ومفتی
جامعہ اشرفیہ
مبارکپور۔
(۸) حضرت
مفتی محمد
ایوب صاحب ،
صدر مدرس
جامعہ نعیمیہ
مرادآباد۔
(۹) حضرت
مفتی محمد
ہاشم صاحب ،
استاذ ومفتی
جامعہ نعیمیہ
مرادآباد۔
(۱۰) حضرت
مولانا سید
حسینی میاں ،
ایڈیٹر سنی
آواز ،
ناگپور۔
(۱۱) حضرت
مفتی شبیر حسن
رضوی، جامعہ
اسلامیہ روناہی
، فیض آباد۔
(۱۲) حضرت
مولانا نور
الحسن ،جامعہ
اسلامیہ روناہی
، فیض آباد۔
(۱۳) حضرت
مفتی عزیر
عالم ،صدر
مدرس
دارالعلوم اہل
سنت تدریس الاسلام
، بسڈیلہ ،
سنت کبیر نگر